سائیں شیرا۔۔ جاویدخان

گھٹیلاجسم،قد پانچ فٹ کچھ اِ نچ, بھرے بھر ے مشقتی ہاتھ،مٹیالارنگ،کھنکتالہجہ اَور اس کے ساتھ بھاری بھرتحکم دار آواز ,یہ تھے سائیں شیرا۔ راولاکوٹ شہر سے ایک سڑک مشرقی سمت کوجاتی ہے۔اِسے ہجیرہ روڈ کہتے ہیں۔اِس سڑک پر آغاز سے ہی ایک خوب صورت اَور ہری بھری وادی کانظارہ ہے۔پرل کااَصل میدانی حسن اِسی وادی پر کھڑا ہے۔چہڑھ گاؤں اِسی وادی کاحصہ ہے۔سڑک اس گاؤں کے بیچوں بیچ سے  گزرتی ہے۔ سائیں شیرا کاگھر چہڑھ بازار سے پیچھے،اسی سڑک پردائیں ہاتھ اک موڑ پر تھا۔وہ ایک مافوق الفطرت اَور بھرپور مابعدالطبعیاتی کردار کے حامل تھے۔ہر ہفتہ اُن کے ہاں ایک مابعدالطبعیاتی مجلس لگاکرتی تھی۔دُور دُور،مری،کہوٹہ اَور مظفرآباد سے لوگ اُن کی مجلس میں آیاکرتے تھے۔ مانا جاتاتھا کہ اُن پرپڑھے لکھے اَور اَعلیٰ دماغ جنات حاضر ہوتے ہیں۔تقریباً نو بجے صبح متعلقہ اَفراد اُن کے گھر پہنچ جاتے۔ سواروپیہ بطور ٹکٹ،جسے نمبر کہا جاتا تھا،اُن کی میز پر ترتیب سے رکھا جاتا تھا۔عجیب بات یہ ہے کہ جنات کے حاضر ہونے کے بعد جب اُن کاشعور مکمل طور پر معطل ہوجاتا تو تب اُس عجیب و غریب کیفیت میں بھی اُنہیں وہ نمبر ٹھیک ٹھیک یاد رہتے۔مجال تھی   کہ کوئی کسی دُوسرے کے نمبر پر اَپنی عرض داشت پیش کرسکتا۔نمبر کے پیسے (سوا روپیہ) وہ اَپنے پیر خانے کے لیے جمع کیا کرتے تھے۔نمبر لگنے کے بعد کاسلسلہ عجیب اَور دلچسپ ہواکرتاتھا۔اُن کاگھر سلوری رنگ کی جست کایو شکل تھا۔دائیں بائیں پیچھے کمرے تھے اَور آگے درمیانی حصہ برآمدہ تھا۔یہ خاص مجلس برآمدے میں ہواکرتی تھی۔ بغلی کمرے جس کادَروازہ برآمدے میں کھلتا تھا۔ایک کرسی دَروازے کے آگے رکھی جاتی تھی۔اُس کے آگے ایک دیسی ساختہ عام تپائی سے قدرے بڑی میز رکھی جاتی۔میز پر پانی کابھراکٹورہ،جو اُن کی اَب تک کی ساری مجلسوں کاساتھی تھا۔ایک تعویزجو مٹیالے دھاگوں سے سِیاہواتھا۔ اُس میں پڑااَپنی برکت حلول کرتارہتا۔علاوہ سلور کاایک گلاس بھی میز پر دھرا رہتا۔گلاس میں نصف پانی بھر لیا جاتا۔اَب مکمل مافوق الفطری ماحول بنناشروع ہوجاتا۔شیرا میز پر دائیں کہنی ٹکادیتے اَور چہرہ اُس پر رکھ دیتے پھر کچھ اَوراد شروع کردیتے۔بیٹھنے سے قبل وہ باوضو ہوجایاکرتے۔آہستہ آہستہ اک غنودگی سی غالب آنے لگتی اَور ایک ہچکی نماآواز منہ  سے برآمد ہونے لگتی۔پھر اچانک آواز آتی نمبو ون (نمبر ایک) نمبر ایک اپنا نام بتاتا،نیم وا آنکھوں کے ساتھ آواز آتی کہَ پوچھیں۔۔۔۔؟ یعنی کیا پوچھنا چاہتے ہو۔۔؟پوچھنے والا اَپنی آمد کامقصد بتاتا۔اُس سے والد،والدہ اَور جگہ کانام باربار پوچھاجاتاپھر کچھ دیر کردار غنودگی میں چلاجاتاکبھی کبھار موکل کے گھر کی طرف چہرہ اٹھا کر نیم غنود گی والے اَنداز میں دیکھتا۔پھر گویاہوتااَور جو حدوداَربعہ اَو ر نقشہ گھر کاکھینچتا وہ موکل سے زیادہ جان کار اَور تفصیلی ہوتا۔کردار یہ بھی بتاتا کہ ِاس وقت گھر میں کُتاہے اَورفلاں جگہ ہے،گھر میں فلاں دَروازے کے پاس فلاں چیز کیوں رکھی ہے۔۔۔؟فلاں تاریخ کو تم فلاں جگہ کیوں گئے تھے۔۔۔۔وغیر ہ۔بعض اوقات یہ سوالات کسی عدالت میں وکیل اَور موکل کانقشہ پیش کرتے۔لاشعوری کیفیت میں اُن کی آواز توتلاجاتی تھی۔ایسے میں اُن کی زوجہ لوگوں کی مدد کرتیں،وہ ہمیشہ پاس بیٹھی رہتیں اَور مشکل و مبہم اَلفاظ کی تشریح کرتی۔

گرمیوں میں خصوصاً ان کے گھر میں یہ مجلس کافی تازگی کاساماں کردیتی۔مَیں کبھی کبھار ایک بزرگ خاتون کے ساتھ جو ان کی معتقد تھی، کے ساتھ ان کے ہاں چلاجاتا۔یہ میرے سکول کے ابتدائی ایام ہواکرتے تھے۔بطخوں کی ایک ڈار ان کے گھر کے سامنے  تالاب میں تیرتی رہتی،جو کسی چڑیا گھر کامنظر پیش کرتیں۔مکان کے بائیں سیبوں کااک باغ تھا۔لوگ وہاں بھی بیٹھ جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک مرتبہ مَیں نے پوچھا آپ نے یہ سب کیسے حاصل کیا۔؟تو یہ کہانی سنائی ” مَیں موہڑہ شریف سے بیعیت ہوں۔اُنھوں نے اِذن دیاتو مَیں یہاں سے کافی دُور آگے نیچے کی طرف ایک تالاب میں چلہ کش ہوگیا۔وہ ویران جگہ ہے۔یہ تالاب اُس ندی پر ہے،جو دریک گاؤں سے گزرتی ہے۔تالاب میں جہاں پانی ناف تک تھامَیں وہاں کھڑا ہوجاتا اَو ر بزرگوں کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل شروع کردیتا۔صبح اُجالے سے پہلے گھر آجاتا۔صرف میری بیگم کو یہ راز معلوم تھا کہ مَیں کہاں جاتا ہوں۔دِن کو آکر کچھ دیر سوتا پھر وُضوکرتا اَور گھر میں جائے نماز پر، گوشہ نشین ہوجاتا۔یہاں اَوراد کاایک دُوسرا دَور ہوتاتھا۔یہ سلسلہ بلاناغہ چالیس دن چلا۔اِس عرصے میں مَیں نے نہ ہونے کے برابر کھایا۔اِبتدا میں بھوک ستاتی تھی تو دُودھ پی لیتا تھا۔پھر خواب میں کبھی اَنگور،کبھی کوئی پھل کھالیتا،جاگتا تو اُس کی لذت منھ میں پاتابھوک نہ ہوتی۔پھر یہ سلسلہ جاری رہنے لگا۔اَور چلا کشی کاسارا عرصہ یہی خواب والاکھاناہی کھاتارہا۔کبھی کبھار یوں بھی ہواکہ تالاب میں کھڑے کھڑے مجھ پر نیندکاسخت غلبہ ہوا۔غنودگی ہوئی تو خواب میں اَنگور کھالیے یادُودھ پی لیا۔غنودگی ختم ہوتی تو منھ میں ذائقے کی کفیت بحال رہتی۔پانی کاچلہ ختم کیا تو دُوسرا تیسرا شروع ہوا۔یہ اَوراد گھرمَیں رہ کر کیا کرتا تھا۔ایک دن رات کو سویا تو خواب میں ایک بزرگ ملا۔ اس پورے عرصے میں خواب میں یہی بزرگ میری رہنمائی کرتارہا۔ خواب میں،مَیں ایک بڑے تالاب میں کھڑا ہوں۔اُس نے باہر بلایااَوردیر تک باتیں کرتا رہا(اُس سے ہونے والی اُن کی گفتگو اَب یاد نہیں رہی)۔ پھر کہا اَپنا دایاں ہاتھ کھولو مَیں نے ہاتھ کھولا تو ایک مہر میرے ہاتھ پر زور سے لگائی۔اَیسا محسوس ہواجیسے پورے ہاتھ میں جلتا کوہلہ پکڑ لیا ہو۔مَیں اچانک جاگ گیا۔دیکھا تو ہاتھ کی چمڑی پر کچھ تحریر کندہ ہے۔مگر بازو تک جلن محسوس ہورہی تھی۔کچھ دِنوں بعد وہ حروف موٹے ہوگئے اَور اُن میں پانی بھر گیا۔درد بہت تھا۔مَیں نے ہاتھ پر رومال لپیٹا اَور بڑے نواز (ڈاکٹر نواز) کے پاس چلاگیا۔اُس نے ساری بات سنی سرنج سے پانی نکالا اَور ایک بوتل میں ڈالا۔حیران کن یہ پانی انتہائی شفاف تھا۔ڈاکٹرنواز نے کہا گھر جاؤ اِس جگہ سیاہی لگالو۔پانی کو مَیں کسی لیبارٹری میں چیک کراؤں گا۔پانی نکل جانے سے درد کم ہو گیاتھا۔آہستہ آہستہ وہ لکھائی اُکھڑنے لگی ہتھیلی کی وہ ساری اُوپری چمڑی اُتر گئی۔ عربی نما حرو ف کی یہ مہر آج بھی میرے پاس گھر میں محفوظ ہے“۔
پھر کہا اِنہی خوابوں کے دَوران ایک خواب بار بار آتا کہ یہ عبار ت (آیت الکرسی کی ایک آیت) کاغذپر لکھ کر روٹی میں کتے کوکھلاؤ وہ مر جائے گا۔اُس کے بعد تم مہلک بیماریوں کاعلاج کرنے کے قابل ہو جاؤ گے۔جب خواب میں بہت زیادہ اِصرار ہونے لگاتو میں فیصل مسجد کے مولوی کے پاس گیا اَور اُس سے خواب سنایا تو اُس نے کہا یہ کرنے سے اَگر کتا مر جاتا ہے تو اُس کاقتل تمھارے ذمہ ہوجائے گا۔پھر مَیں نے وہ تعویذ کُتے کو کھلانے کااِرادہ ترک کرلیا۔
ایک واقعہ سنایا جس نے اُنھیں خاصہ متاثر کیا تھا۔کہ مَیں کسی کام کی غرض سے پشاور گیا ہوا تھا۔وہاں میرا ایک جاننے والا رہتا تھا۔مَیں نے اُس کی رہائش گاہ کی طرف جانے کے لیے ایک مختصر رستے کاانتخاب کیا۔اُس عرصے میں میرا تعلمی (مابعد الطبعیاتی )دَور جاری تھا۔رستاجھاڑیوں سے ہو کر گزرتا تھا۔یہ شہر کے درمیان ایک ویران اَور الگ چھوٹاساٹکڑا تھا۔جو شہر کے دُوسرے حصے سے پیدل چلنے والوں کو ملاتاتھا۔مغرب کاوقت تھا۔اَذانیں ہو رہی تھیں۔کچھ فاصلہ طے کیا تو دیکھاایک شخص رستے کے کنارے بیٹھا ہواہے۔مَیں خاموشی سے وہاں سے گزر گیا۔ دل میں سوچانہ جانے کون ہے۔اچانک پیچھے سے کسی نے میرا نام لے کر پکارا۔مَیں پیچھے مڑا تو وہی شخص تھا جو آلتی پالتی مار کر بیٹھا تھا۔بولا میرے پاس آؤ۔مَیں نے دل ہی دل میں سوچا آج ضرور لوٹا جاؤں گا۔قریب گیا تو بولا تم نے مجھے ڈاکو سمجھا ہے۔۔۔ ہیں۔۔۔۔۔۔!۔چلو پیسے نکالو۔مَیں نے دس روپے کانوٹ سامنے سے نکال کر دِیا بولانہیں تمھارے پاس اتنے ہزار ہیں۔اَور اتنے نوٹ ہیں،اُن کی یہ یہ نشانیاں ہیں۔نکالو۔۔۔مَیں ششدر رہ گیایہ ساری نشانیاں درست تھیں۔مَیں نے دل میں سو چا لازمی یہ وارداتی ہے۔ میرا پیچھا ہوتا رہا ہے مگر مجھے پتہ نہیں چلا۔بولا تم پھر مجھے اِلزام دے رہو۔چلو کہا پیسے نکالو۔۔۔۔!اَور پھر جو باتیں میں سوچتا جاتا وہ اُس کے منھ سے نکلتی جاتیں۔حالانکہ وہ وقت میرا اسی طرح کی کیفیات میں گزرا کرتا تھا۔مگر اُس وقت اَیسی ساری سوچیں سلب ہوگئیں تھیں۔مَیں نے پہلے سامنے کے پیسے نکالے،پھر اس نے وہ باقی رقم جومَیں نے خفیہ جیب میں پوٹلی میں رکھی تھی بھی مانگ لی۔جب مَیں خالی ہو گیا تو بولا گیارہ روپے اَب بھی تمھارے پاس ہیں۔وہ بھی دو۔گیارویں (گیارہ روپے)مَیں نے دائیں جیب میں رکھی تھی۔وہ بھی نکال کر دے دِیے مجھے دل ہی دل میں غصہ تھا۔دل میں سوچا بے غیرت آج لوٹ کر سب لے گیا۔فوراًغصے میں بولا تم نے مجھے بے غیرت کہا ہے۔پھر گیارہ روپے چھوڑ کر سارے پیسے میرے منھ پر مار دیے۔کہاتم دل کے صاف ہو معاف کردیتاہوں۔تمھارے اَندر غصہ ہے اَور وہم ہے اِس دُنیا میں قناعت اَور یقین چلتا ہے۔اَب جاؤ۔مَیں نے دل میں شکر اَداء کیا کہ جان چھوٹی اَورچلا آیا۔
اُن کے پاس اَیسی بہت ساری کہانیاں اَور آپ بیتیاں تھیں۔جو مجھے سنائی تھیں۔ وہ اَب پوری یاد نہیں رہی۔شاید ایسی بہت سی کہانیاں اُن کے دل میں ہی رہ گئی۔اُنھوں نے کافی عمر پائی۔وہ کافی آسودہ تھے۔ہفتہ وار مجلس کے علاوہ اُن کے پاس ایک ٹرک تھا۔چہڑھ بازار میں ایک چائے خانہ وہ خود چلاتے تھے۔کھیتی باڑی میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔وقت گزرتا رہا۔سائیں شیرا کی دلچسب مجلس آباد رہی۔پھر ایک دن سنا کہ سائیں شیرا نے جادو نکالنے کاکام چھوڑ دیا ہے۔۵۰۰۲؁ء میں آزادکشمیر میں تباہ کن زلزلہ ہوا۔ماضی کے یہ واقعات جو میرے لیے کبھی بہت دلچسپ ہواکرتے تھے۔آئے گئے ہوگئے۔پھر اچانک سنا کہ سائیں شیرا فوت ہوگئے ہیں۔وہ اس سفر پر چلے گئے جو اصل میں مابعد الطبیعاتی کہلاتاہے۔ہاں سائیں شیر اسے مَیں یہ نہ پوچھ سکا،کہ طریقت میں سار ا کچھ تو مرشد ہوتاہے۔پھر آپ فیصل مسجد کے مولوی کے پاس کیوں گئے تھے۔۔۔؟شاید اُس وقت مَیں صرف مزیدار کہانیاں سن سکتا تھا،اَیسے سوال کرنے کی مجھ میں شعوری صلاحیت نہ تھی۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply