پاکستان کا نظریاتی سیاسی کارکن۔۔حسان عالمگیر عباسی

کارکنان تحریک پاکستان کارکن کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو, اس کے پاس ہمیشہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ ن لیگ کے پاس نظریہ ہو یا نہ ہو لیکن مسلم لیگی کارکن نظریاتی ہی ہوگا۔ مسلم لیگی سے پوچھیں کہ وہ ن لیگ سے کیوں منسلک ہے تو وہ دلائل کے انبار لگا دے گا۔ مورخہ 3جنوری  تک تمام لیگی کارکنان قائد کے اشارے پہ روزے سے تھے ،عین بوقت ِعصر روزے کا سقوط تمام نظریاتی لیگی کارکنان کو افسردہ کر گیا۔ سب نے جماعت کی منافقانہ پالیسی پہ کھل کر اختلاف کیا۔ بے شمار کارکنان جماعتی وابستگی سے بھی  کنارہ کرگئے۔ جب خبر پہنچی کہ مریم بی بی نے کسی بھی قانونی کارروائی کا حصہ بننے پر دھمکایا ہے ،تو کئی ن لیگی نظریاتی کارکنان کی جان  میں جان آئی۔ مسلم لیگی خوش تھے کہ نواز شریف صاحب نے وقت سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور اب وہ کسی بھی لچک یا بے ڈھنگے پن کا مظاہرہ کرتے نہیں پائے جائیں گے۔ اگر مسلم لیگی حضرات سے کہا جائے کہ ووٹ کو عزت دلوانے کے لیے موروثیت سے پاک جماعت کا رخ کریں تو بھی کارکنان برضا و رغبت آنے کو تیار رہتے ہیں ،اب موروثیت سے پاک جماعت کو سوچنا چاہیے کہ وہ کون سی دیوار ہے جو ان کے لیے رکاوٹ ہے۔

تحریک انصاف کے کارا کنان سے بڑھ کر نظریہ کس کا ہو سکتا ہے جنھوں نے عمران خان صاحب کے بڑے بڑے دعوؤں سے اثر لیا تھا۔ عمران خان صاحب کی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں ،کوئی محبِ  وطن اور اسلام سے لگاؤ رکھنے والا شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ عمران خان صاحب نے غلط بیانیاں کی ہیں۔ ہر ایک کی خواہش ہے کہ دو نہیں، ایک پاکستان ہو ،فرد کی بجائے ادارے کو مضبوطی ملے ،انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور کرپشن سے پاک پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے۔

یہی وہ جذبہ اور سوچ تھی جو قاضی حسین احمد صاحب سے لے کر سید منور حسن صاحب تک نے پسند کی۔ منور حسن صاحب تو کہتے تھے کہ یہ اسلام کا نام شاید نہ لیتا ہو لیکن جو مقاصد کار فرما ہیں اسلام ہی تو ہے۔ ہم نے وہ وقت بھی دیکھا جب عمران خان صاحب نے فخر کے ساتھ اسلام کا نام نا  صرف کارکنان کے سامنے  لیبلکہ پوری دنیا کو اصل اسلامی روح سے روشناس کرایا۔ اب کارکنان نے تو لبیک ہی کہنا تھا۔ کارکنان تحریک انصاف نے عمران خان کی خوب روئی اور خوش گفتاری سے زیادہ ان کو قائد اعظم کے بعد حقیقی معنوں میں قائد کے روپ میں دیکھا جو پاکستان کو اس کا حقیقی مقام دلوا سکتا ہے۔

پی پی کا کارکن تو جمہوریت کو بہترین انتقام کہتا ہے۔ پی پی کے قائدین نے جمہوریت کے نا  صرف دعوے کیے، بلکہ جانوں کے نذرانے تک پیش کیے۔ کارکنان نہیں جانتے کہ کس سپہ سالار نے پی پی کو جنم دیا ،بلکہ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ بھٹو نے سولی چڑھنا بھی قبول کر لیا۔ کارکنان یہ جانتے ہیں کہ بھٹو نے اولاد تک کی قربانی کے دعوے سچ کر دکھائے۔ کارکنان یہ جانتے ہیں کہ بی بی تک کو شہید کر دیا گیا۔ پی پی کا کارکن نظریاتی اس لیے ہے کہ وہ روٹی ،کپڑے اور مکان کا نعرہ لگاتا ہے۔ مذہب بیزاری کا طعنہ بھی جھوٹ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ تہجد گزار حضرات پی پی میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ہاں جس کارکن کے بطن میں بھوک کی وجہ سے پتھر بندھے ہوں تو اس کے نزدیک اسلام کی حکومت کا قیام ایک دعوے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ حکمت و دانائی بعد ازاں بھی کام دکھا سکتی ہے۔ کیا مودودی رح نے نہیں فرمایا کہ کبھی کبھی پیٹ کے راستے سے بھی حق تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ کیا حضرت ابو سفیان رض کی تالیف قلب کے لیے نہیں کہا گیا تھا کہ جو ان کے گھر چلا جائے وہ بھی حفظ و امان میں ہے۔

جمعیت علمائے اسلام ف کا کارکن نظریاتی ہی نہیں بلکہ نظریات پر قربان ہو جانے سے بھی دریغ نہ کرنے والا سپوت ہے۔ مولانا صاحب نے جن مشکل حالات میں قوم کو جو بیانیہ دیا ،وہی تمام جماعتوں کے مخلص کارکنان کا نظریہ ہونا چاہیے۔ جمعیت کا کارکن نہ تو انتہا پسند ہے اور نہ ہی امن دشمن۔ اس کی وجہ مولانا صاحب ہیں، جنھوں نے کارکنان کو انتہا پسندی کی طرف جانے سے منع کر رکھا ہے۔ مدارس کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے والوں کو ان داڑھی والے خوب رو کارکنان نے اپنے امن و امان اور سلامتی والے رویوں سے ایک نہیں ہزار بار سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ آیا یہ کالے اور سفید کوٹ والے انتہا پسند ہیں یا مدارس میں پڑھنے والے امن پسند کارکنان۔

قوم پرست اور لسانی بنیادوں پر بننے والے کارکنان بھی نظریہ رکھتے ہیں۔ ان کو حقوق نہ دینا ہی ان کو انتہائی قدم اٹھانے پہ مجبور کرتا ہے۔ جس صوبے سے گیس لیں اور اس صوبے کے افراد اس سہولت سے کلی طور پر محروم ہوں تو کارکن کی قوم پرستی یا حقوق کی آواز ہی نظریہ ہوتا ہے۔

ہم جانتے ہیں پاکستان کے ایک بازو کی علیحدگی کی وجوہات میں سے ایک وجہ ان کے وسائل پر قبضہ تھا۔ یہ الگ بحث ہے کہ ان کے حقوق کی آواز کو قوم پرست قائدین اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ باقی رہ گئے کارکنان جماعت اسلامی۔ یہ کارکنان نظریے کے لیے فوج کا ہر اوّل دستہ بھی بن جاتے ہیں اور اصول کے لیے ان کو حدود میں رہنے کا فوجی مفاد میں بہترین مشورہ بھی دیتے ہیں۔ دس ہزار کارکنان اپنے والدین کی اجازت کے ساتھ پاکستان کو دو لخت ہونے سے بچانے کے لیے جنگ میں بھی کود جاتے ہیں اور افغانستان میں لڑنے والے مجاہدین کا ساتھ دے کر بڑی طاقتوں کا غرور بھی خاک میں ملاتے ہیں۔ یہ کارکنان کوئی بھی ایسا   قدم نہیں اٹھاتے،جو زیرِ  زمین یا ریاست کی رٹ کو چیلنج کرے ۔ بلکہ ریاست کی اجازت کے ساتھ جنگ میں شامل اور ان کے کہنے پر جنگ بندی کر دیتے ہیں۔ ۔ ذہن سازی پہ یقین رکھتے ہیں۔ اس کے کارکنان آج بھی بنگلہ دیش میں پھانسی کے پھندوں کو چوم رہے ہیں لیکن زبان  پر  صرف “احد ،احد” کے کلمات ہیں۔ یہ کارکنان قومی سرمایہ ہی نہیں بلکہ امت کے لیے نعمت عظیم ہیں۔ ترمیم ہو یا کشمیر ‘ اصول کا ساتھ دیتے ہیں۔ یہ کارکنان ‘سن اکتالیس’ سے کوشاں ہیں لیکن سمجھتے ہیں کہ “سفر خوبصورت ہے منزل سے بھی”۔ کارکنان اگر نظریاتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ “کوئی امید بر نہیں آتی”۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاست دان اور قائدین بڑی رکاوٹ ہیں لیکن کیا یہ سیاست دان مجبور و مظلوم نہیں ہیں۔ ان بے چاروں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان کو کہا جاتا ہے کہ اپنے کاندھے ہمیں دے دو اور سوچنے کی ہمت بھی نہ کرنا۔ کیا یہ صرف مہرے کے طور پر استعمال نہیں ہوتے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ طاقتور ترین طبقہ سوچے گا کہ کب ملک میں کس طبقے نے کیسے حکم چلانا ہے۔ انہیں خبردار کیا جاتا ہے کہ تم اور تمھارا آئین ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ ان سیاست دانوں سے مظلوم طبقہ شاید ہی کوئی کرہ ارض پر ہو جنہیں کہا جاتا ہے کہ وہ کرو جو طاقتور ترین طبقہ کہتا ہے لیکن جب نقاد آواز اٹھائیں تو ان کی تنقید سیاست دان ہی کو سننی  ہے۔ جب عوام مشتعل ہو کر گھروں سے باہر کھلے آسمان تلے نکل آئے اور لاٹھی برسانا چاہے تو ان سیاست دانوں کی تشریف اور عوام میں تمام تر رکاوٹوں کو ہٹا دیا جائے۔ ملک وہ توڑیں اور غداری ان کے حصے میں آئے۔ جہاں فاطمہ جناح جیسی خاتون بھی ان کے فتاویٰ سے نہ بچ سکیں تو مودودی رح بھی کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کا قصور صرف عورت ہونا ہے لہذا ووٹ کی یہی حقدار ہیں البتہ ظالم طاقتور میں صرف مرد ہونے کے علاوہ کوئی خصوصیت ہی نہیں ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم بھی باآواز کہیں کہ ‘ہم باوقار ادارہ ہیں’۔ اگر یہ طبقہ تمام تر اختلافات کے باوجود ایک ہو سکتا ہے تو ہم سیاست دان کس مرض کی دوا ہیں جو حقیقی معنوں میں میثاق جمہوریت بھی نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا ہو جائے تو کارکنان آپ کا ہر اول دستہ بنیں گے۔ اگر ایسا ہو جائے تو سبز ،سرخ ،سفید ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر ان شاء اللہ سیاہ کا ملیا میٹ کرتے نظر آئیں گے۔ اگر ایسا ہو جائے تو تمام جماعتوں کے کارکنان جماعتی وابستگی سے بالاتر ہو کر ملک خداداد پاکستان کے کارکنان بن جائیں گے اور ایک تحریک کا آغاز کریں گے جو ” کارکنان تحریک پاکستان” کے نام سے جانی جائے گی کیونکہ اس پاکستان کو بنانے والوں نے کہا تھا کہ آئین وہی ہو گا جو چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی صورت میں ہمیں دیا ہے اور الله تعالیٰ کے بعد اگر کسی کو ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق ہے تو وہ اسلامی حدود میں رہتے ہوئے عوام اور کارکنان پاکستان کو ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply