پہلا تبلیغی دورہ۔چندایک یاداشتیں ( نویں قسط)۔۔علیم رحمانی

مولوی صاحب نے کھلاہوابٹوامیری طرف بڑھایاتو میراتراہ ہی نکل گیاکہ انہوں نےبٹوے میں پلاسٹک کوٹنگ کے اندر اپنی یااپنے بچےکی تصویرکی بجائےمحترمہ بینظیر بھٹو کی تصویر سجارکھی تھی جو اس وقت مشرف کی بغاوت کے بعد سے جلاوطنی کی زندگی گزاررہی تھیں،مولوی صاحب نے لگی لپٹی رکھے بغیر بتایاکہ وہ علاقے بھر کے باقی لوگوں کی طرح شہیدبھٹوکے جیالے اورمحترمہ بینظیربھٹو کے متوالے ہیں،یہاں سےبات کارخ ہی مڑ گیااور مشرف کودتااور پی پی کے کردار کے حوالے سے مختلف تبصرے شروع ہوئے اور اپنی عدم دلچسپی کے کارن ہم نےخودپہ زبردستی کی سنجیدگی طاری کرکےیہ سب مروت میں سناکئے پھر بات چل نکلی شیعہ مجالس اور خطبا کی توانہوں نے فرمایاکہ وہ شیعہ خطیبوں میں تین سال پہلے انتقال کرجانے والے علامہ عرفان حیدر عابدی کوبہت پسند کرتے ہیں۔ گویامولوی صاحب آج ہماری تراہ نکالنےکاہیٹ ٹرک مکمل کرنے کی ٹھان چکے تھے ہم نے چھوٹتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی:
ارے اس کی وجہ؟ کیوں آپ علامہ عرفان حیدر عابدی کوپسند کرتے ہیں ؟ آخر ان کی کیا بات آپ کوپسند آگئی؟ آپ یعنی دیوبندی مسجدکے مولوی علامہ عرفان عابدی کوپسند کرتے ہیں؟ یاالہی یہ ماجراکیاہے ۔۔۔!
انہوں نے جب اس کی وجہ بتائی توہماری جان میں جان آئی کہ وہ کوئی مذہبی ہرگز نہ تھی بلکہ خالص سیاسی وجہ تھی۔ تفصیل اس اجمال کی انہوں نے یہ بتائی کہ چند سال پہلے لاڑکانہ میں شہید بھٹو کی برسی پہ لاکھوں کے مجمع میں جب علامہ عرفان حیدر عابدی نے ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی پہ تقریر کی توپورامجمع عش عش کراٹھااورمحترمہ بینظیر بھٹوسمیت سارے قائدین جھومنے لگے بس اس دن سے میں ان کاگرویدہ ہوگیاہوں۔ ہم نے مسکراتے ہوئے زیر لب کہا کہ کاش آپ علامہ صاحب کی انچولی کاکوئی عشرہ یامجلس سن لیتے توجھومنے کی بجائے گول گول گھومنے لگتے۔
بہر حال مولوی صاحب سے ہماری پہلی اور آخری ملاقات نہایت خوشگوار اور محبتوں کے تبادلے کےساتھ اختتام پذیر ہوئی اور انہوں نے جلد بازدید کے لئے حاضر ہونے کاوعدہ تو کیامگر یہ وفانہ ہوسکا۔
نیاز کے بعدہم واپس ہوئے اور گاوں کے بہت سے نوجوان کچہری کرنے ہمارے ساتھ ہی آگئے اور دیر تک دلچسپی کے مختلف موضوعات پہ گپ شپ ہوتی رہی ،کچہری واحد لفظ تھا جس کااس دورے کے دوران ہماری لغت میں اضافہ ہوا جس کے معنی گپ شپ کرنے کے ہیں۔
دیہی سندھ کے لوگ عام طور پہ اہل محبت ہوتے ہیں،مگراس دورے اوربعد کے کئی ایک نہایت دلچسپ تبلیغی دوروں سے یہ بات واضح ہوئی کہ ان کی تین خصوصیات ہرجگہ یکساں طور پہ نمایاں نظر آتی ہیں ایک تو یہ کہ ان کے عام لوگ بہت بلکہ ضرورت سے زیادہ سادہ ہوتے ہیں دوسری یہ کہ نہایت مہمان نواز ہوتے ہیں اور تیسری یہ کہ یہ لوگ اپنی بے پناہ زرعی مصروفیات کے باوجود آپ سے کچہری اور سلام دعاکے لئے ضرور وقت نکال لیتے ہیں اور مہمان کوکبھی تنہائی اور مسافرت کااحساس نہیں ہونے دیتے۔
ان کی سادگی اور مہمان نوازی کااندازہ اس واقعے سے لگالیجئے کہ آج بھی جب یہ یاد آجاتا ہے تو بے اختیار ہمارے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔ہوایوں کہ ہم نماز کے لئےمسجد جس راستے سے جاتےاس راستے میں مسجد سے ذراآگے ایک ہوٹل پڑتاتھااور ہوٹل والاروزانہ ہمیں چائے کی دعوت دیتاہم روزانہ اسے کسی نہ کسی بہانے ٹال دیتے تھے کیونکہ ہمیں یہ پتہ چل گیاتھاکہ یہ اس گاوں کاواحد ہوٹل ہے جس کے آس پاس ہندوں کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد آباد ہے اور وہ بھی اس ہوٹل سے فیضیاب ہوتے ہیں جبکہ مذہبی مسائل اور پاک نجس سے آگہی کی صورتحال توہمارے سامنے تھی اس لئے ہماری کوشش ہوتی تھی کہ اس وقت ہوٹل کے سامنے سے گزراجائے جب ہوٹل والاادھرادھر مشغول ہوتاکہ چائے کی دعوت اور انکار سےبالترتیب انہیں اور ہمیں شرمندہ نہ ہوناپڑےمگر وہ بھی دھن کاپکا اور مخلص مومن تھاروزانہ ہمارے گزرنےکاانتظار کرتااور ہمیں مشکل سے نیابہانہ تراشناپڑجاتاایک دن تواس نے اخیر کردی کہ مغربین سے ذراپہلےجب ہم مسجد کے لئے نکلے تووہ باہر ہی ہماراانتظار کررہاتھافورا معانقہ کیااورحسب معمول چائے کی دعوت دے ڈالی اور ساتھ ہی ہاتھ پکڑ کرکہنے لگاکہ آج توآپ کوچائے پلائے بغیر جانے نہ دوں گاہم نے مجبور ہوکر چائے نہ پینے کی اصل وجہ بتائی کہ بھیاآپ کے خلوص اور مہمان نوازی بلکہ ذرہ نوازی کے ہم قدر دان ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں ہندوحضرات بھی چائے پیتے ہیں اس لئے ہم آپ کی دعوت قبولنے سے معذرت خواہ ہیں ،انہوں نے ایک ہاتھ کی انگلیوں میں پکڑے ہوئے سگریٹ کاکش لیااور دھواں کے مرغولے ہوامیں چھوڑتے ہوئے ایک زبردست قہقہہ مارااور کہنے لگا،سر جی ! بس اسی ڈر سے آپ چائے نہیں پی رہے تھے؟ہم نے شرمندگی سے سرجھکاکرکہاجی ہاں ،کہنے لگاکہ الحمد للہ ہم بھی مسلمان ہیں اور ہمیں بھی پتہ ہےکہ ہندو مذہبی طور پہ نجس ہیں اس لئے ہم نے ان کےلئے برتن اور کپ ہی علحیدہ رکھے ہیں اور انہیں مخصوص برتن اور کپ میں ہی چائے سرو کی جاتی ہے۔اے شباشے ! ہمارے منہ سے بے اختیار نکلا اور دل میں اطمینان کی سی لہر دوڑ گئی ساتھ ہی ہوٹل والے بھائی کے سامنے اچھی خاصی شرمندگی بھی محسوس ہوئی کہ جنہیں ہم دین سے مکمل نابلد سمجھ رہے تھے وہ پاک نجس کے مسائل سے اتنے بھی ناواقف نہیں ہیں ،ہم خوشی خوشی ہوٹل میں داخل ہوئے ،انہوں نے کرسی پہ ہمیں بٹھایااورآواز لگائی۔۔۔۔۔ اوے چھوٹے! مولوی صاحب کی ٹیبل پہ کپڑامار اور کپ اچھی طرح دھوکے چائے لے جا،چائے مالک خود ہی بناتاتھااور چھوٹے نے کڑک دودھ پتی ہمارے سامنے رکھی ابھی ہم نے چند ایک چسکی لی تھی کہ یہ دیکھ کرہمارے ہوش وحواس جاتے رہے کہ انہوں نے ہندوبھائیوں کےلئے کپ توعلحیدہ کررکھے تھے مگر دھونے کے نام پہ جس بڑے ٹپ میں کپ ڈبوکے نکالے جاتے تھے وہ ایک ہی تھایہ دیکھ کے ہم نےمنہ ول لکھنوشریف کرکے چچاغالب کوآواز دی جو فرمارہے تھے:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائےاے خُدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
ہائے صدقے اس خلوص اور قربان اس سادگی کے!
چوتھی محرم کوایک مومن نے پوچھامولوی صاحب! کیاآپ کو مجلس سننے کابھی کوئی شوق ہے؟ ہم نے کہااے سبحان اللہ! یہ مختصر سی زندگی سنتے ہی گزری ہے بھیا۔۔کہنے لگے آج ہم اپنی مجلس کے بعد حیدرآباد شہر علامہ کلب صادق کی مجلس سننے جائیں گے،یہ سن کر باغواہ گاوں میں دل باغ باغ ہوگیاکیونکہ قبلہ ہمارے بھی پسندیدہ خطیب تھے اور کراچی میں کئی ایک جگہ انہیں سننے کاشرف بھی حاصل ہوچکاتھا،چنانچہ رات کواپنی مجلس کے بعد دوعدد موٹر سائکلیں تیار ہوگئیں اور ہم پانچ عدد مومنین جانب حیدر آباد شہر روانہ ہوگئے۔ وہاں اسٹیشن روڈ پہ خوجہ اثناعشری مسجد پہ علامہ کلب صادق صاحب قبلہ خطاب کررہے تھے باہر روڈ پہ ہی منبر لگادیاتھاقبلہ کئی سال پہلےلاس اینجلس میں کی گئی اپنی شاہکار مجالس جو قرآن وسائنس کے نام سے چھپ چکی تھیں، دوبارہ پڑھ رہے تھے اس لئے کل سے نہ جانے کاوہیں ارادہ کرکے نکلے مگر بیچ میں ایک پتے کی بات یہ کہی جو آج تک ہم بھلائے نہیں بھولتے کہ مسلمانوں کوکچھ آئے یانہ آئے بچے پیداکرناخوب آتاہےاور اس فن میں وہ اپنی مثال آپ ہیں ،خداکے لئے سوچئیےاور کچھ اس زمین پہ رحم کیجئے۔
مجلس کے بعد تقریبابارہ بجے ہم پگڈنڈیوں سے بائیکوں پہ گزرتے ہوئے گاوں کے قریب پہنچے تودرجن بھرکتوں نے پیچھاکرناشروع کیا،ہم ہمیشہ حیوانی اور انسانی کتوں سے خوفزدہ رہے ہیں یہ دیکھ کر اوسان ہی خطاہوئےمگر شکر ہے کہ بائیک کی رفتار بڑھنے پہ ایک ایک کرکے وہ پیچھے رہتے گئے مگر جب گاوں میں داخل ہواتوگدھے کے برابر ایک کتاغراتے ہوئے سامنے آکھڑاہوااور ہمارے ڈرائیور صاحب نے اس کے عین سامنے بائیک روک دی جیسے وہ ان کاکوئی پراناشناسا ہو ،ادھر ظالم نے بائیک روک دی ادھر سینے میں ہمارے سانس رک گئے اور اس حماقت پہ ہم سٹپٹاکررہ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے کیاہوا پڑھئیے اگلی قسط میں۔۔۔
جاری ہے۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔