کیا یونہی دن گزر جائیں گے۔۔مرزا مدثر نواز

زندگی کتنی مختصر ہے اس بات کا اندازہ عموماََ اس وقت ہوتا ہے ،جب اس کا بیشتر حصہ گزر چکا ہوتا ہے۔ ایک جاننے والے کے والد صاحب نے تقریباً سو سال کی عمر پائی،وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد آخری دنوں میں چٹکی بجا کر کہتے تھے کہ اسی طرح زندگی اتنی جلدی گزر گئی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلا۔ اس مختصر سی زندگی کو پُر تعیش بنانے کے لیے ہم صحیح و غلط کیا کچھ نہیں کرتے اور پھر ایک دن چپ چاپ اس دنیا سے نہ چاہتے ہوئے بھی روانہ ہونا پڑتا ہے۔سب سے اچھا اور بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے اورکسی کو تکلیف نہ دے،غرباء، مساکین اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھرے، ان کی زندگی کے لمحات کو دکھ درد سے پاک کرنے کو کوشش کرے،چند لمحوں کیلئے ہی سہی، انہیں فرحت ومسرت اورشادمانی فراہم کرکے ان کی تکالیف اور مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کرے۔ انہیں اگر مدد کی ضرورت ہوتو ان کی مدد کرے اوراگر وہ کچھ نہ کرسکتاہو تو کم ازکم ان کے ساتھ میٹھی بات کرکے ہی ان کے تفکرات کو دور کرے۔صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں بلکہ کسی کی کفالت کرنا،کسی کو تعلیم دینا،مفید مشورہ دینا، کوئی ہنر سکھانا،علمی سرپرستی کرنا،تعلیمی ورفاہی ادارہ قائم کرنا،کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے دوسرے امور خدمت خلق کی مختلف شاخیں ہیں۔
؎یہی ہے عبادت، یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

ایسے سجدے کرنے والے تو کافی ہیں جن کے ماتھے پر نشان پڑ ا ہوتا ہے لیکن وہ بہت ہی کم ہیں جو ایسے سجدے کرتے ہیں کہ ماتھے کی بجائے نشان زمین پر پڑھ جاتا ہے۔
؎داغ سجود اگر تیری پیشانی پر ہوا تو کیا
کوئی ایسا سجدہ بھی کر کہ زمیں پر نشاں رہیں

انسا نوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسا نوں کی مددکے عمل کو ہر دین و مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جا تا ہے لیکن دین اسلام نے خد مت ِ انسا نیت کو بہترین اخلا ق اور عظیم عبا دت قرار دیا ہے۔معبود برحق نے انسا نوں کو یکساں صلا حیتوں اور اوصاف سے نہیں نوازا، بلکہ اُن کے درمیان فرق وتفا وت رکھا ہے ،جو اس کا ئنات کا حسن و جما ل ہے۔ وہ رب کائنات چاہتا تو ہر ایک کو خوبصوت،مال دار،اور صحت یاب پیدا کر دیتا لیکن یہ یک رنگی تواس کی شانِ خلاقی کے خلاف ہوتی اور جس امتحان کی خاطر انسان کو پیدا کیا ہے، شاید اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا۔ رب العالمین نے جس کو بہت کچھ دیا ہے اُسکا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے، وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معا شرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی مدداُن کے وہ بھا ئی بند کریں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان باہمی الفت ومحبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں کو اللہ کی رضا اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو۔ وہی لوگ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں جنہوں نے بنی نوع انسان کی بہبود کے لیے کوئی کام کیا ہو، ان کے لیے آسانیاں پیدا کی ہوں۔ آج اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ماضی کے بے شمار انسانوں میں سے دنیا صرف انہی کے نام سے واقف ہے جنہوں نے اپنی ذات کی بجائے لوگوں کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی‘ بنی نوع انسان کی سہولیات کے لیے ایجادات کیں‘ اپنے آپ کو کسی نیک کام کے لیے وقف کر دیا‘ کسی عوامی و فلاحی منصوبے کے لیے زمین وقف کر دی وغیرہ وغیرہ۔اگر صرف جینے کے لیے ہی جیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک معین مدت کے بعد مر جائیں گے لیکن اگر جینے کے ساتھ ساتھ کوئی قابل قدر یا نیک کام کر گئے اور عوام الناس کے لیے کسی بھی شکل میں آسانیاں پیدا کرنے میں حصہ دار بن گئے تو مرنے کے بعد بھی زندہ رہ جائیں گے
؎ بے دلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے

بابرکت ہیں وہ لوگ جنہوں نے خدمت خلق کے لیے ادارے قائم کیے اور انہیں احسن طریقے سے چلا رہے ہیں، یوں تو ایسے اداروں کی تعداد سینکڑوں میں ہے لیکن کچھ قومی سطح پر جانے پہچانے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے یا شک نہیں کہ ایسے اداروں کو چلانا آسان کام نہیں اور یہ عوام کے مالی تعاون ہی سے ممکن ہے۔ لہٰذا ہمیں ایسے اداروں کو ساتھ دل کھول کر تعاون کرنا چاہیے تا کہ دکھی انسانیت کی خدمت کا مشن جاری و ساری رہے۔ فلاحی کاموں کا جذبہ یا سوچ شروع میں ایک یا کچھ لوگ ہی لے کر چلتے ہیں لیکن بعد میں دوسروں میں بھی تحریک پیدا ہوتی ہے اور کارواں بڑھتا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خدمت خلق کرنے یا دوسروں کے کام آنے والے لوگوں کی فضیلت کا اندازہ اس حدیث سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے‘ وہ کہتے ہیں: ایک آدمی نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کون سے لوگ اللہ تعٰالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں اور کون سے اعمال اللہ تعٰالیٰ کو زیادہ پسند ہیں؟ رسول اللہ نے فرمایا: ”وہ لوگ اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہیں جو دوسرے لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال یہ ہیں کہ مسلمان کا اپنے بھائی کو خوش کرنا‘ اس سے کوئی تکلیف دور کرنا‘ اس کا قرضہ چکانااور اسے کھانا کھلانا۔ (دیکھیں) مجھے کسی بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلنا اس مسجد نبوی میں ایک مہینہ اعتکاف کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ (اور یاد رکھو کہ) جس نے اپنے غضب کو روک لیا اللہ تعٰالیٰ  اس کی خامیوں پر پردہ ڈالے گا‘ جو آدمی اپنے غصے کو نافذ کرنے کے باوجود پی گیا‘ اللہ تعا لی روز قیامت اس کے دل کو امیدوں سے بھر دے گا۔ جو اپنے بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے چلا‘ اللہ تعالی اس کو اس دن ثابت قدم رکھے گا جس دن قدم ڈگمگا جائیں گے اور بد خلقی اعمال کو یوں تباہ کرتی ہے جیسے سرکہ‘ شہد میں بگاڑ پیداکر دیتا ہے۔“(سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ‘ جلد 4‘ حدیث 2593‘ صفحہ 209)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply