• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ابرار حسین نیکوکارہ اپنے آخری نوٹ میں ایسا کیا لکھ گیا۔۔عبدالستار

ابرار حسین نیکوکارہ اپنے آخری نوٹ میں ایسا کیا لکھ گیا۔۔عبدالستار

کچھ حالات و واقعات اس قسم کے ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ جاتے ہیں۔یہ سوالات ایک نقطے کی طرح ہوتے ہیں کہ جن کے نقطوں کو اگر ایک ترتیب کے ساتھ جوڑا جائے تو وہ ایک مکمل تصویر بن جاتے ہیں۔یہ اس پہیلی کی طرح ہوتے ہیں کہ جس کو بوجھنے کے لیے ذہنی مشقت درکا ہوتی ہے۔ترقی یافتہ معاشروں میں جب بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے تو وہ اس سانحے کی جڑوں تک پہنچنے کے لیے پوری تگ و دو کرتے ہیں تاکہ اس قسم کے دلخراش واقعات دوبارہ نہ ہوں۔مگر ہمارے سماج میں بالکل ایسا نہیں ہوتا بلکہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمیں چند روز کے لیے اکٹھا ہونے کے  لیے کسی المناک حادثے کی ضرورت ہوتی ہے۔چند روز کی رٹی رٹائی جملے بازی کی مشق کے بعدپھر ویسے کے ویسے ہی ہوجاتے ہیں۔

چند روز پہلے ایک درد ناک خبر سننے کو ملی کہ روات پولیس ٹریننگ  سکول کے پرنسپل ایس ایس پی ابرار حسین نیکوکارہ نے خود کشی کر لی۔خودکشی سے پہلے ابرار حسین نے اپنی آخری تحریر سرخ روشنائی سے لکھی۔خط میں لکھا ”انسان خودکشی تب کرتا ہے جب وہ بیزار ہوجاتا ہے۔اس کو تخلیق کی سمجھ آجاتی ہے۔سمجھ دار انسان اپنی جان لیتا ہے تو رویا نہیں کرتے،فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔“

آخر میں انہوں نے والدہ اور بیوی سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص ان کی موت کا ذمہ دار نہیں ہے۔

مضمون نگار:عبدالستار

اس تحریر کا اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ابرار حسین نے اپنی جان خود لے کر جاتے جاتے سرخ روشنائی کے ساتھ ہمارے اس بے حس معاشرے کا مرثیہ لکھ دیا۔اس مرثیے کے اندر وہ تمام چبھتے ہوئے سوالات موجود ہیں کہ جنہیں ہماری ریاست کو کھوجنا چاہیے، ورنہ ہر کوئی ابرار حسین جیسا دلیر نہیں ہوسکتا کہ بغیر کوئی چوں چراں کیے اپنی زندگی کا خاتمہ کر کے اتنے سارے سوالات چھوڑ جائے ،اس اُمید پر کہ شاید ہمارے سماج کے پنڈت معاشرتی نا ہمواریوں کا کوئی حل نکال سکیں۔

المناک بات یہ ہے کہ جس قوم کے محافظ اپنی قوم اور سماج کے تحفظ کی قسم کھانے کے بعد اپنے عہدے پر بیٹھنے کے بعد خود کو بے بس پاکر خود کی زندگی کا ہی خاتمہ کر لیں تو سماجی ڈھانچے پر بہت سارے سوالات اٹھیں گے۔

ہمیں ابرار حسین کے اس سوال کا جواب کھوجنا ہو گا کہ ”انسان خودکشی تب کرتا ہے جب وہ بیزار ہو جاتا ہے“۔۔۔۔

آخر وہ کونسی بیزاری تھی کہ جس کے لیے ان کو خود اپنی جان لے کر  مُکتی ملنا تھی۔

میری نظر میں یہ بے بسی کی کیفیت کا نقطہ عروج ہوتا ہے جس کی جڑیں ہمیں اسی سماج میں مل جائیں گی ،مگر ڈھونڈنے والے تو شاید ریاست مدینہ بنانے میں مصروف ہیں۔

تحریر کا دوسرا حصہ بہت ہی قابل غور ہے کہ ”سمجھ دار انسان اپنی جان لیتا ہے تو رویا نہیں کرتے“ مطلب کہ ابرار حسین یہ اچھی طرح سمجھ اور جان چکا تھا کہ وہ خود کشی کا ارتکاب بڑی سوچ بچار کے بعد کرنے لگا ہے۔آخر میں ابرار حسین نے اپنی والدہ اور بیوی سے معافی مانگی اور لکھا کہ اس کی موت کا کوئی بھی ذمہ دار نہیں ہے۔

غور طلب امر یہ ہے کہ جب ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کی آنکھوں میں امید کی چمک غائب ہو گئی تو پھر ہمارے سماج کا کیا بنے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply