نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے۔۔کبریٰ پوپل

“بے شک اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو کافر ہیں۔ ” (12:87)

نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں

آدھی رات کا وقت ہے ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی ہے روشنی کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا ،اس قدر سناٹا ہے کہ ذرا سی آواز پر بھی انسان چونک جائے ،لمبی اور بے چین رات ہے ،ہوا تھمی ہوئی ہے ۔چرند پرند تمام حیوانات پر خاموشی طاری ہے ۔اہل دنیا اپنے بستروں پر گہری اور میٹھی نیند سو رہے ہيں ہر فکر اور غم سے آزاد ۔یہ انتظار طویل ہوتا جارہا ہے،اتنے میں فجر کا وقت ہوا اور اللہ  اکبر کی صدائيں کانو  ں میں  پڑیں  ،ہوا میں جیسے ٹھنڈک کا احساس ہوا، چڑيوں کی چہچہانے کی آوازیں آنے لگیں  ،پرندے ایک ایک کر کے گھونسلوں سے نکلنے لگے، لوگوں کا مسجد کی طرف جانا شروع ہوگیا ۔تاریک آسمان سے جیسے ایک چادر ہٹ گئی ہو، مزاج میں تبدیلی سی ہونے لگی، برابر کے گھر میں سے قرآن کی تلاوت کی ہلکی ہلکی آواز آرہی ہے ،آسمان آہستہ آہستہ رنگ بدل رہا ہے جیسے کوئی ایک ایک کرکےاس میں سے چادر کھینچتا جا رہا ہو۔  گہری نیند سونے والے سب بیدار ہوگئے اور ہر ایک اپنی منزل کی طرف دوڑ رہا ہے اپنے اپنے مقصد کو پانے کے لیے  ۔

اس منظر کشی کا مقصد یہ جاننا ہے کہ رات کی تاریکی (انسان کی مشکلات ,تکالیف اور غم و آزمائش ) کی مانند ہے۔یہ رات طویل ضرور ہے اسکا کٹنا مشکل ہے اور نہ ہی ایک دم سے یہ اندھیرا, روشنی میں بدل سکتا ہے بلکہ الله کے بناۓ ہوئے  نظام کے مطابق پورے طریقہ کار سے گزرتا مراحل طے کرتا ہے، لیکن سورج یہاں (اميد) کی مثال ہے ۔یہ اپنے متعين کردہ وقت پر چمک کر رہتا ہے الله کے سوا کوئی طاقت اسے طلوع ہونے سے نہیں روک سکتی۔ اس کی روشنی کے سامنے دنیا کی تمام روشنیاں پھیکی پڑ جاتی ہیں ، یہ غفلت کی نیند سونے والوں کو اپنی روشنی سے جگاتا ہے۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ رات گزر گئی اور نئے  دن کا آغاز ہوچکا ہے ،يہ  پيغام ديتا ہے کہ دنيا کی دشوارياں جھيلنے کے لیے  مجھ جيسی‎ چمکدار ،روشن اور اونچی اميديں لگا‎‎‎‎‎‎ اپنے رب سے ۔ ‎

رات کتنی ہی لمبی اور بوجھل کیوں نہ ہو یاد رکھو امید ہمیشہ موجود ہے ۔ہر حال میں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اندھیرا جب اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو وہ دراصل دلیل صبح کی نوید ہوتا ہے۔

کوئی شخص اگر رات کے اندھیرے میں کسی منزل کی طرف سفر کرتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔۔نہیں ! بلکہ وہ راستہ بھٹک کر گم ہوجاۓ گا اور اپنی منزل کو پانے کے مقصد سے محروم رہےگا اور نقصان الگ سے اٹھاۓ گا کیونکہ راستے کی تاریکی کے سبب وہ نہیں جانتا کہ  آگے کیا چیز آنے والی ہے، لیکن یہی سفر جب دن کی روشنی میں کرے گا تو وہ منزل کے حصول میں کامیاب رہے  گا۔ کیوں کہ اس وقت ہر چیز صاف ظاہر ہو رہی ہوگی وہ اس قابل ہوگا کہ دور سے ہی پہچان لے کہ راستہ کیسا ہے کہاں مڑنا اور کہاں ٹھہرنا ہے ۔اس کا مطلب روشنی( امید ) کو تاریکی (مشکلات) پر بڑھاوا حاصل ہے۔ امید انسان کو ایسے سہارا دیتی ہے کے جب وہ کانٹا دیکھے تو پھول بھی نظر آ ۓ , تیز دھوپ میں سايہ کی ٹھنڈک محسوس کرے گویا اسے ہر شئے بہتر وقت کی نوید سناتی ہے ۔

پرندے سورج کی پہلی کرن پڑتے ہی گھونسلوں سے نکلنے کو بیتاب ہوتے ہيں اور اُڑتے ہوئے آسمانوں کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں اور جیسے ہی سورج غروب ہونے لگتا ہے یہ واپس اپنے  پنکھ سمیٹتے ہوے نیچے کی جانب رخ کرتےہيں اور گھونسلو  تک  محدود ہوجاتے ہیں ، یعنی   امید انسان کو بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے اور نا اُمیدی پستی کی جانب۔

بقول اقبالؒ :

دلیلِ صُبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفق سے آفتاب اُبھرا، گیا دورِ گراں خوابی

نا امیدی کو دل سے نکا لنے کے لئے آفتاب کی طرف دیکھو اور غور و فکر کرو کہ الله کی قدرت میں کیسے لطیف رموز موجود ہيں سورج کو ظاہری آنکھ سے دیکھوگے تو محض روشنی ہی نظر آۓگی ،کسی بھی چیز کی حقیقت اور اس میں پوشیدہ راز اسی وقت ہم پر نمایاں ہونگے جب ہم انہیں دل کی آنکھ سے دیکھیں  گے تب ہميں کوئی بھی شے اپنے آس پاس بے مقصد نہیں لگے گی اور ان میں امید کی شکل ظاہر ہوگی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اقبالؒ فرماتے ہیں :
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کيا ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply