موجودہ حکومت کے غریب عوام کے لیے اقدامات۔۔چوہدری محمد ایوب

ایک نجی بیٹھک میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ ہورہی تھی اور مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں کی طرف سے عوام کو ریلیف دینے کے لیے شروع کیے گئے پروگرامز، لیپ ٹاپ، سستی روٹی،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام یا اب موجودہ گورنمنٹ کی طر ف سے شیلٹر ہومز اور لنگر خانے وغیرہ، یہ وہ چیزیں ہیں جن سے عام آدمی کو تو شاید فائدہ نہیں پہنچا بلکہ ان میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کرپشن ضرور ہو جاتی ہے اور بعد میں آنے والی حکومتیں پچھلی حکومتوں پر الزام لگاتی دکھائی دیتی ہیں۔

ان تمام پروجیکٹس پر اربوں روپیہ خرچ کیا گیا لیکن اس سے کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ ان کی بجائے اگر گورنمنٹ ہر ضلع  میں سرکاری  اراضی پر 4 ۔ 5 ارب روپے لاگت سے ایک ایک بڑا صنعتی یونٹ لگائے تاکہ گورنمنٹ کے اثاثے بھی بن جائیں اور ہر ضلع  میں 4 سے 5 ہزار لوگوں کو روزگار بھی ملے اور وہ کما کر کھانے کے عادی ہوں ،نہ کہ مانگ کر۔

موجودہ حکومت شیلٹر ہومز کے نام سے نئی انویسٹمنٹ کرنے کی بجائے اوقاف کی پہلے سے موجود پراپرٹیوں کو خالی کروا کر وہاں پر مسافروں کے رات گزارنے کا بندوبست کرے اور ملک میں پہلے سے کام کرنے والی سماجی تنظیموں کو وہاں پر کھانے کا بندوبست کرنے کی ذمہ داریاں سونپ دے۔ گورنمنٹ کو قوم کا ایک ایک روپیہ بچانا چاہیے۔ اس طرح یہ حکومت آنے والے سالوں میں حزیمت سے بھی بچ جائیگی اور دوسری طرف یہی سرمایہ انڈسٹری میں لگا کر وہ لاکھوں لوگوں کے لیے روزگار پیدا کرے گی ،جو اس حکومت کا وعدہ ہے۔

نئی انڈسٹریل سٹیٹس بنانے اور فارن انویسٹمنٹ لانے پر کام تو ہو رہا  ہے ،لیکن اس پر مزید مربوط اقدامات کی ضرورت ہے، پہلے ہمیں ملک میں انڈسٹری کے لیے ماحول سازگار  بنانے  کی ضرورت ہے۔ کم از کم ان انڈسٹریل سٹیٹس میں انڈسٹری لگانے کے لیے بہت زیادہ اداروں سے سرٹیفکیٹس لینے کی ضرورت ہرگز نہیں ہونی چاہیے، مختلف دفاتر کے چکر لگوانے کی بجائے سٹیٹس کے دفتروں  میں ہی ون ونڈو آپریشن ہونا چاہیے۔

ایک بہت اہم مسئلہ ہے، پاکستانیوں کا مزاج کبھی بھی ٹیکس دینے والا نہیں رہا، اکثریت کے پاس جو سرمایہ ہے وہ بلیک منی ہے اور وہ سارا منجمد ہو کر رہ گیا ہے۔ زیادہ تر لوگ کاروباری حالات کی تنگی کا ذکر بھی اسی وجہ سے کر رہے ہیں۔ اس سرمائے کو کیسے جائز  کیا جائے؟ لوگوں کو رقوم باہر نکال کر ڈاکومنٹڈ بزنس میں انویسٹ کرنے پر آمادہ کیا جانا چاہیے۔ اس اہم ایشو پر حکومت کی طرف سے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آرہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یقیناً  بین الاقوامی معاملات کچھ اس طرح کے ہیں کہ خان صاحب کی ترجیح  دوسرے فوری توجہ طلب امور کی طرف ہو سکتی ہے، لیکن خان صاحب نے حکومت سنبھالنے کے فوراً  بعد جو  اقدامات کیے  تھے اور مختلف محکموں کو جو جو احکامات دیئے تھے ان پر نظر رکھنے اور ان سے فیڈ بیک لیتے رہنے سے ہی معاملات آگے بڑھیں گے، ذرا سی نرمی ان اداروں کو دوبارہ غفلت کی نیند سلا دے گی اور پلک جھپکنے میں حکومت کے 5 سال گز جائیں گے۔
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply