کریکٹر سرٹیفکیٹ۔۔۔محمد خان چوہدری

کالج میں ہماری غیر نصابی سرگرمیوں کا آغاز پہلے دن فرسٹ ائیر فُول سے ہوا۔۔۔صبح صبح جب کالج پہنچے تو گیٹ سے اندر چیک پوسٹ بنی ہوئی  تھی سینئر کلاسز کے لڑکے ٹولیوں میں کھڑے تھے
فرسٹ ائیر یعنی گیارہویں کلاس کا جو لڑکا آتا اسے دو چار گھیر لیتے، کسی کو ڈنٹ بیٹھک، کسی کو ایک ٹانگ پہ کھڑا رکھتے۔
کوئی  مرغ کی طرح بانگ دیتا، کسی سے پہاڑے سنتے کوئی  شعر سنا رہا تھا۔ غرض ہر نووارد سٹوڈنٹ کو بقول ان کے جھاکا اتارنے کے لئے خاصا غیر مہذب مذاق برداشت کرنا تھا، ہماری تُو تُکار ہو گئی بات ہاتھا پائی  تک جاتی لیکن ایک واقف کار نے مداخلت کر کے ہمیں ٹھنڈا کرتے سجھایا کہ یہ رسم ہے، خیر طے یہ پایا کہ ہم وہاں سے گزرنے والی ایک گرل  سٹوڈنٹ کو ، آئی  لایک یُو ، کہیں۔۔۔
سامنے سے فرسٹ ائیر  کی ہی تین لڑکیاں جو ہماری محلے دار تھیں جیسے ہمارے پاس سے گزریں تو میں نے انکے قریب ہوتے ایک سے کہا، نبیلہ آئی  لایک یو،۔۔۔
دوسرے دن ہماری پرنسپل آفس میں شکایت ہو گئی اور وہاں موجود نبیلہ سے ہم نے معافی مانگ لی۔

دو سال ہنستے کھیلتے گزر گئے امتحان ہوئے پاس ہو گئے ہیلی کالج لاہور جانے کا پروگرام بن گیا۔۔۔۔۔بتایا گیا کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لئے کالج سے، کردار کی تصدیق تحریری درکار ہو گی، کالج کے آفس گئے،کلرک محلہ دار ، واقف حالات اور بے تکلف تھا،دفتر میں ہماری وہی کلاس فیلو نبیلہ مارکس شیٹ لینے آئی  ہوئی تھی،کلرک بادشاہ نے دو مطالبے سامنے رکھ دیئے۔۔
اوّل کینٹین سے ایک درجن سموسے اور ایک کلو دودھ پتی سارے سٹاف کی خدمت کے لئے منگوائی  جائے
وجہ وصول رشوت ہذا ہمارا کالج میں فرسٹ آنا تھا جس کو ہم ٹرخاؤ داؤ سے ٹال چکے تھے۔تو اس حکم کی تعمیل ہو گئی ، چائے سموسے ہم نے اور ہماری ہم جماعت نے بھی کھائے۔

دوسرا مطالبہ انتہائی  نا معقول اور غیر شرعی تھا لیکن کلرک بابو کی کلرکانہ ذہنیت کے عین مطابق تھا۔۔۔کہ ہم اپنی کلاس کی کسی فی میل سٹوڈنٹ سے پہلے نیکو کاری کی گواہی دلوائیں،ہمیں یقین ہو گیا کہ  اس کا یہ غیر اخلاقی مطالبہ بھی ہمیں خوش اخلاقی سے پورا کرنا ہے اور  قدرت نے گواہ تو وہاں پہلے سے بھیج رکھی تھی تو ہم اس خاتون سے یوں  ملتجی ہوئے، کہ اے شاہکار حُسن تو گواہ ہے کہ ہم نے کبھی میلی کچیلی  آنکھ سے تمہیں بے نقاب نہیں  دیکھا، اس نے مسکرا کے اثبات میں سر ہلا دیا، لیکن  اس دوزخی کلرک نے جرح کرنے کے انداز میں بڑا ذومعنی سوال  اُس حور عالم سے پوچھا، کہ آپ تو ان کی عزیزہ ہیں، مان لیا ، باقی تین کم  تیس گرل سٹوڈنٹس ان کو کیسے دیکھتی ہیں؟۔۔
ہمارا خون کھول اٹھا کہ یہ ایک معمولی کلرک ہم جیسے معشوق نسواں کے  بارے میں کیسی انکوائری کر رہا ہے، ایک بھینس نما بیوی کا شوہر ہوتے اس  کو شرم نہیں  آ رہی تھی، لیکن ہم تو سرٹیفکیٹ کے محتاج تھے اور اس وجہ  سے بے تاج تھے، بس دانت پیس کے رہ گئے، دل میں سوچ لیا کہ یہ درجہ سوم  کا ملازم ایک دفعہ ٹائپ کرکے اور پرنسپل سے دستخط کرا کے کاغذ ہمارے حوالے کر دے تو
ہم اس کی گھٹیا پاکستانی سہراب سائیکل کے دونوں ٹائروں سے ہوا نکال کے ہی گھر جائیں گے۔
اللہ اُس خاتون کے پوتے سلامت رکھے۔۔۔۔اس نے کمال کا بیان دیا، وہ گھن گرج کے ساتھ بولی، ” بابو صاحب یہ ایک  انتہائی  مخلص اور نیک دل جوان ہے، اس نے ابھی تک مجھے پروپوز نہیں  کیا،
گزشتہ دو سالوں میں اس نے جس جس کلاس فیلو کو دعوت نکاح دی ہر  ایک کے بھائیوں اور ہونے والے سالوں کے ڈر سے، دو دو طلاق بائن دے دیں،تیسری اس لئے نہیں  دی کہ کوئی  پتہ نہیں  کس کی قسمت جاگ جائے یا پھوٹ جائے۔۔۔
آپ میری گواہی پہ  اسے سند شرافت دے دیں کہ میں ابھی تک بالکل محفوظ ہوں،حالانکہ اس نے کالج کے پہلے دن مجھے آئی  لایک یو بھی کہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کی نزدیک کی نظر کمزور ہے، یہ سرٹیفکیٹ میں لکھیے گا”۔۔۔۔
ہم دانت پیس کر رہ گئے کہ پرنسپل پاس شکایت لگا کے بی بی نے خود اپنا چانس ضائع کیا تھا۔لیکن ہمیں سرٹیفکیٹ لینا تھا اس لئے ہم نے بس مسکرانے پر اکتفا کیا۔بس جی مجبوری بری بلا ہے ، ہمیں نبیلہ کے تعاون کے بدلے اسے اپنی بائیسکل پہ  اس کے  گھر چھوڑ کے آنا پڑا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply