کسی ایسے شخص کے بارے میں گمان کیجیے جو گزشتہ ایک صدی کی تاریخ کا چشم دید گواہ ہو۔ جس نے ہماری زندگیوں پر اثرانداز ہونے والے اہم واقعات اپنے سامنے ہوتے دیکھے ہوں۔ جو ہمارے استادوں کے استاد کے بھی استاد رہے ہوں۔ جس نے والی ہلال، مسٹر وین ، کیپٹن مرادبخش اور کیپٹن رمضان کے ساتھ فٹ بال کھیلی ہو۔ علم اور پڑھنے کا شوق جس کو اُس وقت گوادر سے کراچی، کراچی سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے مستونگ لے گیا جب مسافتیں منٹوں اور گھنٹوں میں نہیں بلکہ دنوں اور ہفتوں میں کٹتی تھیں۔ اگر ایسا شخص آپ کے سامنے موجود ہو تو آپ اس سے کیا کیا پوچھنا چاہیں گے۔ کن کن موضوعات پر اس کو بولنے کا کہیں گے اور کون کون سے سوالات آپ کے ذہن میں آئیں گے۔
آدمی واقعتا ًسوچتا رہ جاتا ہے۔
مسقط میں جب ماسٹر محمد اکبر سے ملاقات ہوئی تو کچھ ایسی ہی صورت حال میں خود کو درپیش پایا۔ آپ ضعیف تو ہیں مگر مضبوط لب و لہجہ اور پاٹ دار آواز اس بھرپور حوصلے اور عزم کا اب بھی اظہار کرتا ہے جس کی بدولت وہ پانچ سال تک مستونگ اسکول کے بورڈنگ ہاؤس میں رہے اور میٹرک تک تعلیم مکمل کی۔ یہ شاید 1954 کی بات ہو۔
جب وہ گوادر کے پہلے میٹرک پاس بن کر لوٹتے ہیں اور سعیدیہ اسکول میں جماعت چہارم کے استاد کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ ان کے ابتدائی شاگردوں میں ماسٹر رسول بخش مرحوم، رسول بخش توکل مرحوم، ماسٹر امام بخش اور اسماعیل ممتاز شامل رہے ہیں۔ اپنے ساتھی استادوں میں ان کو محمد قاسم، فقیر محمد بینڈ ماسٹر، صغیر احمد، ماسٹر عبدالمجید (گوادری) اور ہیڈماسٹر محمد یوسف کے نام یاد ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ماسٹر عبدالمجید گوادری سے پہلے تدریس شروع کی۔ اور جب وہ جماعت چہارم کو پڑھاتےتھے، اُس وقت ماسٹر صاحب اول اور دوم کے بچوں کے استاد تھے۔
ماسٹرمحمد اکبر 1920 کو گوادر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام غلام شاہ تھا جو چابھار ایران سے گوادر آئے تھے اور سیٹھ رحمت اللہ بشیر کے بکار میں کارچی تھے، یعنی مچھلیاں خشک کرنے کے لیے کاٹ کر اور نمک لگا کر سکھانے کا کام کرتے تھے۔ ماسٹر محمد اکبر گوادر کے مشہور عالم دین اور اس زمانے کی سب سے بڑی اور عالیشان مسجد قادری مسجد کے پہلے پیش امام مُلا قادر داد کے نواسے ہیں۔ ان کے بھائی کا نام محمد عمر تھا، جنھوں نے لیاری کراچی میں زندگی گزاری۔
اپنے زمانہ طالب علمی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اُس وقت گوادر میں ایک پرائمری اسکول تھا۔ لوگ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے دوردراز علاقوں میں بھیجنے سے ڈرتے تھے۔ اس لیے ان سے پہلےکسی نے بھی پرائمری سے آگے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ پرائمری پاس کرنے کے بعد وہ لانچ یا بوجیگ کے ذریعے کراچی آئے اور وہاں سے بذریعہ ٹرین کوئٹہ اور بعد میں مستونگ گئے۔
وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے حوالے سے خان قلات اور مستونگ کے لوگوں کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مستونگ کے لوگ باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے بے حد مہربان تھے۔ خان قلات دور دراز علاقوں سے آنے والے طالب علموں کو دس روپے ماہوار وظیفہ دیتے تھے۔ یہ وظیفہ ہی ان کی میٹرک تک تعلیم کا ذریعہ بنا۔ جس میں وہ ہر ماہ آٹھ روپے خرچ کر کے دو روپوں کی بچت بھی کیا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی رہائش مستونگ اسکول کے بورڈنگ میں تھی جو اسکول کی عمارت کی پہلی منزل پر واقع تھی۔
گوادر کی زندگی، اہم شخصیات و واقعات، انجمن اصلاحِ بلوچاں اور گوادر کے شب وروز کے بارے میں ان کی یاداشتیں ماشااللہ اب بھی سلامت اور باقی ہیں۔
ماسٹر صاحب کے بیٹوں محمداقبال، ذکریا اور عبداللہ کی مہمان نوازی کا بھی بے حد مشکور ہوں۔ اللہ تعالی ماسٹر محمد اکبر کو عمر اور صحت دے اور ان کے خاندان کو خوش و خوش حال رکھے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں