امن کا نوبل انعام کرشماتی ڈاکٹر کے لئے۔۔۔۔۔نعیم احمد باجوہ

بچے نے اپنے والد کے ساتھ مریضوں کی عیادت کرتے کرتے ڈاکٹر بننے کی ٹھان لی ۔ بڑا ہوا تو ہمسایہ ملک برونڈی میں جا کر ڈاکٹری تعلیم مکمل کی اور گائناکالوجسٹ بن گیا۔کہیں بیرون ملک جا کر دولت کے انبار لگانے اور پر تعیش زندگی پر اپنی ہی دھرتی پر تڑپتی اورسسکتی انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی۔ہر ستائش اور تعریف سے بالا ہو کو کام میں جت گیا اور حقیقی معنوں میں مسیحائی کرکے دکھا دی ۔ اپنے ہسپتال کو ایک ٹینٹ میں شروع کرنے والے اس ڈاکٹر کو دنیا آج ڈاکٹر ڈینس مُک وے جے کے نام سے جانتی ہے ۔ جی عوامی جمہوریہ کونگو کے وہی ڈاکٹر ڈینس جنہیں 2018 کا امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے۔

2018 کا امن نوبل پرائز دو لوگوں کو مشترکہ طو رپر دیا گیا ہے ۔ دونوں میں قدرے مشترک بھی ہے کہ ایک جنسی ہراسانی کا شکار بننے والا وجود ہے اور دوسرا جنسی استحصال کا شکار ہو نے والوں کا علاج کرنے والا۔ عراق کی نادیہ مراد ایک یزیدی قبیلہ سے تعلق رکھنے والی خاتون ہیں ۔ جن کے سامنے ان کے چھ بھائیوں کوقتل کر دیا گیا اور انہیں باقی خواتین کے ساتھ کیمپ میں ڈال دیا گیا ۔ جہاں ایک عرصے تک جنسی استحصال کا شکار ہو تی رہیں ۔ پھر کسی طرح فرار ہوئیں تو ان کی کہانی منظر عام پر آئی ۔آج وہ نوبل پرائز کی حقدار ٹھہری ہیں۔
اس سال امن کے نوبل انعام کے دوسرے مستحق تریسٹھ سالہ ڈاکٹر ڈینس مُک وے جے 1955 میں عوامی جمہوریہ کونگو کے مشرقی علاقے کے ایک شہر Bukavu بو کا وُو میں پید اہوئے ۔ خانہ جنگی کے دوران میں خواتین پر جنسی تشدد بہت بہیمانہ طریق پر کیا گیا ۔ خواتین کی کوکھ میں گولیاں فائر کی گئیں ۔ بعض خواتین کے ساتھ ریپ کرنے کے بعد پلاسٹک رکھ کر جلا دیا گیا ۔ کٹے پھٹے اعضاء کے ساتھ تڑپتی ممتا اور جلتی کوکھ نے ڈاکٹر ڈینس کو بے چین کر دیا ۔ 1998 میں ایک ٹینٹ لگا کر ان خواتین اور بچیوں کا علاج کرنے اور ان کو سہارا دینے کا کام شرو ع کر دیا ۔ اس دن کے بعد ڈاکٹر   ڈینس نے پھر پیچھے مڑ کرنہیں دیکھا ۔

بے سرو سامانی سے لے کر ہسپتال بنانے اور پھر PANZI فاؤنڈیشن تک کا سفر ایک خواب جیسا ہے ۔ ڈاکٹر ڈینس پر خود اپنے ہی ملک میں تنقید ہوئی جس میں خاص طور پر حکومت پیش پیش رہی ۔ ان کا کام ہی ایسا تھا کہ جس قدر ان کے ہاں آنے والی خواتین کی تعداد بڑھ رہی تھی اور جس قدر وہ خواتین کے زیادہ آپریشنز کر رہے تھے ، ریکارڈ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اعداد شمار بھی بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ تنقید ہونا ایک لازمی امر تھا۔ لیکن جوان ہمت ڈاکٹر ڈینس اپنے کام میں جتے رہے ۔ دنیا ان کے کام کی معترف ہونے لگی ۔ ان کو مختلف تنظیموں اداروں اور ملکوں کی طرف سے مدد  ملنے لگی ۔ کاررواں بڑھنے لگا۔ سفر آسان ہونے لگا ۔انہیں دنیا بھر میں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا ۔ 2008 میں اقوام متحدہ کا ہیومن رائٹس پرائز انہیں دیا گیا ۔اور 2009 میں افریقن آف دا ائیر کا خطاب ملا۔

پھر ایک اور موڑ آگیا اور 2012 میں ڈاکٹر ڈینس نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کونگو حکومت اور بعض دوسرے ممالک پرتنقید کر دی کہ جتنا کام انسانی حقوق کے لئے کیاجانا چاہیے وہ نہیں کیا جا رہا۔ اقوام متحدہ میں خطاب کے بعد ڈاکٹر ڈینس واپس آئے تو ان کے گھر پر مسلح حملہ ہو گیا ۔ سیکورٹی گارڈ نے مزاحمت کی تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ بعض قریبی ساتھی بھی مارے گئے۔ڈاکٹر ڈینس دل برداشتہ ہوئے اور فیملی سمیت سویڈن چلے گئے ۔پھر بیلجئم میں رہائش اختیار کر لی۔

ادھر کونگو میں خواتین کی کوکھ ا جڑتی رہی ۔ آبرو بے آبرو ہوتی رہی ۔ اعضا ء کٹتے رہے ۔ ممتا تڑ پتی ر ہی۔ پھر ان غریب اور بے سہارا خواتین نے ایک فیصلہ کیا ۔ اپنے مختصر کھیتوں سے آنے والی محدود آمدنی کو اکھٹا کرنے کی مہم چلا دی ۔ ڈاکٹر  ڈینس اور ان کی فیملی کو واپس بلانے کے لئے چندہ اکٹھا کرنا شروع کر دیا ۔ ان متاثرہ خواتین نے یہ کام کر دکھایا اور ڈاکٹر ڈینس بیلجئم سے واپس کونگو آنے پر مجبور ہو گئے ۔ ا س کے بعد تو ان کی زندگی کا مقصد ہی ان خواتین کی خدمت ہو گیا۔

ڈاکٹر ڈینس دس ہزار سے زائد خواتین کا علاج کر چکے ہیں ۔ اس وقت ان کا ہسپتال سالانہ پینتیس صد خواتین کے علاج او رآپریشن کی سہولت رکھتاہے۔ بعض اوقات روزانہ دس دس آپریشن کرتے   ہیں ۔ وہ روزانہ سولہ سترہ گھنٹے آپریشنز اور متاثرہ خواتین کے علاج معالجے میں گزارتے ہیں۔ ا س وقت ان کے پاس ڈاکٹر ز نرسز اور دیگر سٹاف کی تعداد تین صد ستر تک پہنچ چکی ہے ۔ جس وقت نوبل پرائز کا اعلان ہوا اس وقت بھی وہ ایک آپریشن میں مصروف تھے۔
ڈاکٹر ڈینس نے PANZI کے نام سے فاؤنڈیشن بنائی ہے ۔ بنیادی طو رپر ان کی یہ فاؤنڈیشن خواتین کے علاج یا کی پانچ شاخوں پر کام کرہی ہے ۔علاج معالجہ ، نفسیاتی علاج ، مالی مدد اور تربیت ، متاثرہ خواتین کو معاشرے کا دوبارہ حصہ بنانے کی کوشش اور قانونی جارہ جوئی میں مدد۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کونگو ایک بہت خوبصور ت ملک ہے ۔ میں نے پندرہ سال کا لمبا عرصہ کونگو میں گزارا ہے ۔اس دوران میں ملک کے طول ارض میں بے شمار علاقوں میں جانے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر ڈینس کے کام کا مشاہدہ اور شہرت دیکھی سنی۔ ایک تعلق ان سے رہا ۔ ان کاکام واقعی نوبل پرائز کا مستحق ہے۔ ڈاکٹر ڈینس کو فرنچ زبان میں
’’ l’homme qui repare les femmes ‘‘کا خطاب دیا گیا ہے ۔ یعنی ایسا مرد جو عورتیں مرمت کرتا ہے۔ انہیں doctor miracle یعنی کرشماتی ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ڈینس واقعی کرشماتی ڈاکٹر ہیں۔وہ کامیابی کا استعارہ ہیں ۔ سب کچھ داؤ پر لگا کر بھی خدمت انسانیت کرنے کی علامت ہیں ۔ اور بے سرو سامانی سے، خالی ہاتھ کام شروع کرکے نوبل پرائز تک پہنچنے کی کہانی بھی ہیں ۔ وہ اس قابل ہیں کہ دنیا ان کی قدر کرے۔ بعض وجود واقعی ایسے ہوتے ہیں جن کو انعام یا ڈگری دینا ان کی عزت نہیں بلکہ اس ایوارڈ اور اس ڈگری کی عزت ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر ڈینس مُک وے جے بھی ایسی ہی کرشماتی شخصیت ہیں جن کی قامت انعامات سے بلند تر ہے ۔ نوبل انعام سے بھی بلند ۔

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply