مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک ۔ طوفان (قسط6) ۔۔وہاراامباکر

مشرقی پاکستان میں 12 نومبر 1970 کو ایک سائیکلون ٹکرایا۔ اس نے آٹھ ہزار مربع میل کے علاقے پر تباہی مچائی۔ یہ اس علاقے میں صدیوں بعد آنے والی اتنی بڑی قدرتی آفت تھی۔ ڈھائی لاکھ لوگ اس میں لقمہ اجل بنے۔ یحییٰ خان اس وقت چین کے دورے پر تھے۔ طوفان سے دو روز بعد بیجنگ سے ڈھاکہ پہنچے، رات رہے اور اگلے روز مغربی پاکستان چلے گئے۔ اس کا شکار بننے والوں سے عدم توجہی ایک بڑا سیاسی ایشو بنی۔ ڈھاکہ میں اپوزیشن کے اخبارات نے مرکزی حکومت پر الزام لگایا کہ نہ صرف وہ مدد نہیں کر رہی بلکہ عالمی ریلیف ایجنسیوں کی کوششیوں میں خلل ڈال رہی ہے۔ اس طوفان کے ردِعمل نے مغربی پاکستان کے طرف بہت کڑوے جذبات پیدا کئے۔ مجیب، جو اس وقت تک رہا ہو چکے تھے، ان کا کہنا تھا، “مغربی پاکستان میں اس سال گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے۔ ہمارے پاس جو گندم پہلے پہنچی، وہ مغربی پاکستان سے نہیں تھی۔ ٹیکسٹائل کے تاجروں نے ہمارا تن ڈھکنے کو ایک گز کپڑا تک نہیں بھیجا۔ ہمارے پاس اتنی بڑی فوج ہے لیکن مر جانے والے بنگالیوں کو دفن برطانیہ کے فوجی کرتے رہے۔” اور پھر ایک واضح دھمکی، “وہ وقت آ رہا ہے جب ہر گاوٗں، گھر اور بستی میں وہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ ہمیں اپنے پر خود حکومت کرنی ہے۔ ہمیں اپنے فیصلے خود لینے ہیں۔ ہم مغربی پاکستان کے بیوروکریٹ، سرمایہ دار اور جاگیر دار کے رحم و کرم پر نہیں رہ سکتے”۔

یہ بھی پڑھیں :مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک ۔ ملٹری (قسط5) ۔۔وہارا امباکر

کیا پاکستان اس سے بہتر طور پر نپٹ سکتا تھا؟ شاید ہاں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی بڑی آفت سے معاملہ کرنے کے وسائل ہی نہیں تھے۔ اس طوفان نے علاقوں کی رسائی اور ریلیف پہنچانے کے انفراسٹرکچر بھی ختم کر دئے تھے۔ موسمیاتی واقعات کیسے سیاسی سٹرکچر اُلٹا سکتے ہیں؟ اس پر اولسن رچرڈ نے اپنی 2007 میں لکھی رپورٹ میں تاریخ سے جو مثال استعمال کی ہے، وہ یہ طوفان ہے، جو بھولا سائیکلون کہلایا۔ اس رپورٹ میں اولسن رچرڈ اس کو خانہ جنگی شروع کروانے والی پہلی قدرتی آفت کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یحیٰی نے قومی انتخابات کا اعلان 7 دسمبر کو کیا تھا اور ووٹروں سے اپیل کی تھی کہ ایسے امیدواروں کو ووٹ ڈالیں جو پاکستان کی یکجہتی اور اتحاد کے ساتھ مخلص ہوں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے انتخابات تھے جن کا فیصلہ عوام نے براہِ راست کرنا تھا۔ یحیٰی خان نے آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کا وعدہ پورا کیا۔ ان میں مشرقی پاکستان کے ووٹروں نے مغربی پاکستان سے اپنے غیرمطمئن ہونے کا واضح اعلان کر دیا۔ عوامی لیگ نے 162 میں سے 160 نشستیں جیت لیں۔ بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں مغربی پاکستان کی 138 میں سے 81 نشستیں آئی تھیں۔ اسمبلی کا اجلاس کبھی نہ ہو سکا۔ مجیب کبھی پاکستان کے وزیرِ اعظم نہیں بنے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یحیٰی اور بھٹو مجیب کے کنفیڈریشن کے تصور کے شدید مخالف تھے۔ مجیب اپنے چھ نکات سے ذرا بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ یہ عملی طور پر بڑی حد تک تقسیمِ پاکستان تھی جو مغربی پاکستان میں قابلِ قبول نہیں تھی۔ بھٹو کا کہنا تھا کہ متحد پاکستان کی قیادت وہی کر سکیں گے۔ بڑھتی ہوئی ٹینشن میں مجیب نے تجویز کیا کہ دو الگ وزیرِاعظم بنا لئے جائیں۔ ایک مغربی حصے میں اور ایک مشرقی حصے میں۔ مشرقی پاکستان میں اقتدار کی منتقلی نہ کئے جانے کے سبب شدید احتجاج ہو رہے تھے اور یہ حصہ بری طرح سے سول نافرمانی کا شکار تھا۔ مجیب نے اقتدار نہ دئے جانے تک ہڑتال کی کال دی ہوئی تھی۔ اس سیاسی کھیل سے تنگ آ کر یحیٰی نے مجیب کے مطالبات کو مکمل طور پر نظرانداز کر دینے کا فیصلہ کیا اور یکم مارچ کو اعلان کر دیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس، جو 3 مارچ ہو ہونا تھا، وہ غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کیا جا رہا ہے۔ یکم مارچ کو جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا ملٹری گورنر بنا دیا گیا۔ ٹکا خان کی تقرری ارادے کا واضح پیغام تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشرقی پاکستان میں امن و امان مفقود تھا۔ حکومتی مشینری مفلوج ہو چکی تھی۔ ٹیکس دینا بند کیا جا چکا تھا۔ مسلح جتھے دندناتے پھرتے تھے جو ایک دوسرے کو قتل کیا کرتے تھے۔ دیہی علاقوں میں ماوٗاسٹ گروپ، شہروں میں یوتھ تنظیمں جن میں سے سٹوڈنٹس لیگ بدنام تھی۔ جرائم پیشہ لوگ جن کو غنڈہ گروپ کہا جاتا تھا۔ اسلامسٹ گروپ۔ کچھ گروپس کو درپردہ انڈیا کی سپورٹ حاصل تھی۔ عوامی لیگ نے اپنی پیراملٹری فورس 1970 میں قائم کر لی تھی اور حکومت پر دباوٗ ڈالنے کے لئے، ہڑتالیں کروانے، حکومتی نظام درہم برہم کرنے کے لئے اسے استعمال کیا جا رہا تھا۔ مشرقی پاکستان میں سیاست پہلے بھی متشدد رہی تھی لیکن اب مکمل لاقانونیت کا راج تھا۔ “پہلے امن و امان قائم ہو، بندوق رکھوائی جائے، پھر سیاست ہو” کا مطالبہ کئی حلقوں سے آ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے پچھلے ہفتوں سے ہی مغربی پاکستان سے فوج مشرقی پاکستان تعینات ہونا شروع ہو گئی تھی۔ یہ تعداد چند ہفتوں میں پچیس ہزار سے بڑھا کر ساٹھ ہزار کر دی گئی تھی۔ یہ حربہ مجیب پر اپنے مطالبات میں لچک پیدا کرنے کا پریشر بھی تھا، جس نے کام نہیں کیا۔ جب تناوؐ زیادہ بڑھا، تو آخری حربے کے طور پر یحیٰی مارچ کے وسط میں ڈھاکہ گئے کہ مجیب سے مذاکرات کئے جائیں۔ اس کے درمیان میں بھٹو کو بھی بلوا لیا گیا۔ مذاکرات جلد ناکام ہو گئے۔ 23 مارچ کو یومِ پاکستان منایا جاتا تھا۔ اس سال بنگالیوں نے اس کی جگہ پر یومِ مزاحمت منایا۔ یحیٰی نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اس مسئلے کو اپنے طریقے سے “حل” کریں گے۔ 25 مارچ کو یحیٰی اسلام آباد چلے گئے۔ اسی رات ملٹری کریک ڈاون شروع کر دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آپریشن کو پلان پہلے سے کر لیا گیا تھا۔ ڈھاکہ میں چند گھنٹوں میں قتلِ عام شروع ہو گیا۔ ابتدا میں سب سے بھاری حملے ڈھاکہ یونیورسٹی اور پرانے شہر کے علاقے پر ہوئے۔ پہلے سے طے کردہ ہٹ لسٹ پر چند سو بنگالی تھے جن کا صفایا کیا گیا۔ عوامی لیگ کی سئنیر قیادت اس سے پہلے روز کلکتہ جا چکی تھی۔ مجیب ابھی ڈھاکہ میں تھے۔ ان کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان پہنچا دیا گیا۔ تمام عالمی صحافیوں کو ڈھاکہ انٹرنیشنل ہوٹل میں بلایا گیا۔ ان کے نوٹس ضبط کر لئے گئے۔ اگلے روز سب کو ملک بدر کر دیا گیا۔ ایک رپورٹر، جو اس سنسر سے بچ گیا تھا اس کا تخمینہ ہے کہ ایک آرمرڈ، ایک آرٹلری اور ایک انفنٹری کی بٹالین نے اس روز ڈھاکہ پر حملہ کیا تھا۔ کچھ خبر دینے والے اور وہ صحافی، جو بعد میں چھپ کر مشرقی پاکستان پہنچے، ان کا اندازہ ہے کہ پہلے چار روز میں مارے جانے والوں کی تعداد پندرہ ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ اس موسمِ گرما میں ہونے والا جانی نقصان شاید تین لاکھ جانوں کا تھا۔ نو ماہ چلنے والی بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ اس میں پاکستانی ملٹری اور سپورٹ کرنے والی ملشیا کے ہاتھوں ہونے والی لاکھوں ہلاکتیں ہیں۔ بنگالی مسلح گروپس نے غیربنگالی مہاجرین کا بڑی تعداد میں قتلِ عام کیا۔ بنگالیوں کے ہاتھوں مرنے والے بہاریوں کی تعداد کا ایک محتاط اندازہ ڈیڑھ لاکھ لگایا گیا ہے۔ غیرمنظم مسلح گروپس ایک دوسرے سے بھی برسرِ پیکار رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مغربی پاکستان کے پریس اور ریڈیو نے اس پر پردہ ڈالنے کے لئے بڑے زور و شور سے مہم چلائی جو کامیاب نہیں رہی۔ ایک اخبار، مارننگ نیوز، میں ایک اداریے نے یہ تک لکھ دیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں عسکری کارروائی ہندووں کی غلامی سے آزاد کروانے کے لئے کی جا رہی ہے۔ خانہ جنگی کی خبریں مکمل طور پر چھپائی گئیں۔ سنسر شدہ پریس میں ہونے والی کسی بھی خلاف ورزی سے سختی سے نمٹا گیا۔ مغربی پاکستان میں بہت کم لوگ اس بات سے واقف تھے کہ مشرقی حصے میں ایک بڑی جنگ جاری ہے۔

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان آرمی کے خلاف لڑنے والے مکتی باہنی کے کمانڈر انچیف عوامی لیگ کی مرکزی قیادت کا حصہ تھے اور پاکستانی فوج میں کرنل کے عہدے تک پہنچے تھے۔ بونگو بیر (بنگال کا ہیرو) کہلانے والے عطاء الغنی عثمانی دوسری جنگِ عظیم میں برما کے محاذ پر لڑے۔ پاکستان آرمی میں بیس سال تک رہے۔ جی ایچ کیو میں آٹھ سال گزارے اور براہِ راست یحییٰ خان کے ماتحت ملٹری آپریشنز کے ڈپٹی ڈائریکٹر رہے۔ 1965 کی جنگ میں قصور کے محاذ پر رہے۔ انہوں نے کوئٹہ سے تربیتی کورس جنرل یحییٰ خان، جنرل ٹکا خان اور جنرل اے کے نیازی کے ساتھ کیا تھا۔ 1971 میں یہ تینوں جنرل اپنے اس سابقہ ساتھی کے مقابلے پر تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply