• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آنے والے وقتوں کے تین پراجیکٹ اور جین کا مستقبل۔جین (30،آخری قسط)۔۔وہاراامباکر

آنے والے وقتوں کے تین پراجیکٹ اور جین کا مستقبل۔جین (30،آخری قسط)۔۔وہاراامباکر

“ذرا دکھاوٗ تو سہی کہ تُم نغمے کے سُر کیسے تقسیم کرو گے؟
اس سے پہلے یہ دکھانا پڑے گا کہ تم اس میں تمیز کر سکتے ہو
کہ کیا تقسیم کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں”
۔ایک کلاسیکل سنسکرت نظم سے ماخوذ

انسانی جینیات کے آگے تین بڑے پراجیکٹ ہیں۔ تینوں کا تعلق تفریق کرنے، تقسیم کرنے اور پھر دوبارہ تعمیر کر دینے سے ہے۔

پہلا پراجیکٹ انسانی جینوم میں سے ٹھیک انفارمیشن معلوم کرنا ہے۔ اس کے لئے نقطہ آغاز ہیومن جینوم پراجیکٹ تھا۔ اس نے بڑے دلچسپ سوال پیدا کئے کہ آخر تین ارب نیوکلئیوٹائیڈ کیا کوڈ کرتے ہیں۔ اس میں سے فنکشنل عناصر کونسے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس میں پروٹین بنانے والے جین ہیں جو اکیس سے چوبیس ہزار کے درمیان ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ اس مین ریگولیٹری جینز کا سیکونس بھی ہے۔ اور ڈی این اے کے لمبے حصے (انٹرون) ہیں جو جینز کو ماڈیول میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس میں دسیوں ہزار آر این اے مالیکیول بنانے کی انفارمیشن ہے جو پروٹین نہیں بناتے لیکن یوں لگتا ہے کہ خلیاتی فزیولوجی میں کئی طرح کا کردار ادا کرتے ہوں گے۔ “جنک” کہلائے جانے والے ڈی این اے کی لمبی شاہراہیں ہیں۔ اور اس کا امکان نہیں لگتا کہ یہ آخر میں جنک ہی نکلے گا اور ممکن ہے کہ سینکڑوں ایسے فنکشنز کا کوڈ رکھتا ہو جو ابھی ہمیں معلوم نہیں۔ ایسے بل اور تہیں ہیں جو کروموزوم کے ایک حصے کی ایسوسی ایشن دوسرے سے تھری ڈائمنشنل سپیس میں بناتی ہیں۔ کیا ان کا بھی مطلب ہے اور اگر ہے تو کیا؟ یہ بھی نامعلوم ہے۔

ان میں سے ہر عنصر کا کردار جاننے کے لئے ایک بین الاقوامی اشتراک سے ایک بڑا پراجیکٹ (ڈی این اے کا انسائیکلوپیڈیا) 2013 میں شروع کیا گیا۔ اس سے ہمیں امید ہے کہ جینوم کے بارے میں ہم بہتر جان سکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت انسانی جینوم کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہے اور بہت کم جینز کو براہِ راست سٹڈی کیا گیا ہے۔

میڈیکل جینیات میں اس پراجیکٹ کے اہم فوائد نکل سکتے ہیں۔ فنکشنل طور پر جینوم کو جان لینے کا مطلب بیماریاں دور کرنے میں اچھوتے طریقوں کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ نئے جینومک ایلیمنٹ ڈھونڈ لئے جائیں گے اور پیچیدہ بیماریوں کی شناخت کرنا ممکن ہو جائے گا۔ مثلا، ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ بلند فشارِ خون، ڈیپریشن، شیزوفرینیا، موٹانے، کینسر یا دل کی بیماری میں جینیاتی انفامیشن، طرزِ زندگی اور امکان کا کہاں پر کیسے ہاتھ ہے۔ جینوم میں سے اس کی ٹھیک شناخت ان بیماریوں کو حل کرنے کی طرف پہلا قدم ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا یہ کہ جڑواں کی سٹڈیز ہمیں صاف صاف بتاتی ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جینز کا “تمام” انسانی خاصیتوں میں کردار ہے۔ میڈیکل، ذہنی، رویوں کے بارے میں لیکن ان کو جین سے ڈھونڈنا توقع سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوا ہے۔ ایسی جینیاتی تبدیلیاں جو شخص پر طاقتور اثرات مرتب کرتی ہیں، ان کو تو جان لینا آسان ہے لیکن جب جین ملکر اور کئی ویری ایشنز کے کمبی نیشن کی وجہ سے کوئی اثر مرتب کریں تو اس کا پتا لگانا ناممکن رہا تھا۔

لیکن یہ رکاوٹ بھی شاید جلد دور ہو جائے۔ ایک سوچ کا تجربہ کریں جو پہلی نظر میں دور کی کوڑی لگے۔ فرض کیجئے کہ ہم ایک لاکھ بچوں کا جینوم لیتے ہیں۔ اور ان کے جینوم کی ڈیٹابیس بناتے ہیں۔ اس کے بعد تصور کریں کہ ہم ان بچوں کی “قسمت کا نقشہ” بنا لیتے ہیں۔ ہر بیماری، نارمل سے ہٹ کر کر نفسیاتی رویہ اور ان کو ایک الگ ڈیٹابیس میں ریکارڈ کرتے جاتے ہیں۔ یہ انسانی “فینوم” کا نقشہ ہو گا۔ اب تصور کریں کہ ہمارے پاس ایک کمپیوٹیشنل انجن ان ایک لاکھ جینوم اور فینوم کو میپ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اب بِگ ڈیٹا انالیسس کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے ہم جینوم میں لکھی انسانی فطرت کا کوڈ دیکھنا شروع کر دیں گی۔

قسمت کے اس غیرمعمولی نقشے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کو صرف بیماریوں تک محدود رہنے کی ضرورت نہیں۔ یہ اتنا وسیع اور گہرا ہو سکتا ہے جتنا ہم اسے بنانا چاہیں۔ پیدائش کے وقت وزن، نرسری سکول میں پرفارمنس، بلوغت کے وقت باغی پن، بانجھ پن، ادھیڑ عمر کا بحران، ڈیپریشن، آنکھ کا موتیا، منشیات کا استعمال، دل کا دورہ، کم عمری میں کینسر،، گنجا ہو جانا۔۔۔۔

کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی کی طاقت، ڈیٹا سٹوریج اور جین سیکونسنگ میں ہونے والی تیزرفتار ترقی کی وجہ سے مستقبل میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ جینوم میں زندگی کے واقعات کے نوٹ ڈالے جا سکتے ہیں۔

یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ اس طرح کے پراجیکٹ خود کیا کچھ نہیں بتا سکیں گے۔ بیماری اور قسمت کے بارے میں پیشگوئی میں کیا نہیں کر سکیں گے۔ ماحول کے اثرات نہیں ہوں گے۔ میڈیکل مداخلت کے اثرات نہیں ہوں گے۔ لیکن اس طرح کی سٹڈی کی سب سے بڑی طاقت یہی تو ہو گی کہ یہ بیماری کو باقی تمام فیکٹرز سے الگ کر دیں گے۔ قسمت اور ڈویلپمنٹ کا فرق بتا دیں گی۔ کونسی چیز میں ماحول کا کردار ہے اور کونسے میں نہیں؟ کونسی چیز صرف جین کے ہی قابو میں ہے؟ کس معاملے میں قسمت پیدائش کے وقت طے ہو چکی؟ کس حد تک طے ہو چکی؟ اور کونسی قسمت ابھی طے ہونی ہے؟ کیسے طے ہونی ہے؟ کونسی خود بنانی ہے؟ اصولی طور پر کمپیوٹیشنل پاور اور انسان ملکر جینوم کی پیشگوئی کی پوری طاقت سمجھ سکتے ہیں۔ ان میں تفریق کر سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسرا پراجیکٹ جین کو بدلنے کا ہے۔ تاریخ میں جین کی ڈلیوری کے طریقے ایفی شنٹ نہیں تھے۔ ضرر رساں تھے اور اپنی مرضی کی تبدیلی انسانی ایمبریو میں ڈالنا ناممکن تھا۔

یہ رکاوٹیں طے کر لی گئی ہیں۔ بڑی حد تک ایکوریسی حاصل کر لی گئی ہے۔ یہاں تک کہ ڈی این اے میں سے ایک حرف کو ہٹا کر اپنے مرضی کا دوسرا حرف لکھا جا سکتا ہے۔ اور باقی تین ارب حروف کو چھیڑے بغیر لکھا جا سکتا ہے۔

سٹیم سیل ٹیکنالوجی، نیوکلئیر ٹرانسفر، ایپی جینیٹک ماڈولیشن اور جین ایڈیٹنگ کے طریقوں کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ انسانی جینوم پر وسیع پیمانے پر تبدیلی کی جا سکے۔ ٹرانس جینک انسان پیدا کئے جا سکیں۔

ایسی ٹیکنالوجیز کی ایفی شنسی اور ایکوریسی کا ہمیں ابھی علم نہیں۔ کیا جین میں ایک جگہ پر تبدیلی سے کسی اور جگہ پر غیرارادی نتائج نکل سکتے ہیں؟ کیا کچھ جینوم میں ایڈیٹنگ آسان ہو گی اور کچھ میں مشکل؟ جین کی لچک کس بنیاد پر ہے؟ نہ ہی ہمیں معلوم ہے کہ اپنی مرضی کی ایک جگہ پر تبدیلی کر دینے سے باقی جینوم کی ریگولیشن تو متاثر نہیں ہو گی؟ اگر جینوم میں بٹرفلائی ایفیکٹ عام ہے تو یہ جین ایڈٹنگ ٹیکنالوجی کے لئے ایک بنیادی رکاوٹ رہے گا۔ ممکن ہے کہ جین کا الگ اور آزاد یونٹ کے طور پر نظر آنا ایک سراب ثابت ہو۔ ممکن ہے کہ یہ ڈسکریٹ یونٹ اس سے زیادہ آپس میں انٹرکنکشن رکھتے ہوں جتنا ہم خیال کرتے ہیں۔

“اس سے پہلے تمہیں دکھانا پڑے گا کہ تم اس میں تفریق کر سکتے ہو کہ کس کو تقسیم کیا جا سکتا ہے اور کس کو نہیں”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصور کریں ایسا دنیا کا جہاں پر بچے کے ہونے سے پہلے والدین کو انتخاب ہے کہ وہ آنے والے کی جینوم سیکونسنگ کر سکتے ہیں۔ ایسی میوٹیشن جو شدید معذوری کا سبب بنتی ہیں، انہیں شناخت کیا جا جکا ہے۔ اور اب اختیار والدین کے پاس ہے کہ وہ ابتدا میں ہی اس کو روک دیں۔ یا حمل سے بھی پہلے تفصیلی جینیاتی سکریننگ کے بعد صرف وہی بچے سلیکٹ کئے جائیں جو “نارمل” ہوں۔

جین کے پیچیدہ کمبی نیشن سے ہونے والے رجحانات کا علم ہو جائے۔ جب یہ بچے پیدا ہوں تو ان کے مطابق ان کی پرورش کی جائے۔ اگر کسی کا رجحان موٹاپے کی طرف ہے تو اس کے وزن کی نگرانی کی جائے، غذا اس کے مطابق رکھی جائے یا اس کی میٹابولک پروگرامنگ کی جائے جس میں ہارمون، ڈرگز اور بچپن کی جین تھراپی ہو سکتے ہیں۔ ایک بچہ جو ہائپرایکٹو ہو یا کسی چیز کی طرف توجہ دینے کا مسئلہ ہو، اس کی بیہیوئیر تھراپی یا شخصیت کے مطابق تعلیمی اداروں میں رکھا جائے۔

جب بیماریاں نمودار ہوں یا بڑھیں تو جین تھراپی کی مدد سے علاج کیا جائے۔ ٹھیک جین کو متاثرہ ٹشو میں داخل کیا جائے۔ مثال کے طور پر سسٹک فائبروسس ہو جانے کی صورت میں اس کو ٹھیک کرنے کے لئے جین کو مریض کے پھیپھڑوں میں ایروسول بنا کر انجیکٹ کیا جائے، جہاں یہ پھیپھڑے کو واپس نارمل حالت میں لا سکے۔ ایک بچی جو ایڈا ڈیفی شنسی کے عارضے کے ساتھ پیدا ہوئی ہے، اس کے ہڈی کے گودے میں ٹھیک کرنے کے لئے جین پلانٹ کئے جا سکیں۔ زیادہ پیچیدہ بیماریوں کے لئے جینیاتی تشخیص کو ڈرگز اور ماحول کی تھراپی کو استعمال کیا جائے۔

کینسر کی فیملی کی بیماریوں کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے جس کے لئے کسی خاص کینسر کے ذمہ دار میوٹیشن کو ریکارڈ کیا جا ہو گا۔ ان میوٹیشنز کے ذریعے قصوروار پاتھ وے معلوم کئے جائیں جو خلیوں کے بڑھنے کی وجہ بنتے ہیں۔ ان کی مدد سے ٹارگٹ کی گئی تھراپی سے کینسر کے خلیوں کو مار دیا جئے اور نارمل سیل محفوظ رہیں۔

کوئی شخص پوسٹ ٹراما سٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہے، اس کا خون کا ٹیسٹ بنا دے کہ اس میں کونسا جین ویری انٹ ہے۔ ماہرِ نفسیات کو یہ دیکھ کر معلوم ہو جائے گا کہ اس کی بائیولوجی کی وجہ سے اس میں خوف کا خاتمہ کتنا آسان ہے۔ اس کے علاج کے سیشن اس کے مطابق ڈیزائن کئے جائیں۔ تھراپی کا انتخاب اس کی بائیولوجی کے مطابق ہو۔ ایسی ادویات دی جا سکیں جو ایپی جینیٹک مارکر مٹا دیں اور یہ تھراپی کے سیشن کے ساتھ استعمال کی جائیں۔ خلیاتی یادداشت کی صفائی پرانی تلخ یادوں کے اثرات کی صفائی آسان کر دے۔

جینیاتی تشخیص سے پیدائش کے وقت ٹھیک بچوں کا انتخاب اور جینیاتی مداخلت سے ان میں ترمیم کئی ہولناک اور تکلیف دہ بیماریاں ختم کر رہی ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ نے پچھلا منظر احتیاط سے پڑھا ہے تو یہ بیک وقت امید، تعجب اور پریشانی کے جذبات پیدا کر سکتا ہے۔ آخر میڈیکل سائنس کا مقصد اور مطلب ہی کینسر، شیزوفرینیا سسٹک فائبروسس جیسی بیماریوں کو بروقت روکنا ہے۔ لیکن اس دنیا کے کئی پہلو ہمارا گھبرا دینے والے بھی ہیں۔ ایسی دنیا جس میں آنے کے لئے مرد و خواتین جینیاتی کمزوریوں کے امتحان سے گزرے ہوں گے اور پھر آنے کے حقدار ٹھہرے ہوں گے یا پھر ترمیم شدہ جینیاتی ترجیحات کے ساتھ آئے ہوں گے۔ رفتہ رفتہ بیماری غائب ہو جائے گی لیکن ساتھ ساتھ شناخت بھی۔ تکلیف کے ساتھ مہربانی بھی۔ ٹراما مٹا دئے جائیں گے اور ساتھ تاریخ بھی۔ وہ جو سب سے الگ ہوں گے، وہ ختم کر دئے جائیں گے۔ کمزوری حذف ہو جائے گی اور ساتھ نزاکت بھی۔ امکان کم ہونے کا لازمی مطلب انتخاب کم ہو جانا بھی ہے۔

جب انسانی جینوم پراجیکٹ شروع ہوا تھا تو ماہرِ جینیات جان سلسٹن نے ایک پرانا فلسفانہ سوال کیا تھا کہ کیا ایک ذہین شے اپنی انسٹرکشن پڑھ سکے گی؟ اس سے کہیں زیادہ گہرا مخمصہ اس وقت پیدا ہوتا ہے اگر یہ اپنے انسٹرکشن لکھ سکے۔ اگر جین جاندار کی فطرت اور قسمت طے کرتے ہیں اور وہ جاندار اپنی جین کے ذریعے اپنی فطرت اور قسمت طے کرنے لگے تو منطق کا دائرہ خود اپنے میں ہی بند ہو جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انیسویں اور بیسویں صدی کی میڈیکل سائنس قسمت اور انتخاب کے تصور لے کر آئی۔ قسمت کا سب سے یونیورسل اور کنکریٹ عمل ۔۔ بیماری ۔۔ اب میکانیکی اصطلاحات کے ذریعے سمجھا جا سکتا تھا۔ رِسک، ماحول، حالات، عادات، جیسی چیزوں کے سبب۔ انتخاب کا تعلق انفرادی نفسیات، تجربات، یادداشت، صدمات اور ذاتی تاریخ سے تھا۔ بیسویں صدی کے وسط تک شناخت، مزاج، پسند اور ترجیح کو نفسیات، فرد کے ماضی اور چانس کے ملاپ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں ہم کاز اور ایفیکٹ کی ایک اور زبان سیکھ رہے ہیں۔ بیماری، شناخت، پسند، مزاج، ترجیحات اور بالآخر انتخاب اور قسمت ۔۔۔ کو جین اور جینوم کی زبان میں۔ اس کا مطلب ایسا لغو دعویٰ نہیں کہ جینز کے عدسے سے فطرت اور قسمت کے بنیادی پہلووں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے ماضی اور مستقبل کے بارے میں سب سے طیش دلانے والے خیالات کو زیادہ سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ جینز کا ہماری زندگی اور شخصیت اس سے زیادہ گہرا اور تنگ کرنے والا اثر ہے جس کا ہم تصور کرتے ہیں اور جس طرح ہم جینوم کو پڑھنا، تبدیل کرنا اور اس کو چھیڑنا سیکھیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم مستقبل میں قسمت اور انتخاب کو چھیڑ رہے ہیں۔

وہ جو سب سے الگ ہے، وہ جو کچھ “کھسکا” ہوا ہے، کیا ہم اپنے علم سے اس کے عارضے کا علاج کرنا چاہیں گے؟ کیا اسے “نارمل” بنانا چاہیں گے؟ اگر ہاں تو اس کے ساتھ کیا اخلاقی، سماجی اور بائیولوجیکل خطرات ہیں؟ یا پھر دوسری طرف، کیا اس کو ٹھیک کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری نہیں؟ کیا ہمارا نالج ہمیں نئی طرح کی ہمدردی اور دوسروں کو سمجھنا سکھائے گا؟ یا کیا یہ نئی طرح کے تعصبات کو جنم دے گا؟ کیا ہم اس نالج سے “نیچرل” کی تعریف ازسرِ نو کر سکیں گے؟

لیکن یہ “نیچرل” کیا ہے؟ ایک طرف تبدیلی، تنوع، میوٹیشن، تقسیم ہو جانا، بگاڑ، بہاوٗ نیچرل ہے۔ دوسری طرف مستقل ہونا، ثابت قدمی، تقسیم نہ ہونا، قائم رہنا بھی نیچرل ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ تضادات کا مالیکیول، ڈی این اے، ایک تضادات والے جاندار کا کوڈ رکھتا ہے۔ ہم اپنی اگلی نسل سے، اپنے آگے بھیجے گئے جین سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے جیسا ہو گا لیکن ہم اس میں مخالف پاتے ہیں، ہمیں ویری ایشن ملتی ہے۔ وہ لوگ جو میوٹنٹ ہیں، جو سب سے جدا ہیں، وہ خود ہماری نوع کی بقا کے لئے ضروری ہیں۔ ہمارے جینوم نے ایک متضاد قوتوں کے بیچ بڑا ہی باریک توازن رکھا ہوا ہے۔ ایک تار کے ساتھ مخالف تار کا جوڑا جو ماضی بھی رکھتا ہے اور مستقبل بھی۔ یادداشت اور خواہش کا مقابلہ کرواتا ہے۔

یہ ہم میں سب سے زیادہ انسانی چیز ہے۔ ہم اس کے کیسے نگہبان بنتے ہیں؟ یہ ہماری نوع کے لئے علم کا، فکر کا، فہم کا اور شعور کا شاید سب سے بڑا امتحان ہو گا۔

گزشتہ تمام اقساط پڑھنے  کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے

Advertisements
julia rana solicitors

وہارا امباکر۔جین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply