سوڈان کی خانہ جنگی/فرزانہ افضل

سوڈان میں گزشتہ دو ہفتے سے زیادہ یعنی 15 اپریل 2023 سے لڑائی جاری ہے۔ دو جرنیلوں کے درمیان کا یہ ذاتی پاور پلے ان تمام نشانیوں کو ظاہر کرتا ہے کہ سوڈان ایک بڑی خانہ جنگی کی طرف داخل ہو سکتا ہے۔ اس جنگ میں جس کی جیت ہوگی اس کو انعام میں دارالخلافہ خرطوم ملے گا۔ مگر دونوں فریقین میں سے کسی کی واضح جیت کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ یہ لڑائی سوڈان کے دو جرنیلوں کے درمیان ہو رہی ہے سوڈان کا فوجی حکمران اور آرمی ہیڈ عبدل فتح البرہان اور جرنیل محمد حمدان دگالو عرف حمیدی جو ملک کے پیرا ملٹری گروپ ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کا چیف ہے اور سوڈان کا ڈپٹی ہیڈ ہے۔ یہ دونوں آدمی سوڈان کے صدر عمرالبشیر کا تختہ 2019 میں الٹنے اور فوجی گروپ میں 2021 تک اکٹھے کام کرتے تھے۔ مگر یہ تمام جھگڑا تب شروع ہُوا کہ نئی حکومت میں دونوں جرنیلوں میں سے کون کس کا ماتحت ہوگا۔ سوڈان ایک آزاد ملک ہے ۔سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر نے گزشتہ تین دہائیوں سے ملک پر حکومت کی ۔ اس کے خلاف تمام احتجاجات میں سب سے بڑا احتجاج روٹی کی بڑھتی ہوئی قیمت تھا۔

سوڈان گزشتہ کئی برسوں سے متعدد تنازعات سے دوچار ہے ۔ جن میں سے ہر تنازعے کی مختلف وجوہات اور متحرکات ہیں۔ سوڈان میں اس وقت جاری سب سے اہم ترین تنازعات میں سے ایک دارفور کے علاقے کا تنازع  ہے۔ جو 2003 سے جاری ہے۔ دارفور میں یہ تنازع اس وقت شروع ہُوا جب خطے کے باغی گروپوں نے سیاسی اور معاشی پسماندگی سے متعلق دیرینہ شکایات کا حوالہ دیتے ہوئے سوڈانی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانا شروع کر دیئے۔ جس کا جواب حکومت نے ایک سفاکانہ انسدادِ  بغاوت مہم کے ساتھ دیا۔ جس میں جنجوید نامی ایک مسلح گروہ کی مدد، انہیں اسلحہ فراہم کرنا اور ان کی حمایت کرنا شامل ہے جو شہریوں کے خلاف کئی طرح کے مظالم کے ذمہ دار تھے۔ جس میں قتل ، عصمت دری اور جبری نقل مکانی شامل ہیں۔ گو کہ دارفور کے تنازعہ کی وجوہات پیچیدہ قسم کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی عوامل ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ طاقت اور وسائل کے حصول کے لیے حکومت اور گروپوں کے درمیان لڑائی ہے کہ علاقے پر قبضہ اور کنٹرول کرکے قیمتی وسائل زمین اور پانی تک رسائی حاصل کرنا ہے۔

گذشتہ برسوں سے جاری اس لڑائی کے نتیجے میں علاقے کے لوگوں کو بڑے پیمانے پر مصائب کا سامنا ہے تشدد کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ انسانی ہمدردی کی تنظیموں نے متاثرین کو مدد فراہم کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کی ہے اگرچہ دارفور میں تنازع  بدستور جاری ہے مگر حالیہ برسوں میں کچھ پیش رفت ہوئی تھی۔ 2019 میں سوڈان کی حکومت اور کئی  باغی گروپوں نے ایک اہم معاہدہ پر دستخط کیے تھے، اس کا مقصد دارفور اور ملک کے دیگر حصوں کے تنازعات کو ختم کرنا تھا، معاہدے میں پاور شیئرنگ، دولت کی تقسیم اور بے گھر افراد کی واپسی سے متعلق دفعات شامل تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر گزشتہ دو ہفتے سے شدت اختیار کرنے والی اس خانہ جنگی میں ہزاروں کی تعداد میں برطانوی، امریکی اور دوسرے کئی ممالک کے شہری پھنس کر رہ گئے ہیں۔ دو روز بعد آنے والی  خبر کے مطابق تقریبا ً4 ہزار برطانوی پاسپورٹ رکھنے والے افراد سوڈان میں موجود ہیں۔ جن میں سے 2 ہزار نے غیر ملکی، دولت مشترکہ اور ترقیاتی دفتر میں اپنی موجودگی رجسٹرڈ کروائی تھی۔ جبکہ 16  ہزار امریکی شہری سوڈان میں موجود ہیں تمام حکومت اپنے شہریوں کو حفاظت سے واپس لانے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ گزشتہ 72 گھنٹے کی عارضی جنگ بندی کے دوران صرف 900 برطانوی شہریوں کو برطانوی پروازوں کے ذریعے سوڈان سے نکالا جا سکا ہے۔ ایسا صرف اس لئے ممکن ہو سکا کہ فوج جنگ بندی میں توسیع پر رضامند ہوگئی ہے۔ برٹش لوگوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ جلد از جلد وادی سعیدنا کی ہوائی پٹی پر چلے جائیں کیونکہ وائٹ ہاؤس کے مطابق جنگ بندی کی خلاف ورزیاں تشویشناک ہیں اور یہ صورتحال کسی بھی لمحے  بگڑ سکتی ہے۔ مجموعی طور پر سوڈان میں تنازع پیچیدہ ہے اور اس کے لئے ممکنہ طور پر خطے میں پائیدار امن کے حصول کے لیے تمام فریقین سے مسلسل کوششوں اور تعاون کی ضرورت ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply