بشری عامر بنئیے ۔۔۔ ہما

بشری عامر بنئیے۔۔۔

کتابی چہرہ، لباس سے چھلکتی نفاست، پراعتماد سنجیدگی و متانت سے بھرپور لہجہ
یہ ہیں بشری عامر لیاقت حسین۔


ہم ٹی وی پر رمضان ٹرانسمیشن کی میزبان ۔
اس سے پہلے بشری کو انٹرویوز میں خبروں کی حد تک دیکھا تھا لیکن اب وہ ایک باقاعدہ ٹرانسمیشن کی میزبانی کے فرائض انجام دے رہی تھیں ۔
ان کا اعتماد ہر گز نہیں بتارہا تھا کہ وہ اپنے کسی دکھ سے کوئی جنگ لڑرہی ہیں یا عام حالات میں اپنے شوق سے یہ میزبانی کررہی ہیں؟شاید اس سے پہلے بشری نے کبھی اپنے شوق کو اپنی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے لانے کا سوچا ہی نہ ہو۔


ان کے لئے ان کے نام کے لاحقے کی مثبت و منفی شہرت ہی سب کچھ ہوگی
اور عورت نام ہے ہی سپردگی کا۔ وہ جس مرد کے نام لکھ دی جائے اپنی ذات کو بھلا کر صرف اسی سے منسوب خوشی چاہتی ہے ۔ جبکہ اپنی ذات، اپنی سوچ، اپنی صلاحیت ہر چیز بے معنی ہوجاتی ہے ۔
میں آج سے چند سال پہلے ایک ووکیشنل سینٹر میں ڈریس ڈیزائننگ کورس کررہی تھی۔ ایک دن وہاں کی مینٹور ہال میں ایک لڑکی کو لے کر آئیں۔ لڑکی بہت روئی ہوئی لگ رہی تھی۔ وہ اس لڑکی کو میرے پاس بٹھاکر چلی گئیں کہ یہ کچھ وقت ہمارے ساتھ گزاریں گی۔
اس کی حالت دیکھتے ہوئے میں کچھ پوچھے بغیر ہی بہت کچھ سمجھ گئی۔ وہ خالی اور سہمی ہوئی آنکھوں سے مجھے کام کرتا دیکھ رہی تھی۔ جب میں نے اس کی طرف ایک گرم جوش مسکراہٹ سے دیکھا تو وہ بھی آہستہ سے مسکرادی پھر کچھ توقف کے بعد مجھ سے مخاطب ہوئی:
آپ بتائیں کیا سوچنا بری بات ہے؟
میں نے کہا نہیں، سوچنا تو اچھی بات ہے۔
کہنے لگی میرے بھائی بھابی مجھے ڈاٹتے ہیں کہ سوچو مت رو مت۔
میں آخر کیسے نہیں سوچوں، وہ میرا شوہر ہے جیسا بھی ہے میرے بچوں کا باپ ہے چاہے مجھے مارے مجھے نہ رکھے، ہے تو میرا شوہر میں کیسے نہ سوچوں اس کے بارے میں؟
میں نے اس کے لفظ سنتے ہوئے اپنے لفظوں کو جمع کرتے ہوئے کہا ہمیں سوچنا ضرور چاہئے لیکن پریشانی کو نہیں بلکہ پریشانی کو حل کرنے کے لیے ۔

اسے یہ لفظ ضرور کہے تھے لیکن مجھے اس کی حالت پر بہت ترس آیا تھا کہ کیسے ایک لڑکی کا وجود بے معنی ہوکر رہ گیا۔
شوہر جسے زمیں زادے مجازی خدا کہتے ہیں اس میں اتنی فرعونیت در آئی کہ نہ بچوں کا سوچا اور نہ بیوی کے احسانات کا؟

پاکستانی مرد یا مسلم مرد دوسری تیسری اور چوتھی شادی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ اسے جو عورت پسند آجائے وہ اس کے لئے پہلی عورت کے جذبات اس کی قربانیاں ہر چیز فراموش کرسکتا ہے ۔
اس پر مزید ستم ظریفی یہ کہ مذہب کو ڈھال بنالے گا کہ مذہب اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے۔

پاکستان کے کسی وقت کے مذہبی امور کے وزیر عامر لیاقت حسین بھی اپنی دوسری شادی پر یہی دلائل ببانگ دہل دیتے ہوئے پائے گئے کہ میں نے نکاح کیا ہے کوئی گناہ نہیں کیا، مجھے میرا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے۔

عامر لیاقت اپنی چھوٹی بیگم کی ہر جگہ منہ دکھائی کرواتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہوئے پائے گئے۔

جبکہ ایک مارننگ شو میں انہوں نے اپنی بڑی بیگم کیلئے انسلٹنگ ریمارکس بھی دیئے کہ:

بچے ان کے کہنے پر میرے خلاف ٹوئیٹس کررہے ہیں اور یہ کہ ڈگری لینے سے انکی بیگم کوئی مذہبی عالمہ نہیں بن گئیں اگر انہیں دوسری شادی کے حق کا نہیں پتہ۔

مذہب اسلام میں دی گئی چار شادیوں کی اجازت پر پھولنے والے مرد اسی مذہب کی دوسری آیات پر ایمان کیوں نہیں رکھتے جہاں انصاف کا کھلم کھلا حکم دیا گیا ہے۔ کہا گیا کہ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو ایک پر ہی اکتفا کرو۔

مصر کی سب سےبڑی جامعہ الازھر کے سربراہ الشیخ احمد الطیب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک شخص کا زیادہ شادیاں کرنا عورت پر ظلم کے مترادف ہے۔ جو لوگ کثرت ازواج کے قائل ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
شیخ الازھر نے کہا کہ قرآن پاک کا حکم ہے “فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة” ۔ یعنی اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم بیویوں میں انصاف نہیں کرسکو گے تو ایک بیوی کافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کثرت ازواج عورتوں اور اولاد دونوں پرظلم ہے۔ تعدد ازواج کے حوالے سے قرآن کی نص کو بہ غور پڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ پوری آیت کا ایک حصہ ہے پوری آیت نہیں‌ہے۔ اس کا کچھ حصہ پہلے اور کچھ بعد میں ہے۔
سورہ نساء ہی میں مزید حکم ہے کہ:
’’تم اس بات کی استطاعت نہیں رکھتے کہ (دلی تعلق کے معاملے میں) بیویوں کے درمیان انصاف کرسکو، چاہے تم کتنا ہی چاہو۔
تم ایک کی طرف اتنا نہ جھک جاؤ کہ دوسری لٹکتی رہ جائے۔‘‘
لیکن ان احکامات کو تو دیکھنے ہی ہمیں ضرورت ہی نہیں ناں۔
ہم اپنے محکم مذہب کو اپنے استعمال کا ایک بیگ سمجھتے ہیں شاید۔
جس چیز کی ضرورت ہوئی وہ سامان نکالا استعمال کیا اور پھر رکھ دیا ۔

کمزور احساسات و جذبات کی مالک عورت اپنے شوہر اور اولاد کے لئے اپنی ذات کو مٹادیتی ہے لیکن مرد کا مذہب کے نام پر اپنے شوق پورا کرنا اسے ذیادہ تر نفسیاتی الجھنوں میں پھنسا دیتا ہے۔

میں نے ماہر نفسیات حفصہ احسن سے اس سلسلے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ:

“میرے پاس جو ذیادہ تر خواتین آتی ہیں وہ ڈپریشن اور انگزائٹی کی مریضہ ہوتی ہیں
اور ان کی وجوہات میں شوہروں کے دوسری عورتوں سے تعلق، شرعی، معاشرتی اور قانونی حقوق نہ دینا ہے لیکن ان وجوہات کا حل تو ایک طرف ان وجوہات کی طرف بھی کسی کا دھیان نہیں جس کا نتیجہ بچوں پر برا اثر، طلاق کی شرح میں اضافہ، خودکشی کا رحجان ،خوف، بے چینی، عدم برداشت، دوریاں، غصہ، خونی رشتوں میں نفرت اور انتقام بہت عام ہوگیا ہے۔”

لب لباب یہ کہ مرد اگر دوسری شادی اپنا حق سمجھتا ہے تو پہلی بات اسے کسی طرح مذہب اسلام سے جوڑ کر اسے استعمال نہ کرے۔
اور دوسری بات عورت کے لیے  کہ اگر مرد آپ کی تمام تر قربانیوں کی پرواہ کئے بغیر آپ کو اور آپ کے بچوں کو چھوڑ کر دوسری راہ چنتا ہے تو ڈپریشن اور انگزائٹی میں جانے کے بجائے دوسرا راستہ چنئے۔
ہمت، مضبوطی اور بہادری سے اب اپنی شناخت کیلئے کھڑے ہو جائیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ ایک تمثیل بنیے۔ آپ  بشری عامر بنئیے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply