گمشدہ دن۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم

میں بڑے شوق سے پائلٹ سکول میں چھٹی کلاس کے داخلے کا ٹیسٹ دینے آیا تھا ۔ ۔ میرا سارا لباس نیا تھا ؛مجھے پرائمری پاس کرنے پر گھر والوں نے نئےکالے جوتے لے کر دیئے تھے، سیالکوٹ کے بازار کلاں میں ہماری دکان کے ساتھ ہمدرد بوٹ ہائوس تھا ۔ وہاں سے یہ بوٹ لئے تھے یہ پہلی دفعہ تھا کہ عید یا سکول کے جوتوں کے علاوہ نئے جوتے خاص طور پر  خریدے گئے تھے نئے کپڑے اورنئے جوتے ۔ مجھے نئے کپڑوں کی بہت خوشی تھی کیونکہ یہ میرے لئے   خوشی کا دن تھا ۔ میرے نئے سکول میں داخلے کا ٹیسٹ تھا ۔ مگر ٹیسٹ دینے گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ مجھے یہ ٹیسٹ نہیں آتا تھا میں مسیحی اساتذہ کے زیر انتظام ایک انگریزی میڈیم سے آیا تھا اور یہ ٹیسٹ اردو میں تھا جس میں اردو اور اسلامیات کے بہت سے سوال تھے
، میں وقتاً فوقتاً مڑکر اپنے ساتھ بیٹھے لڑکوں کو ایسی نظروں سے دیکھتا کہ وہ میری مدد کو آئیں ۔ مگر سب اپنے سوال ناموں کو حل کرنے میں مصروف تھے۔۔۔

مجھے یاد آیا کہ ایک سوال حجر اسود کے بارے میں  تھا۔۔ مجھے میرے ساتھ والے لڑکے نے حجر اسود کا نام بھی بتلایا مگر میں نے ہجر اشرف لکھا تھا۔۔
میں ٹیسٹ میں ناکام رہا تھا مگر اس کے باوجود ہیڈماسٹر صاحب میرے والد کے جاننے والے تھے اس لیے مجھے داخلہ مل گیا۔

مجھے  پائلٹ سکول کا پہلا دن یاد ہے، میرے پرائمری سکول سے بہت سے لڑکے امتحان دینے آئے تھے ان میں سے عمران مظفر، ضرار زکریا، اشفاق اور نبیل شیروانی اے سیکشن میں گئے تھے۔ میں محسن، وسیم اور تنویر (جی ٹی سرجیکل) والا سی سیکشن میں آئے تھے مجھے خوشی تھی کہ میں اور محسن ایک کلاس میں تھے۔

مجھے یاد ہے پہلے دن سر نصیر ہمارے کلاس ٹیچر تھے انگلش کے ٹیچر تھے انہوں نے انگلش پڑھائی تو اتنی آسان، ہم تو انگلش میڈیم سکول سے آئے تھے ہمارے لئے یہ بہت آسان تھی۔ اور میں نے محسن کی طرف  دیکھا ،وہ سر نصیر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ہمارا ایک پرانا کلاس فیلو جسے وہاں سبق نہیں آتا تھا آج سر نصیر کی آنکھوں کا تارا بنا تھا کیونکہ یہ انگریزی ہمارے لئے بہت آسان تھی۔ ہم  کلاس کے باہر برآمدے میں اور بعد میں گرائونڈ میں بیٹھتے تھے۔ کیونکہ کلاس بنگلہ دیش سے آئے بہاری مہاجرین کو رہائش کے لئے دی ہوئی تھی، ہمارے سکول میں بہت سے بہاری خاندان رہ ر ہے تھے سکول کے اکثر کمرے ان کو دیئے ہوئے تھے۔ اس روز کلاس کے مانیٹر کا بھی فیصلہ ہوا۔ محلہ خراسیاں کا اکرام ہمارا کلاس مانیٹر مقرر ہوا ۔۔مجھے اس بات سے خوشی ہوئی کیونکہ اکرام کی بڑی بہن میری پھوپھی کی کلاس فیلو رہی تھی وہ مجھے اور میں اسے بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ یہ ایک بڑا سکول تھا اس وقت کے شہر کے اختتام پر اور سیالکوٹ کینٹ سے پہلے واقع ایک بڑی سی عمارت ، جس کی دو بڑی گرائونڈز بھی تھیں ، اور دفتروں کے پیچھے ایک چھوٹی گرائونڈ تھی۔

جیسے  کہ پہلے بتلا چکا ہوں کہ ہمیں  گرائونڈ میں بیٹھنا پڑ رہا تھا برآمدہ ہمارا کلاس روم تھا کیونکہ کمروں میں بہاری خاندان رہ رہے تھے ۔
سکول میں میرے ساتھ میرے چھوٹۓ چچا بھی تھے وہ دیر سے سکول داخل ہوئے تھے۔ سکول میں سب سے خوفناک بات بشیر چیمہ صاحب کا پیریڈ تھا جو کہ ریاضی پڑھانے آئے تھے ان کی آواز کی کرختگی اور ان کا رعب پہلے دن ہی ذہن میں چھا گیا تھا۔ اس دن اسلامیات کے استاد حضرت امین صاحب آئے وہ میرے دادا کے بڑے بھائی سائیں امین کے دوست تھے، میرے چچا ان کو جانتے تھے جب انھوں نے ہمیں دیکھا تو ہم دونوں سے بہت محبت سے پیش آئے تھے۔

ہم پہلے دن کی وجہ سے پریشان تھے انھوں نے ہماری پریشانی بھانپ لی تھی اور ہمیں تسلی دی تھی۔ کہ ہمارے ساتھ بہت سے لڑکے تھے ہمارا پڑوسی اور میرا بچپن کا دوست محسن تھا، انھوں نے ہم سے کہا آج ان بچوں سے جا مِلو ۔ اپنے چہرے پر مسکراہٹ لاﺅ اور دوسروں کے لئے ایک اچھی مثال بنو ۔ “
میں ہچکچایا اور میں خاموشی سے اپنی سیٹ یعنی زمین پر بیٹھا رہا، وسیم میرا پرائمری سکول کا کلاس فیلو تھا اس نے ہمیں اپنے ساتھ بٹھایا تھا۔ وہ ایسے برتاو کر رہا تھا جیسے اسے پہلے سے اس سکول کا تجربہ ہو۔ حالانکہ اس کا بھی پہلا دن تھا وہ مجھے نرمی سے  سمجھا رہا تھا۔ ” بہادر بنو“ ، اسں نے کہا ، ” یہ بڑا سکول ہے یہ اب گارڈن میموریل نہیں ہے۔

پھر بریک ہوئی میں کچھ قدم چلا ، رکا اور دیکھا ، مجھے کچھ نظر نہ آیا ۔ پھر مجھے لڑکوں کے  چہرے نظر آنے لگے ۔ ان میں بڑے لڑکے بھی تھے میں کنٹین پر گیا نان ٹکی کے پاس گیا میرے پاس پیسے تھے مگر وہاں سے چیز لینا میرے بس سے باہر تھا وہاں بڑے لڑکے تھے آٹھویں نویں اور دسویں کے لڑکے۔
گھنٹی بجی ،بریک ختم ہو چکی تھی اردو کے حفیظ صاحب ایک مہربان بزرگ تھے مگر اصل مسئلہ معاشرتی علوم کے پیریڈ میں پیش آیا معاشرتی علوم کا پیریڈ ریاض صدیقی صاحب کا تھا۔ وہ ہمارے ضربوں اور تقسیموں سے ہمارے رشتے دار تھے انھوں نے بعض خاندانی تقریب میں ہمیں دیکھا ہوا تھا اور  سو   ہمیں پہچان لیا۔ انہوں نے ہم دونوں کو کھڑا کیا اور کہا کہ یہ دونوں بچے میرے عزیز ہیں مگر یہ دونوں یہ توقع نہ رکھیں کہ ان سے کوئی لحاظ کیا جائے گا کل سے ہوم ورک انھی دونوں بچوں سے چیک کیا جائے گا اور سبق سننے کا آغاز بھی ان دونوں سے شروع کیا جائے گا۔ ایک اور مصیبت میں نے دل میں سوچا تھا۔ رہی سہی کسر خوفناک مونچھوں اور بڑے بالوں والے پی ٹی ماسٹر نے پوری کی۔ مجھے اسی دن اندازہ ہوگیا کہ نئے اور چھوٹے بچوں کو ڈرانا ان کو مرغوب ہے۔ انہوں نے ہمیں لائن بنا کر ایک پیچیدہ ضبط سے اس وسیع گروائونڈ میں کھڑا کیا
” یہ تم لوگوں کا نیا سکول ہے ۔“ ، وہاں اس پی ٹی ماسٹر نے اپنا خوف ناک ڈنڈا لہرا کر کہا، ایسا خوفناک ڈنڈا میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا خوف کی ایک لہر میرے سراپے میں دوڑ گئی۔

سب سے پرلطف پیریڈ بجلی کا تھا۔ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ بجلی بھی کوئی مضمون ہو سکتا ہے ایک انتہائی اچھے انسان ہمیں بجلی پڑھایا کریں گے۔ پھر مجھے لائبریری کا پتہ چلا ہماری لائبریری کا بھی ایک پیریڈ ہوا کرے گا ہفتے میں ایک دفعہ، مگر لائبریرین کے چہرے سے لگتا تھا کہ وہ بچوں سے اکتایا ہوا ہے وہ بچوں کو کوئی خوش  آمدید کہنے والا شخص نہیں تھا۔ اس کے بعد جعفری صاحب، غالبا ً ڈرائنگ کے استاد تھے مگر اصل میں وہ اسکاوٹ ماسٹر تھے انھوں نے بتلایا کہ اسکاوٹنگ کتنی زبردست شے ہے اور ہماری کلاس سے کچھ  زبردست سکاوٹ مل سکتے ہیں۔ یہاں بھی ہر وہ شے ہے جس سے تم لوگ لطف اندوز ہو سکتے ہو اوروہ کچھ حاصل کر سکتے ہو جو ملک اور علم کے حوالے سے فائدہ مند ہے ۔ اپنے آنسو پونچھو اور زندگی کو خوشی سے اور ہنستے ہوئے خوش آمدید کہو ۔ “

میں نے حقیقت کو تسلیم کر لیا اور ایسا کرنے سے میں نے ایک طرح کی طمانیت بھی محسوس کی ۔ مگر مجھے نئے لڑکوں سے دوستی کرنے کے لئے انتظار کرنا پڑا محسن عدیل نے پہلے ہی دن کچھ نئے دوست بنالئے تھے اور اس نے مجھے کلاس کے لڑکوں سے متعارف کروایا چچا کا ایک کلاس فیلو رضوان قریشی بھی تھا جو قلعہ والے سکول سے پرائمری کرکے آیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ لڑکے تھے جو دوست بننے کے لائق تھے اور کچھ ایسے تھے جن کو میں دیکھ سکتا تھا مگر ان سے دوستی یا تعلق ممکن نہیں تھا ، مجھے یہ احساس ہوا کہ اس جگہ کے بارے میں میرے شبہات بے معنی تھے ۔ میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ سکول میں اتنا تنوع موجود ہو گا ۔ میں نے اس سکول میں دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کرطرح طرح کے کھیل کھیلے ، چور سپاہی ، برف پانی، لنگڑا شیر والی کھیلا ۔ میں نے کاپی کے صفحے پر ڈبے بنانے اور جاعں جاوں کہاں جاوں والی کھیل بھی کھیلی ۔ وہاں ہمارے ساتھ مرے کالج کی دیوار تھی وہ دیوار ٹوٹی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ایک لڑکے نے بتایا کہ اس کالج میں آصف بٹ اور ارشد بگو دو بڑے لیڈر ہیں اور انھوں نے پولیس کے حملے کے  وقت گرفتاری سے بچنے کے لئے یہ دیوار توڑی تھی اور یہاں سے فرار ہوئے تھے۔

سب ایسا نہیں تھا کہ میں صرف کھیلتا اور بلا وجہ مٹرگشت کرتا رہا ۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے عمل نے دکھ اور نفرت کو جنم دیا جس سے لڑائیاں بھی ہوئیں ۔ اور استاد ہر قسم کے تھے بعض ایسے تھے جو کبھی کبھار مسکراتے تھے اور بعض ایسے جو اکثر غصے میں ہوتے اور سرزنش بھی کرتے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جسمانی سزاﺅں کا ہتھیار بھی برتتے ۔
اس پہ طرہ یہ تھا کہ اپنا ذہن بدلنے کا سمے گزر چکا تھا اور یہ سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا کہ بندہ پرائمری کی جنت میں واپس لوٹ سکے ۔ ہمارے سامنے مشقت ، جدوجہد اور ثابت قدمی سے ڈٹے رہنے کے سوا اور کچھ نہ تھا ۔ وہ ، جو اس قابل تھے کہ تفکرات کے باوجود مواقع اورکامیابی حاصل کر سکیں ، انہوں نے اس کا ثمر بھی پایا ۔

گھنٹی بجی اور اس نے اعلان کیا کہ دن گزرا اور کام تمام ہوا ۔ بچوں کے ریلے دروازے ، جو اب پھر سے کھول دیا گیا تھا ، کی طرف بھاگے ۔
۔ چھٹی کے بعدمجھے موقع ملا تو میں نے ’کنٹین والے حاجی سے لذیذ اشیاء بھی کھائیں اور کچھ دیرتفریح کے بعد پھر سے دوستیوں ، محبت ، کھیل اور سکھلائی کے عمل میں مشغول ہو گئے ۔ جو ابھی سکول میں موجود تھے چچا نے بتلایا کہ ہمیں لینے آگئے ہیں اس دن بڑے چچا ویسبا پر لینے آئے تھے
میں نے اپنے دوستوں کو الوداع کہا اور دروازے سے باہر آ گیا ۔ میں نے  اپنے چھوٹے چچا کے ساتھ ویسپے پر گھر واپس آنا تھا۔ مگر میں دروازے سے باہر نکلا تو سب کچھ بدل چکا تھا میں انتظار کرنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے ۔ میرے چچا غائب ہو چکے تھے کوئی دوست نظر نہیں آرہا تھا جب میرا طویل انتظار بھی بے سود ثابت ہوا تو میں نے  خود ہی گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا ۔ میں نے ابھی چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ ایک درمیانی عمر کا آدمی میرے پاس سے گزرا ۔ مجھے یوں لگا جیسے میں اسے جانتا تھا ۔ وہ میری طرف مسکراتے ہوئے بڑھا اور اپنے ہاتھ سے مجھے تھپتھپاتے ہوئے بولا ، ” ہمیں ملے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ تم کیسے ہو؟ “
میں نے سر ہلا کر اس سے اتفاق کیا اور جواباً کہا  ” اور آپ ۔۔۔آپ کیسے ہیں ؟ “
” جیسا کہ تم دیکھ سکتے ہو، سب ٹھیک نہیں ہے ، پھر بھی خدا کا شکر ہے ۔ “
اس نے ایک بار پھر مجھے اپنے ہاتھ سے تھپتھپایا اور چلا گیا ۔ میں چند قدم اور آگے بڑھا لیکن پھر حیران ہو کر رک گیا ۔ ” یا خدا! وہ گلی کہاں گئی جو میں نے مڑنی تھی، جہاں میرا گھر تھا؟ یہ کہاں غائب ہوگئی؟ اس پر یہ گاڑیاں کب سے چلنا شروع ہوئیں ؟ اور اس پر انسانوں کے یہ ہجوم کب در آئے ؟ اس کی دونوں اطراف میں کچرے کی پہاڑیاں کب کھڑی ہوئیں ؟ اور وہ وہ سکول کی عمارت غائب ہوگئی اب اس کے سامنے اوور ہیڈ برج سڑک پر چھایا ہوا تھا ، اب یہ شہر کی اختتامی پرسکون سڑک نہیں تھی جو صرف چھٹی وقت بچوں سے بھری پڑی تھی اب فضا سکون برباد کرنے والے شور سے اَٹی تھی ۔ اب سڑک کے راستے پیدل گھر کا راستہ مشکل اور دور لگ رہا تھا مسلم بازار داخل ہوتے ہی دکانوں اور خریدار عورتوں سے بھرا  ہوا تھا یہاں اتنی دکانیں کب تھیں ۔ سڑک پر چلنے والی 1122کی ایک گاڑی کا ’ سائرن‘ بھی تیز آواز میں بج رہا ہوتا تھا اور سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ اپنا راستہ بنا کر جلتی اپنی مطلوبہ  جگہ تک کیسے پہنچ پائے گی ؟

ایک رکشے والا اور اس کا مسافر آپس میں لڑ رہے تھے ۔ مسافر کی بیوی مدد کے لئے پکار رہی تھی لیکن کوئی اس کی سن ہی نہیں رہا تھا ۔ ” یا خدا “ ، میں حیران تھا ، میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور میں کسی حد تک پاگل ہو رہا تھا ۔’ یہ سب آدھے دن میں کیسے ہو گیا ؟ میں گھر جا کر اپنے والد سے پوچھوں گا ۔‘ لیکن میرا گھر کہاں تھا ؟ مجھے تو صرف اونچی اونچی عمارتیں اور انسانوں کے ہجوم نظر آ رہے تھے ‘ ۔ میں تیزی سے اس جگہ پہنچا جہاں علامہ اقبال کے گھر سے پہلے ایک چھوٹی سی گلی اندر جاتی تھی۔ مجھے یہ گلی ‘ پار کرکے گھر پہنچنا تھا لیکن موٹر سائیکلوں کی قطار مجھے ایسا نہیں کرنے دے رہی تھی ۔ کسی گاڑی کا ہارن پورے شور کے ساتھ بجے جا رہا تھا جبکہ وہ ایک کینچوے کی طرح رینگ رہی تھی ۔ میں نے خود سے کہا، ” جو بھی ہو رہا ہے ، اسے اس کا مزہ لینے دو ۔“ اس سب سے تنگ آتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ میں سڑک کب پار کر سکوں گا ؟

Advertisements
julia rana solicitors

میں وہاں کافی دیر تک کھڑا رہا ، تب کونے میں موجود دکان میں کام کرنے والا ایک نوجوان میرے پاس آیا ۔ اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور بولا ؛
” انکل جی ، کہاں جانا ہے میں آپ کو لے جاتا ہوں ۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply