گندے لوگ۔۔سانول عباسی

ذہن و دل کے نہاں خانوں سے مجھے اکثر ہچکیوں کی آوازیں آتی ہیں ،جیسے زنداں میں حیات و موت کی کشمکش سے دوچار کوئی ملزم زندگی کی آخری سانسوں میں کسی مسیحا کا منتظر ہو، ایک لمحے کو اجنبیت کے احساس نے مجھے مزید فکر کی وادیوں میں دھکیل دیا ،تو سوچ کی پگڈنڈیوں پہ فقط ایک ہی سوال کی بازگشت سنائی دیتی رہی، میں کون ہوں کہاں ہوں، گر میں وہ نہیں جو نظر آ رہا ہے تو جو نظر آ رہا ہے کون ہے اور اس نے کیوں مجھے اوڑھ لیا ہے۔

                                آج بہت دیر تک آئینے میں خود کو تلاش کرتا رہا، مگر ایسا مجسوس ہوتا تھا کہ میں کہیں نہیں بلکہ کوئی اور ہے جو میرے دل و دماغ کے ساتھ میرے جسد پہ بھی مسلط ہے اور یہ تسلط اس قدر شدید ہے کہ میں اپنے آپ سے متعلق کوئی نشانی بھی ایسی نہیں جانتا جس سے خود کو پہچان سکوں، اس نے کیوں مجھ سے میری ذات کا ادراک چھین لیا ہے میں کون ہوں، اور کسی اور نے مجھ پہ کیوں قبضہ کیا ہوا ہے ،یہ اگر کوئی اور نہیں ،میں خود ہی ہوں۔۔ تو ذہن و دل کے زندانوں  میں جو سسکیوں کی صدائیں ہیں، کس کی ہیں ، کون ہے جو میرے اندر اس قدر بےتاب ہے ،نہیں نہیں،  میں یہ  نہیں ہوں، میں  یہ کیسے ہو سکتا ہوں، جبکہ  مجھے اس پہ  کوئی اختیار ہی نہیں، یہ تو میری ایک بھی نہیں سنتا، یہ تو دن رات مجھے اذیت دینے کے درپے رہتا ہے، میں یہ نہیں ہو سکتا ،میں ظالم نہیں ہوں، انسان ظالم نہیں ہو سکتا، ہر گز نہیں مگر یہ جو مجھ پہ مسلط ہے کون ہے اور اس نے مجھے اتنی مہلت ہی کیونکر دے دی کہ میں اپنے متعلق سوچ سکوں۔

                           حالات انسان کے چہرے سے مسکان چھین لیتے ہیں اور سنجیدگی سے بھرپور تاثرات چہرے پہ نقش ہو جاتے ہیں ،جو دیکھنے والوں پہ کرختگی کا تاثر پیدا کرتے ہیں اور کبھی کبھار بےخبری میں جب آئینے پہ نظر پڑتی ہے تو اپنا ہی چہرہ اجنبی محسوس ہوتا ہے، ایک لمحے کو محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی انتہائی سنجیدہ سا کرخت شخص ایک دم سے سامنے آ گیا ہے اور مارے خوف کے انسان خود سے ڈر جاتا ہے۔

                       دنیا میں سب سے مشکل اپنی پہچان ہے ،ہم دنیا کے شور و غل میں آہستہ آہستہ خود سے اجنبی ہوتےچلے  جاتے ہیں اور ایک دن ہم خود سے مکمل طور پہ اجنبی ہو جاتے ہیں اور اپنا آپ ایک بوجھ سمجھ کر تمام عمر اٹھائے پھرتے ہیں، نہ تو ہم اسے کہیں پھینکنے کی جسارت کرتے ہیں اور نہ اٹھائے رکھنے کی سکت رہتی ہے، اور اس دوبدو کی کیفیت میں زندگی موت سے بھی بدتر صورت میں گزر جاتی ہے ہمیں احساس ہی نہیں رہتا کہ زندگی سانسوں کے سوا بھی کچھ ہے ،مصنوعی سماج صناعی جذبات و احساسات زندگی سے بھرپور بدن کو زندان میں بدل دیتے ہیں، رفتہ رفتہ ہم خود سے اجنبی ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہ اجنبیت آہستہ آہستہ خود اذیتی کے نشے میں بدل جاتی ہے، بدن کے زندان میں خود کو سسکتا ہوا دیکھ کر عجیب لذت کا احساس ہوتا ہے اور جیسے جیسے یہ صناعی شخصیت پختگی کے مراحل طے کرتی جاتی ہے، ویسے ویسے یہ نشہ جان لیوا حد تک ہمیں گھیر لیتا ہے اور ہم زندگی کی رعنائیوں سے کوسوں دور نکل جاتے ہیں۔

                     ہر شخص اپنے آپ کو بحیثیت انسان اور آزاد دیکھنا چاہتا ہے اور اپنے تئیں کوشش بھی کرتے ہیں، میں نے بھی اس تسلط سے چھٹکارا پانے کی اپنے تئیں بہت کوششیں کی ہیں، میں نے پختہ ارادہ کیا ہوا تھا کہ اپنے ذہن و دل کو اس غاصب کے تسلط سے آزاد کرانا ہے، جب  اپنے آپ کو اس تسلط سے آزاد کرانے کی تمام سنجیدہ کوششیں ناکام ہو گئیں اور  مسلسل جدوجہد سے قوی شل ہونے لگے تو اچانک بےبسی کی کیفیت میں چہرے پہ شکست خوردہ ہنسی کے آثار نمودار ہوئے تو جیسے ہی ایک ہلکی سی مسکان نے میرے حسی تاثرات کو تبدیل کیا ،ویسے ہی میں نے اس اجنبی گرفت کو کمزور ہوتا محسوس کیا ،جیسے ہی اجنبی کی گرفت کمزور ہوئی ایک طمانیت کا احساس میرے دل و دماغ پہ چھانے لگا ،ایک جھرجھری سی بدن میں پیدا ہوئی اور یوں لگا جیسے تمام بدن میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ہو، میں نے مزید مسکرانا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ میں نے اپنے آپ کو اس جکڑن سے آزاد ہوتا ہوا محسوس کیا اور کچھ ہی دیر میں ایسا لگا کہ میں اس جان لیوا زنداں سے باہر آزاد فضا میں زندگی سے آ ملا ہوں۔

                           ہم چاہتے ہوئے بھی خوداذیتی کے اس نشے سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے ہم ایک دوسرے کی حقیقت جانتے ہوئے بھی ملمع کاری و بناوٹی زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں، مگرہم زندگی سے فقط ایک مسکان کے فاصلے پہ ہیں اور کوشش کے باوجود بھی ہم مسکرانے سے قاصر ہیں۔

                             زندگی سے دور شخصی اقدار سماج میں درندگی و بےحسی کو فروغ دیتی ہیں اگر ہم اطراف میں نظر دوڑائیں تو ہمیں ہمارے علاوہ تمام سماج درندگی و بےحسی کی تصویر نظر آتا ہے لیکن اگر سچ کہا جائے تو ہم بھی اسی سماج میں پنپتی درندگی میں برابر کے شریک ہیں ملمع کاری و بناوٹی کردار ہمیں اپنے متعلق سوچنے ہی نہیں دیتا ہم جب بھی سوچنے لگتے ہیں یہ بناوٹی کردار ہمیں ایک پوتر روح کے طور پہ کناروں پہ کھڑے ناظر کی جگہ لے آتا ہے جو اس گندگی کی دلدل سے باہر فقط نظارہ کر رہا ہے لیکن حقیقت میں ہم سب اس گندگی کے اہم کردار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply