دُعا۔۔ مختار پارس

کبھی کبھی جب رب کے سامنے ہاتھ دراز ہوتے ہیں تو دل کے رخسار شرم سے لال ہو جاتے ہیں۔ پھیلے ہوۓ ہاتھ یہ سوچ کر لرز سے جاتے ہیں کہ رب نے اتنا تو دے دیا، اب اور کیا مانگوں۔ دل ہی دل میں خواہشوں کی حقیقت اور اپنی نام نہاد ضرورتوں پہ ہنستا ہوں۔ مگر پھر اور زور سے ہاتھ اٹھا کر مانگتا ہوں، کیونکہ اس سے مانگنا تو ہے۔۔۔ چاہے کچھ بھی مانگوں۔

جو میں نہیں مانگ سکتا، وہ کون سا اس سے چھپا ہے۔ جو میں مانگنا نہیں چاہتا، اس کی بھی اسے خبر ہے۔ جو مانگ لیتا ہوں، وہ بھی معلوم اور جو نہ دست میں ہے اور نہ دعا میں، وہ بھی موجود۔ اردگرد جو بھی ہے سب خواہشوں کی تجسیم ہے۔ جو میں نہ چاہوں تو سب ندارد ہو جاۓ۔ یہ طلب کا طلسم ہے جو رونما کر دیتا ہے۔ بہتیرے ایسے دیکھے ہیں جن کے گرد ارض و سما کی عنایات موجود ہوتی ہیں مگر وہ ان سے ایسے بےخبر ہوتے ہیں کہ انہیں ان کی خواہش کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ خواہشوں کا جنم لاعلمی کے اندھیروں میں ہوتا ہے۔ کوتاہ نظری دیکھنے نہیں دیتی۔ سب وہیں موجود ہوتا ہے۔
طلب کا دوسرا نام محبت ہے۔ طلبگار کا یہ فیصلہ کرنا کہ اسے کیا مانگنا چاہیے ، بہت مشکل امر ہے۔ فیصلہ تشنگی پر ہوتا ہے۔ محبت کرنے والے کے نزدیک تو کچھ بُرا نہیں ہوتا۔ خواہش کی شدت تو ابتر کو بھی باکمال کر دیتی ہے۔ یہ راز صرف خدا کو معلوم ہے کہ ہر طلب کے پیچھے ماخذ ایک ہی ہے اور ہر عطا کی منزل بھی ایک ہے۔ جو آج مل گیا، وہ کل نہیں مل سکے گا۔ جو کل مل گیا، وہ بھی ایک دن نہیں ہو گا۔ خواہشیں قبول ہو کر بھی سر پٹختی رہتی ہیں۔ دعائیں منظور ہو کر بھی پریشان ہی رہتی ہیں۔ دینے والے نے انکار کبھی نہیں کیا۔ بندہ خود ہی مانگ کر پچھتاتا رہتا ہے۔ آفاق کا نظام طلب و رسد یہ ہے کہ انسان کو اختیار ہے کہ وہ کچھ بھی مانگ سکتا ہے۔ پانسہ اس وقت پلٹتا ہے جب دروازے پر آنے والا ساری چیزیں چھوڑ کر دینے والے کو ہی مانگ لیتا ہے۔

یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ دعا صرف کچھ مانگنے کےلیے  ہوتی ہے۔ ایسے بہت سے گزرے ہیں جنہوں نے کچھ دینے کےلیے دعا مانگی۔ یہ بھی خوش فہمی ہے کہ کچھ مل جاۓ تو یہ دعاؤں کی قبولیت کی نشانی ہے۔ کئی ایسے دیکھے ہیں جنہوں نے کاسہ خالی لوٹانے پر خوشی کے مارے دیوانہ وار رقص کیا۔ فقیر کی نظر کچھ اور ہی دیکھتی ہے۔لینے یا دینے کا دعا سے کیا تعلق؟ لینے والے کا دینے والے سے تو تعلق ہو سکتا ہے، دینے والے کا لینے والے سے تعلق ضروری نہیں۔ جہاں تعلق ہو وہاں چیزیں مانگ کر نہیں لیا کرتے،وہاں اصرار کرتے ہیں۔ کسی کو کبھی کسی سے مانگنا پڑ جاۓ تو یہ کوئی رشتہ نہیں۔ جہاں ناتا ہو، وہاں ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ روٹی پانی مانگنا بھی بھلا کوئی دعا ہے! دعا تو کچھ اور ہے جو دل سے نکلتی ہے، آنکھوں میں اترتی ہے، روح میں سماتی ہے، جاں میں ٹھہر جاتی ہے۔ دعا روح ولائیت ہے، ظہورعنایت ہے، نصیب کبریاء ہے۔ کبھی سوکھی زمین سے سر سبز فصلوں کی صورت ملتی ہے، کبھی رات میں دن بن کر نکلتی ہے۔ کبھی رگڑتی ایڑیوں سے ٹھنڈے میٹھے چشمے بہا دیتی ہے، کبھی قبلہ بدل دیتی ہے۔

سجدوں میں اشکبار ہونا تو بڑے نصیب کی بات ہے۔ کوئی بھلا ہیرے موتیوں کےلیے بھی چشم نم سے قطرے گرا سکتا ہے؟ دنیا کےلیے لوگ لڑ توسکتے ہیں، مگر رو نہیں سکتے۔ روتا وہی ہے جس کا دامن کسی جھاڑی میں پھنس جاتا ہے۔ آنسو تب گرتے ہیں جب جسم اور جان میں خلیج آ جاتی ہے، یا جب سوچ اور روح میں تفاوت آ جاتا ہے، یا جھوٹ اور حقیقت میں فرق ختم ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس درد کی کیفیت میں جسے ہوش رہتا ہے، وہ سجدوں میں گر کر بہت روتا ہے۔ یہ گریہ کا سیل رواں ہے جو خلیج کو بھر دیتا ہے اور انسان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر اسے ہوش میں لے آتا ہے۔ مگر یاد رہے، دعا رونے کا بھی نام نہیں۔ دعا مانگتے ہوۓ دل بھر آۓ تو یہ جشن بھی ہو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

محبت رب سے ہو یا سب سے۔۔۔ مانگے بنا گزارا نہیں۔ دعا محتاج کر دیتی ہے۔ بندہ اپنے نفس کی محتاجی کےدروازے بند بھی کر دے تو پھر دوسروں کی محتاجی باہر آ کر زندگی بھر دستک دیتی رہتی ہے۔ بہتریہ ہے کہ بندہ نہ اپنا محتاج رہے اور نہ دوسروں کا۔ کچھ ایسا انتظام ہو کہ نیلگوں پردوں میں پنہاں جھلملاتی کہکشاؤں کو عطا کے ستارے روشن کر دیں۔ عطا کرنے کی ذمہ داریاں تورب نے مظاہر فطرت کے درمیاں بانٹ رکھی ہیں۔ گرچہ دعاؤں کو پورا کرنے کے ذمہ دار نظر نہیں آتے، مگر سب اس کائنات کے ربط میں بندھے ہیں۔ کوئی دائیں بائیں کندھوں پر بیٹھ کر ہمیں منزل تک پہنچا رہا ہے تو کوئی منکر نکیر بن کر تدبیر کی زنجیر ہلا رہا ہے۔ کسی کے ذمہ بارش برسا کر مٹی کی سوندھی خوشبو سے زندگی کو فراز عطا کرنا ہے اور کوئی دلوں میں پھونک مار کر عالم شب کو عازم سحر کر دینے پر مامور ہے۔ کبھی عقرب زحل کے دائروں میں داخل ہو کر اضطراب برپا کرتا ہے اورکبھی میزان عطارد کو رب کے خزانے کھول دینے کو کہتا ہے۔ اس نے تو سنگ میں کرم کوغذا دینے کا انتظام کر رکھا ہے۔ پتھر بھی سانس لیتے ہیں اور انسان کو رب کی عطا کی گئی آدرش کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ کبھی پتھر حجر اسود بن کر بوسے لیتا ہے اور کبھی  یاقوت بن کرطاقت بنتا ہے۔ رب نے تو انتظام کر رکھا ہے۔ وہ تو اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب کہیں کوئی اس کا نام لیتا ہے۔ دعا وہ کُن ہے جو کر دیتی ہے۔ آؤ، آج اس سے کچھ مانگ کر دیکھتے ہیں۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply