سنجو۔۔۔ مبشر علی زیدی

بیشتر لڑکے ویسے ہی ہوتے ہیں، جیسا میں تھا، جیسے آپ ہوں گے۔
ہم سب کے کچھ دوست ہوتے ہیں جو بری صحبت میں بگڑ چکے ہوتے ہیں اور جن کی صحبت ہمیں بگاڑنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ہم سب کا ایک دوست ایسا ہوتا ہے جو برے وقت میں کام آتا ہے، راز چھپاتا ہے اور خفا ہوجائے تو کہیں دل نہیں لگتا۔ ہمارے اپنے والد سے تعلقات کشیدہ ہوتے ہیں جن کے اصول، طبعیت اور تجربات ہمیں پسند نہیں آتے۔ ہم سب اپنی ماں سے بہت محبت کرتے ہیں اور ان کے بچھڑ جانے پر ٹوٹ جاتے ہیں۔
ہم سب غلطیاں کرتے ہیں، ہم سب سزا بھگتتے ہیں، ہم سب کامیابیاں بھی حاصل کرتے ہیں۔ ہم سب کی زندگی میں کئی کہانیاں ہوتی ہیں۔ لیکن سب کی زندگی میں راج کمار ہیرانی نہیں ہوتا۔ سنجے دت اس لیے خاص ہے، اس لیے خوش قسمت ہے کہ اس کی زندگی میں راج کمار ہیرانی ہے۔
کل سنجو فلم دیکھنے کے لیے جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ سنجے دت کی پہلی فلم کون سی دیکھی تھی؟ یہ 1986 میں ریلیز ہونے والی فلم نام تھی۔ اس فلم میں پنکج ادھاس کا گیت ’’چٹھی آئی ہے، وطن سے چٹھی آئی ہے‘‘ بہت مشہور ہوا تھا۔ میں ایک عرصے تک سمجھتا رہا کہ فلم کا ہیرو کمار گرو تھا کیونکہ وہ قانون پسند تھا۔ مجھے سنجے دت برا لگا تھا کیونکہ وہ قانون شکن تھا۔
میرا دوست شباہت حسین 1996 میں ہمیشہ کے لیے پاکستان چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ ہم گہرے دوست تھے۔ چوبیس میں سے بیس گھنٹے ساتھ گزارتے تھے۔ میں اسے ایئرپورٹ چھوڑ کے گھر پہنچا تو صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ میں نے ٹی وی کھولا تو فلم نام چل رہی تھی۔ اس کا گانا ’’تو کل چلا جائے گا تو میں کیا کروں گا‘‘ سن کر میں سخت جذباتی ہوگیا کیونکہ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ شباہت چلا جائے گا تو میں کیا کروں گا۔ سنجے دت برا تو لگتا ہی تھا، اس سے تلخ یادیں بھی وابستہ ہوگئیں۔
میں 80 کی دہائی میں اسٹارڈسٹ اور فلم فیئر میگزین پڑھتا تھا اس لیے جانتا تھا کہ سنجے دت نشئی ہے۔ سنیل دت نے اس کے علاج کی بہت کوشش کی اور وہ بہت عرصے تک زندگی میں ٹھوکریں کھاتا رہا۔ باپ کے نام کی وجہ سے اسے کام ملتا رہا لیکن اس کی کم فلمیں چلتی تھیں، پٹتی زیادہ تھیں۔ اس کی صحبت اچھی نہیں تھی۔ جرائم پیشہ افراد سے اس کی دوستیاں تھیں۔ 90 کے عشرے میں وہ غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار ہوا اور اسے جیل کاٹنا پڑی۔ ممبئی بم دھماکوں کے بعد اس پر دہشت گردوں کا ساتھی ہونے کا دھبہ ایسا لگا کہ وہ آج تک اس سے پیچھا نہیں چھڑا پایا۔
سنجے دت پسند نہ ہونے کے باوجود میں نے اس کی بہت سی فلمیں دیکھی ہیں۔ چند کے نام مجھے یاد ہیں۔ نام کے علاوہ انعام دس ہزار، ساجن، سڑک، کھل نائیک، مسافر، شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈوالا اور ظاہر ہے، منا بھائی ایم بی بی ایس اور لگے رہو منا بھائی۔
منا بھائی ایم بی بی ایس نے سنجے دت کا امیج بدل کر رکھ دیا۔ یہ کمال ہیرانی نے کیا۔ فلمیں دیکھنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہوسکتا جسے ہیرانی کی تخلیقی عظمت کا اعتراف نہ ہو۔ ذرا اس کی فلموں کی فہرست دیکھیں: منا بھائی ایم بی بی ایس، لگے رہو منا بھائی، تھری ایڈیٹس، پی کے اور سنجو۔
دو دن پہلے نمائش کے لیے پیش کی گئی سنجو فلم سنجے دت کی زندگی پر بنائی گئی ہے۔ مکمل زندگی پر نہیں، مکمل کریئر پر نہیں، زندگی کے چند گوشوں پر۔ سچ پوچھیں تو باکمال ہیرانی نے اپنے دوست پر دہشت گردی کے الزام کو دھونے کی کوشش کی ہے۔
یہ فلم دیکھ کر آپ کو پتا نہیں چلے گا کہ سنجے دت کی سوپرہٹ فلمیں کون سی تھیں۔ یہ بھی علم نہیں ہوگا کہ اس نے تین شادیاں کیں۔ یہ ذکر بھی نہیں آئے گا کہ ابوسالم اور دوسرے دہشت گردوں سے کتنی قربت رہی، کتنی ملاقاتیں ہوئیں۔ البتہ یہ فلم سنجے دت اور اس کے والد عظیم سنیل دت کے پیچیدہ تعلقات پر روشنی ڈالتی ہے۔ باپ اصول پسند، سخت گیر، بہادر اور مشہور آدمی تھا جبکہ بیٹا ماں کا لاڈلا، عاشق مزاج، کمزور اور ناکام۔ یہ تضاد دونوں کی زندگی میں پریشانیاں لایا۔
فلم بین اور صحافی ہونے کی وجہ سے مجھے سنجے دت کی زندگی کے بارے میں علم تھا، تو پھر میں سینما گھر کیوں گیا؟ اس لیے کہ یہ راج کمار ہیرانی کی فلم ہے۔ پاریش وارل، منیشا کوئرالہ، انوشکا شرما، رنبیر کپور کتنے منجھے ہوئے اداکار ہیں۔ لیکن اگر سنجو میں ان کی اداکاری دیکھ کر آپ کو جھٹکا نہ لگے تو کہیے گا۔ سچ کہ ہیرانی کو حیران کرنا آتا ہے۔
رنبیر کپور کردار میں ایسا ڈوبا کہ وہ کئی مناظر میں تحلیل ہوجاتا ہے اور سنجے دت ہمارے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ 80 کی دہائی کا نوجوان روکی، 90 کی دہائی کا لمبے بالوں والا ساجن، دس سال پہلے کا منا بھائی، رنبیر نے خود کو ہر روپ میں خوبی سے ڈھالا ہے لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ میک اپ آرٹسٹ اور ڈائریکٹر نے بھی اس پر خوب محنت کی ہے۔
رنبیر کے بعد سب سے اہم کردار وکی کوشل نے نبھایا ہے۔ وہ سنجے دت کے امریکا میں مقیم دوست بنے ہیں جن کا فلم میں نام کملیش کنہیالال کپاسی ہے۔ حقیقی زندگی میں سنجے کے دوست کا نام پاریش گھیلانی ہے جو لاس اینجلس میں رہتے ہیں۔ وہ انتہائی کامیاب بزنس مین ہیں اور امریکا میں دولت کمانے کے بعد بھارت میں بہت سے فلاحی کاموں کے لیے پیسہ فراہم کررہے ہیں۔
کچھ لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سنجے دت نے فلم میں تین سو آٹھ خواتین سے تعلقات کا اعتراف کیا ہے۔ شاید ان میں مادھوری ڈکشٹ بھی شامل ہیں۔ ان کا کردار کرشمہ تنا نے نبھانا تھا لیکن ان کے اعتراض پر وہ کردار فلم سے نکلوادیا۔ چنانچہ ڈائریکٹر نے کرشمہ کو صرف ایک منظر میں چھوٹا سا کردار دیا۔ میرا خیال ہے کہ بہت سے لوگ وہ سین دیکھنے کے لیے دوسری بار سینما جائیں گے۔
بومن ایرانی نے اس فلم میں دو مختلف کردار ادا کیے ہیں لیکن کم لوگ اسے پکڑ پائیں گے۔ فلم کے گیت، خاص طور پر میں بڑھیا تو بھی بڑھیا واقعی بڑھیا ہے اور کئی بار دیکھنے پر بھی جی نہیں بھرتا۔
عام طور پر بایوپک یعنی کسی کی زندگی کے گرد گھومتی فلم کا سیکوئل نہیں بنایا جاتا۔ لیکن راج کمار ہیرانی نے گنجائش رکھی ہے کہ وہ مستقبل میں سنجو کا سیکوئل بناسکتے ہیں۔ سنجے دت کا کریئر ابھی باقی ہے اور ’’ٹرپل سنچری‘‘ بنانے والا کھلاڑی ابھی اور کئی ریکارڈ بناسکتا ہے۔

Facebook Comments

مبشر علی زیدی
سنجیدہ چہرے اور شرارتی آنکھوں والے مبشر زیدی سو لفظوں میں کتاب کا علم سمو دینے کا ہنر جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply