فلسطین (23) ۔ اوسلو معاہدے۔۔وہاراامباکر

دہائیوں تک اسرائیلی اور فلسطینی ایک دوسرے سے بات کرنے سے انکار کرتے رہے تھے۔ فلسطینی لیڈر اسرائیل کا نام تک ادا نہیں کرتے تھے۔ اسرائیلی لیڈر فلسطینیوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے، ان کو عرب کہا جاتا تھا اور پی ایل او کو دہشتگرد تنظیم۔ اسرائیلی قانون کے مطابق اسرائیلی شہری کے لئے پی ایل او کے ممبر سے ملنا اور بات کرنا جرم تھا۔
یہ بائیکاٹ 1991 میں ختم ہوا جب میں میڈرڈ میں دونوں فریقین نے ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ دسمبر 1991 سے جولائی 1993 تک مذاکرات کے کئی راونڈ بالواسطہ ہوئے۔ بالآخر، اسرائیلی وزیرِاعظم اضحاک رابین اور پی ایل او نے خفیہ مذاکرات کا فیصلہ کیا جن کے نتیجے میں اوسلو معاہدہ کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرہ ستمبر 1993 کو عرفات اور رابین، دو دیرینہ دشمنوں کا مصافحہ ایک یادگار لمحہ تھا۔ اس وقت امید تھی کہ امن قریب ہے لیکن بعد والے واقعات ایسے نہیں رہے۔
پہلے معاہدے کا نام “عبوری حکومتی انتظامات کے اصولوں کا اعلامیہ” تھا۔ معاہدوں کی اس سیریز کو مجموعی طور پر اوسلو اکارڈ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ خفیہ مذکرات جنوری سے اگست 1993 تک ناروے کے شہر اوسلو میں ہوئے تھے۔
تیرہ ستمبر کو ہونے والا معاہدہ امن معاہدہ نہیں تھا۔ اس میں اسرائیل نے غزہ سے اور مغربی کنارے کے شہر اریحا سے انخلا کرنا تھا۔ اس کے بعد اگلے پانچ سال میں مغربی کنارے کے کچھ اور علاقوں سے۔ اس دوران، فلسطین میں ایک نیم خودمختار حکومت کا قیام ہونا تھا جس کا کام اسرائیلی فورس کے نکل جانے کے بعد روزمرہ کا انتظام سنبھالنا تھا۔ امن و امان، پولیس، صحت، ٹیکس، تعلیم، سوشل ویلفئیر، کلچر اور سیاحت کے شعبے اس کے پاس آ جانے تھے۔
اس میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ مستقبل میں کن امور پر بات چیت ہونی ہے۔ فلسطینی سرحدیں، اسرائیلی آبادیاں، مہاجرین کا مسئلہ، یروشلم کا سٹیٹس ان میں شامل تھے۔
یاسر عرفات نے رابین کو “اسرائیل کو امن سے رہنے کا حق” تسلیم کیا تھا اور اسرائیل نے “پی ایل او کو فلسطینیوں کا نمائندہ” تسلیم کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھائیس ستمبر 1995 کو دوسرے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس میں مغربی کنارے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ شہری علاقے جہاں پر فلسطین اتھارٹی کا مکمل کنٹرول ہو گا۔ دیہی علاقے جہاں پر سیکورٹی اسرائیل کی ہو گی، سول معاملات فلسطین اتھارٹی کے پاس۔ اور اسرائیلی آبادیاں اور ملٹری بیس، زرعی زمین اور بڑی سڑکیں جو اسرائیلی کنٹرول میں ہوں گے۔ جب تک کہ 1999 میں آخری مذاکرات نہیں ہو جاتے۔ یہ انتظام عارضی طور پر پانچ سال کے لئے کیا گیا تھا لیکن یہ ابھی تک اسی طرح ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ایل او کو یہ دکھانا تھا کہ وہ حکومت کر سکتی ہے اور اسرائیل کے ساتھ امن قائم رکھ سکتی ہے۔ جبکہ اسرائیل کو رفتہ رفتہ فلسطین کو چھوڑنا تھا۔
ایسا نہیں ہوا۔
اپنی ناکامی کے باوجود یہ اضحاک رابین، شمعون پیریز، یاسر عرفات اور محمود عباس کی یہ بڑی کامیابی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوسلو اکارڈ سے مشرقِ وسطٰی میں امن قائم نہیں ہوا۔ ان سے لگائی گئی بلند توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ نہ فلسطینیوں کو آزادی ملی، نہ ہی اسرائیلیوں کا “دمشق کے قہوہ خانے میں کافی کا کپ” کا خواب پورا ہوا۔
فلسطینیوں کے لئے بڑے شہروں سے اسرائیلی فوج کے انخلا نے اور فلسطینی اتھارٹی کے قیام نے زندگی کچھ آسان کر دی۔ فلسطینی پاسپورٹ کا اجرا 1995 میں ہو گیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply