• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فلسطینی شاعر “ہارون رشید ہاشم کی “فلسطین”پر ایک حساس نظم”۔۔احمد سہیل

فلسطینی شاعر “ہارون رشید ہاشم کی “فلسطین”پر ایک حساس نظم”۔۔احمد سہیل

ہارون رشید ہاشم( پیدائش :1927، غازہ، فلسطین : موت ۔ 2002 مسی ساگا، کینیڈا) یہ نظم کئی سال پہلے لکھی گئی تھی ۔ لیکن اب اسرائیل کے خونی کھیل کے شروع ہونے  کے بعد اس نظم کی “قرات نو ‘”کے بعد ایسا لگتا  ہے  کہ یہ نظم فلسطین کی اصل اذیت ناک صورتحال کی سچی اور حقیقت پسندانہ ترجمانی اور عکاسی کرتی  ہے۔ جہان انسان ٹوٹ کر بکھر چکا  ہے۔ معاشرہ دہشت، خوف اور اپنون کی  سازشوں، غیر سنجیدہ قیادت کے سبب کسی فیصلہ کن معرکے کی پیش بندی کرنے سے قاصر ہے ۔ شاعر اس نظم میں ان جیسے کئی سوالات کے جوابات کا منتظر ہے۔

ان کی شعری تصانیف یہ ہیں ۔
سفینئہ غصب

اجنبی کے ساتھ

جلاوطنی سے واپسی
غازہ میں آگ کی لکیر
انقلابات کی سرزمین

ہمارے لوگوں کی واپسی تک

جب تک ہمارے لوگ واپس نہیں آتے ، غصے کا جہاز ، دو خطوط ، طوفان کا سفر ، فریدہیں  ، زمین اور خون کے زبور ، واپسی ، عاشق کی نوٹ بک ، استقامت اور دکھ کی ڈائری ، اندھیرے میں شلالیھ ، جنت کے پرندے ، یروشلم کے ماتھے پر ایک پھول ، جافہ کا سفر کرتے ہوئے ، اور فلسطینی اشعار عغیرہ۔

ہارون ہاشم نے اپنی نظموں میں اپنے وطن میں یادوں اور نظاروں کے جذبات کو خلوصِ  نیت سے اور بغاوت اور انقلاب کی المناک اور درد بھری آوازوں کے درمیان ملایا ہے کہ وہ عربستان اور فلسطینی وطن اور لہو کی حرارت کو جنم دینے کے لئے ان یادوں کے پیالوں میں پگھل جاتا ہے۔

ہارون ہاشم کی شاعری میں ، غموں اور آزاد آنسوؤں اور احساس کے  رحجان کے ساتھ ایک واضح زبان ، بہتی  ہوئی  ندی کی طرح محسوس   ہوتی ہے جو دل کو چھوتی ہے   کیونکہ وہ اپنی تکلیف اور دل کی ہوا کو پھیلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہارون اپنی مدھر نظموں کے لئے مشہور ہے جو جلاوطنی   اور فلسطینی دور کے کونے کونے میں بہت مقبول ہوئیں ۔ اورجو ان کی گرم ، بھڑکتی ، میٹھی شاعری سے ممتاز ہے جو صرف ایک مومن کے دل سے آتی ہے اور اپنے لوگوں کے قومی مقصد کے لئے پُرعزم ہے۔ اور ان کے ساتھ وفاداری ، اور یہ بے ساختہ ، مخلص اور واضح شاعری پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر مقبول تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“فلسطین”
ہارون رشید ہاشم
ترجمہ:احمد سہیل
فلسطین میرا نام  ہے
ایک اصل مسودے میں،
جنگ کے تمام میدانوں میں
میرا نام کندہ ہے  ـــــ
گذشتہ تمام نام ماند پڑ رہے ہیں
میرے نام کے حروف مجھ سے چمٹ ر ہے  ہیں
میرے ساتھ رہو ، مجھے زندہ رکھو،
میری روح کو آگ سے بھر دو
نبص میری شریانوں سے  ہو  کرآتی ہے
فلسطین،
میرا نام اتنا ہی ہے، میں جانتا  ہو ں
یہ اذیّت ہے اور میرا دکھ
جہان آنکھیں مجھے شکار کرتی ہیں
میرا تعاقب کرو، مجھے زخمی کرو
میرے نام فلسطین کے لیے —-
میں زندگی گزار چکاہوں
کسی نقش اور امتیاز کے بغیر
جیسے وہ مہربانی سے
مجھے نام اور خطابات دیتے ہیں
زندان اور اس کے عریض دروازے بھرتے ہیں
مجھے طلب کرتے ہیں
دنیا کے تمام ہوائی اڈوں پر
وہ میرے ناموں اور خطابوں کو تلاش کرتے ہیں ۔۔
مکر  ہوائیں مجھے اٹھاتی ہیں
اور مجھے بکھیر دیتی ہیں –
فلسطین ـــــــــ
میرا نام تعاقب کرتا ہے  اور میرے ساتھ رہتا ھے
فلسطین میری تقدیر  ہے
مجھ سے باہم  رہو ، مجھے رواج دو
میں فلسطین ہوں
میرے خیالات میرے نام کو روندتے ہیں؛
میں فلسطین ہوں میرے افکار میرے عزائم کو دگا دیتے ہیں؛
میں فلسطین پوں
میرے خیالات مجھے بازار میں بیچتے ہیں
وہ کس لیے خوش ہیں،
ہزاروں لاکھوں کے لیے،
میں فلسطین  ہوں
خیالات ہانکتے ہوئے مجھے پھانسی کی طرف لے  جاتے ہیں
میں فلسطین  ہوں
خیالات دیوار ہیں، جو مجھے مقید کئے ہوئے ہیں
میں ـــــــ میں کیا ہوں ؟
اپنے نام کے بغیر
رہ رہا ہوں
زمین کے بغیر ــ
فلسطیں
اسے بچاؤ ــــ اسے زندہ رکھو ؟
میں ــ میں کیا ہوں؟
مجھے جواب دو ــ مجھے جواب دو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply