محبت کی ثلاثی۔۔مہ جبیں آصف

محبت کی اس ثلا ثی کو جب جب لکھا جائے گا,وقت کی آنکھوں میں آنسو لہو بن کر رُلائیں گے۔۔ساحر کیلئے امرتا نے کہا کہ خواب بننے والا جولاہا ہی رہا کسی کا خواب نہ  بن سکا۔ ۔

انکے جانے کے بعد انکے بچے سگریٹ کے ٹکڑوں سے قرب کشید کرنا ، وصل کو تخیل کی اڑان میں پورا کرنا،دل و قلم ساحر ساحر خالی صفحے پر لکھتے جاتے تھے۔ یہ تکرار، مجنوں کی لیلی والی تکرار تھی،خیالوں میں محبوب کو بت بناکر تراش لینا اور بچے  کے سچ  کا سامنا سچ سے کرنا۔ کیا میں ساحر انکل کا بیٹا ہوں ؟۔ ۔کے جواب میں، نہیں!کہہ کر  سچ  کی تسلیم سکھانا ۔

اس تکون میں نقصان تو سب کا ہی ہوا لیکن متاع درد جو ہاتھ آئی   سو ، انمول ۔۔ ۔۔لیکن  امروز کا کردار بہت مضبوط بے لوث بے ریا ،ثابت ہوا ۔۔امرتا کے گھر میں اپنے اشعار سے کیلی گرافی کرنا ،ہر زینہ ہر روشندان پر، ہر دیوار، گوشہ کو امرتا کی تصاویر  اور انکے اشعار سے سجادینا۔ اک سر پھرا جنونی، مستقل مزاج، عاشق ہی کرسکتا تھا۔ ۔جس نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ  تیاگ دیا ۔ ساری دنیا سے کٹ کر اس امرت کا ہورہا،جو خود کسی اور کی مجسم ہوچکی تھی ۔عشق عموماً  طرفین کی رضا طلب کرتا ہے لیکن ایسا عشق جس میں محبوب کسی اور تخیل سے اپنے خانہ دل کو آباد کرچکا ہو ،دراصل حسن  و عشق  کی لاگ یا میل فطری یا نارمل جذبہ ہے۔ ۔ لیکن جب حسن شعلہ و آتش بن کر جلادینے کی سکت نہ رکھے، جب عارض و لبوں کے پھول دہک نہ سکیں ۔۔ جب حسن ,جوانی ماند پڑ کر, بیماری وعمرسے کملاجائیں ۔اس وقت ۔۔ جب امرتا محض ہڈیوں کا پنجر بن گئی  تھی۔ وہ پلنگ کے کونے پر چھوٹی سی گٹھڑی کی طرح نظر آتی تھی نحیف، لاغر۔ ۔ ۔

جب وہ محبت کے نام پر کچھ دینے کے قابل نہ تھی۔ اس وقت امروز نے بے ریا ،بے غرض محبت و  عشق کی جو مثال قائم کی۔ میری نظر میں دنیا کا مثالی رشتہ۔ ۔ اور اسکے بعد وہ کڑا وقت جب امرتا کی ارتھی کو  راکھ بننا تھا۔ امروز رواج کے تحت اسے آگ بھی نہ دے سکا ۔دور اک درخت کے نیچے موجود یہ سب رسومات دیکھتا رہا ۔سب کچھ جھیل کر بھی جو کوئی  حق نہ جتاسکا ،ظالم دنیا کی رسومات کڑی۔ بالآخر تہی داماں کس طرف نکل گیا دیوانہ، بڑا کچھ جل کر بھی کچھ جلنے سے بچ رہا۔۔ایک نقطے  نے خود کو کھینچ کر کائنات جتنا بڑا کرکے اسے اوڑھ لیا ۔۔۔۔

امرت نے کہا ۔۔نیک ساعت ہوتی ہے ملن کی، جب دو دل کہیں ایک ڈائمنشن میں ،ایک فلو میں بہتے ہیں، باقی بے مثل ڈائمنشنز کا راگ مدہم پڑ جاتا ہے ۔۔قوی اک ڈائمنشن کا وجود دو فریقین کیلئے بیک وقت دوام اور خود کے غائب ہونے کا احساس دیتا ہے۔ ۔۔زنجیر نہ کڑی پڑیو دیوانے کا پاؤں درمیاں ہے ۔اس محبت کی ثلاثی میں ہر ایک نے بیک وقت محرومی ،اداسی کسک چبھن کے ساتھ روحانی طور پر یکجائی  کا سُکھ بھوگا اور شاید دیوانوں کی اس نگر ی کے باسیوں کی یہی دیوانگی فرزانگی کہلاتی ہے۔  ہم آپ تخیل کی اس سطح پر جاکر شاید سوچ بھی نہیں  سکتے جتنی بہادری سے ان سب نے دنیا کا سامنا اپنے سچ  کے ساتھ کیا،اور سر اٹھا کر کس شان سے رخصت ہوئے۔ ۔۔جن میں سے ایک کردار ابھی زندہ ہے۔ محبت کی یادوں کے شبستاں میں کہیں روشنی کیے منتظر ہوگا ان لمحات کا جب وہ ابدی ملاقات تک اپنے عشق کو امر کردے ۔

سب کی کہانی ریل کی اس پٹڑی کی طرح ہے جو ساتھ ساتھ تو چلتی رہی لیکن علیحدہ وجود کیساتھ ۔ہر اک کا دکھ ، اسکا سکھ باہم بھی یکجا بھی ۔جزو میں کُل۔ اور  کُل سے جزو  بنتے توڑتے میں   اس مثلث کو دیکھا۔ ۔من تو شدم تو من شدی کے مصداق   امرتا واحد نقطہ تھیں جس پر سب زاویئے آکر ملتے تھے۔ ہنستے تھے روتے,تھے  ساتھ رہتے بچھڑ جاتے ۔۔۔عشق کی کلاسیکل داستانوں میں اک ٹرائیکا ان کا بھی ہونا چاہیے ۔

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

اُن کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے۔ ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور ہم لوگ تو اس شہر دل کے باسی ہیں جہاں اپنا ایماں تو وہی لوٹ سکے ہے جو بھی قد و گیسو لب و رخسار تمہارے رکھے۔ ۔سو سارے موسم ان پیاروں کے نام۔ جن سے ہم نے پیار سیکھا۔ جنوں کی وحشت بھی،درد کا درماں بھی۔ ثلاثی محبت کی۔۔محبت بھی وہ جو بقول کسی  اک حادثے، جو رسیدی ٹکٹ کی پشت پر آجائے۔ ۔۔۔لیکن وہی رسیدی ٹکٹ کی پشت بڑھ کر کائنات کے دکھوں کو خود میں سمو کر کچی رسید  کو  پکی رسید کر گئی ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply