شناختی بحران سے جنم لینے والے مسائل۔۔۔حسنین اشرف

تہذیب set of shared values یا مشترک اقدار کی اگلی نسل میں ترسیل کا نام ہے۔ ول ڈیورانٹ نے تہذیب کے حوالے سے بڑی خوبصورت بات لکھی، ہم عموماً صرف جدید انسان کو مہذب مانتے ہیں حالانکہ تہذیب کا جدت سے کوئی تعلق نہیں اس لیے وہ لکھتے ہیں کہ وحشی بھی مہذب ہے کیونکہ وہ اپنی وحشیانہ اقدار کی ترسیل کا کام بخوبی کر رہا ہے۔ اس تعریف پر تیسری دنیا کے خصوصاً مسلمان ممالک پورے نہیں اترتے، سادہ لفظوں میں ہم مہذب نہیں ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ جو نظر آتی ہے وہ ایک پیراڈایم شفٹ ہے جس کے لیے ہماری انٹیلیجنشیا  تیار نہیں تھی، ہم تب تک شناختی بحران سے نکلنے کی کوشش میں تھے۔ نسل یا قوم کا رُخ یہی لوگ متعین کرتے ہیں۔ جب ان لوگوں نے کردار ادا نہ کیا تو عام عوام کے اندر کنفیوژن فطری تھی۔ اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ‘کامیاب انسان’ کا عرفی مفہوم برباد ہوگیا۔ چونکہ سماج آئیڈئلز پر کھڑا ہوتا ہے تو یہ آئیڈئلز سرمایہ دارانہ نظام نے ہمیں فراہم کیے۔ اور یہ کامیاب انسان صرف پیسہ بن گیا۔

یورپ میں سرمایہ داری کے باوجود کامیاب انسان کے اس مفہوم کو زور پکڑنے میں بہت دیر لگی اور آج بھی کامیابی کا مفہوم ‘محض’ پیسہ نہیں ہے۔ یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام نے تہذیبی اقدار سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی بلکہ ان اقدار کو زیادہ کائناتی کردیا اور اس کی ترسیل کو سہل کردیا ہے۔ وہاں صنعتی انقلاب نے بہت کچھ مشینی کرنے کے باوجود اقدار کی  ترسیل میں رکاوٹ پیدا نہیں کی، جس سے ان کا سماجی نظم ابھی تک قائم ہے۔ بس یہ ہوا کہ سماج کے چھوٹے یونٹس بڑے قانون کے تحت آگئے۔ جو ایک قسم کی تبدیلی ہے لیکن اس قدر بڑی نہیں کہ سماج کی شکل بدل کر رکھ دے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں بنیادی اخلاقی و سماجی اقدار تسلسل سے منتقل ہو رہی ہیں۔

ہمارے ہاں کا یہ سلسلہ سلطنت عثمانیہ کے ساتھ زوال پذیر ہوگیا جس کے بعد سب سے بنیادی چیز یعنی شناخت کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ جس کی تسکین کے لیے مختلف لباس، مختلف شکل اور ماضی کے قصے گھڑے گئے جس سے جھوٹی انانیت اور غیرت کا عنصر ہمارے ہاں پروان چڑھا۔ یہاں سے سماج کی مشترک اقدار کا بٹوارہ شروع ہوگیا، مذہبی لوگ اس شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے جُت گئے اور نسل در نسل اس شناخت کے انتقال پر کام شروع کردیا اور کم مذہبی لوگ شناخت پر جمے رہتے ہوئے سرمایہ دار کے ساتھ لگ گئے جبکہ تیسری قسم کے لوگ اس شناخت سے آزاد ہوکر محض پیسے کے ساتھی ہوگئے۔ ایک چوتھی قسم ہمارے ہاں بہت بعد میں جا کر پیدا ہونا شروع ہوئی ہے۔ اس بڑے بحران سے ہمارے ہاں اقدار کی ترسیل کا کام رک گیا جس سے ہماری اخلاقی حالت بہت بُری ہوگئی۔ اکثریت چونکہ ہمارے ہاں مذہبی لوگوں کی تھی اور مذہب مُصر تھا اپنی شناخت بچانے پر ،جس سے ہمارے سماج کی جو شکل سامنے ابھری وہ نہایت بدتمیز اور بداخلاق لوگوں کی تھی۔ اس کے برعکس جو لوگ اس مذہبی شناخت سے نکلے ان کی اقدار کا بھی جنازہ نکل چکا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم آج بھی اس وہم میں مبتلا ہیں کہ اقدار کا مطلب برقع یا پردہ یا شلوار قمیض ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ شناختی بحران سے نکلنے کی ناکام سی کوشش تھی جس نے ان چیزوں کو بہت اہم بنا دیا تھا۔ جن میں مذہبی لوگوں کے ہاں سرمایہ دارانہ آئیڈئلز کی جگہ اپنے روایت کے آئیڈئلز در آئے، مثلاً، امام بخاری وغیرہم سے متعلق ایک لفظ بھی نہ سننا اصل میں اسی شناخت کو برقرار رکھنے کی بھونڈی سی کوشش ہے۔ اسی نے نصوص کے فہم پر بھی شدید اثر ڈالا جس سے مذہبی تعبیر جمود کا شکار ہوگئی۔ مغرب کے آئیڈئلز کے سامنے اپنے آئیڈئلز پیش کئے گئے جن کی نکمی پریزینٹیشن نے اصل علمیت کا بھی مذاق اڑا دیا ورنہ ہماری تہذیب کئی سو سال کی محنت شاقہ پر کھڑی تھی جس کی درست ترجمانی اور اس کی ترسیل اچھے نتائج لا سکتی تھی۔ لیکن ہم نے محض شناختی بحران سے نکلنے کی کوشش میں سب گنوا دیا ۔یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے پاس آنے والی نسل کو بھوک اور افلاس دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ہماری طرح جب وہ بھی آئیں گے تو پچھلوں کا منہ تکتے ہوں گے کہ ہمیں پیدا کرنے کا ایسا کیا شوق تھا؟

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply