سماج۔۔ایم جبران عباسی

انسان سماج میں مختلف شناختوں میں تقسیم ہے ، یہ تقسیم hierarchic ہے ، درجہ بہ درجہ ، برتر و کمتر حیثیتیں ، زیادہ سیاسی و سماجی اختیار والے انسان اعلیٰ  درجے میں شمار ہیں ، جیسے بورژواز ، سیاستدان ، مذہبی رہنما ۔ شناختوں کے اہم ماخذ قبائل ، ثقافت ، جغرافیہ ہیں ۔

کچھ انسان اپنے درجوں سے تنزل بھی ہوتے ہیں جیسے بورژواز اگرچہ قبائلی ، ثقافتی اور جغرافیائی شناختیں “متاثر” ضرور ہوتی ہیں ،مٹ نہیں  سکتیں ۔ دنیا میں دو درجے ہمیشہ رہے اور رہیں گے ، امیر و غریب کا درجہ ، جو اختیارات و وسائل میں ہمیشہ متضاد ہیں ۔

جس سماج کا انسان رہائشی ہے ، وہ اخلاقی و قانونی پیچیدگیوں ، اور رسم و رواج کا پابند ہے ، ایک انسان کبھی آزاد نہیں  رہ سکتا ، اگرچہ ” ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا ہے ، تم کون ہوتے ہو غلام بنانے والے ” حضرت عمر فاروق بنام  گورنر۔

یہ سماج ایک انسان کو  کون سی  ضروریات فراہم کرتا ہے ، ایسی کون سی وجوہات ہیں انسان پابند ہے وہ سماجی اخلاقیات پر عمل پیرا ہو ، اپنے قول و فعل کو سماج کی بہتری میں صَرف کرے ۔

“تحفظ ” کا احساس ، اہم ترین ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں ، خاندان سے نکالے گئے ، برادری سے نکالے گئے ، سوشل بائیکاٹ ہو گیا تو ، ہمارا مستقبل غیر محفوظ ہو جائے گا ۔ یہ ڈر و خوف ہمارے جینز سے آیا ہے۔

قیاس کرتا ہوں مذہبی ملاؤں کی طرح سماج کا اہم ترین ہتھیار بھی خوف ہے ، خوف دو طرح کے انسان کی ذات میں پائے جاتے ہیں ۔ ایک جو پیدائش سے ہی بچے کے ذہن میں جینز کے  ذریعے آئے ،اس خوف کا مآخذ یہ ہو سکتا ہے ،انسان کے لاشعور میں اب بھی  جنگل کے زمانے کی تلخیاں ہیں ۔

جنگل کے زمانوں میں انسان کا طبعی موت سے مرنا بہت نایاب تھا ، اس سے وحشت کا اندازہ قیاس ہے ۔ کچھ انسان جنگلوں کے اس ماحول سے باہر نکلے ، نیچے برفوں کو عبور کیا تو گرم میدانی علاقوں تک آ پہنچے ، گرم میدانی علاقوں میں جنگلی شکار کی وہ صورتحال میسر نہ ہوئی  ہو گی تو میدانی گھاس پر گزارا کیا ہو گا ، جیسے حضرت آدم کو خوشہ گندم دیا گیا یعنی انسان کی پہلی غذا گھاس رہی ہو گی ۔ گھاس سے جینیاتی تبدیلی آتی گئی ہو گی ، گندم ، مکئی کے دانے ڈویلپ ہوئے ، دریاؤں کے نرم کناروں پر سبزیاں پیدا کی جانے لگیں ، قبائل اور خاندان بننے لگے ، کھیت کا تصور اُبھرا ، تو ذاتی ملکیتو ں کے جھگڑے بڑھنے لگے ، قانون سازی کی جانے لگی ، آج بھی زمین کا مقدمہ سب سے طویل اور اکتا دینے والا ہوتا ہے ۔ قانون سازی ہوئی تو عمل در آمد کیلئے ایڈمنسٹریشن کی ضرورت پڑی ، ہم کہہ سکتے ہیں دنیا کے پہلے سیاسی نظام کمیونسٹ طرز کا  ہو گا، جو رفتہ رفتہ چند ہوشیار انسانوں نے بیوروکریسی کے ذریعے مطلق العنان بادشاہت میں تبدیل کر دیے ۔ دوسری قوم سے جنگ اور مٹ جانے کا خوف ان ہوشیار لوگوں کا ہتھیار تھا۔

انسان ماضی کے دکھ ، درد بھول نہ  پائے ، یہی لکھا ہے لوح ِازل پر ۔۔

خوف ،پھر بچے کے اندر جب اس کی تربیت شروع کی جاتی ہے منتقل کیا جاتا ہے ، جیسے ایک ماں اپنے بچے کو خود ڈانٹنے کے بجائے کہہ  دیتی ہے ’’ آنے دو اپنے باپ کو‘‘ ، تو باپ کی تصویر یہ بنتی ہے باپ کوئی بڑا سخت دل انسان ہے جو ہمیشہ غلطی کرنے پر سزا دیتا ہے ۔ بچے کی نفسیات کا جو چیز حصہ بن گئی وہ لحد تک اس کی شخصیت کا جزو رہتی ہے۔

پھر سکولنگ میں خوف کی ایک باقائدہ منظم شکل موجود ہے جیسے فیل ہو جانا ، سکولز ایلیٹ تھیوری کہتی ہے بورژواز کیلئے انسانی روبوٹک مشینیں  تیار کرتے ہیں ۔ جو منافع بخش کاروبار ہے ۔ کامیاب کرئیر ، ناکام کرئیر سرمایہ داری نظام کے وہ نتائج ہیں جو ہر انسان پر نافذ کیے گئے ، ہر شخص کو ، لڑکے کو ، لڑکی کو کامیاب کرئیر بنانا ہے ، انڈیپینڈنٹ ہونا ہے ۔ یہی مقصد ہوتا ہے سرمایہ کاروں کا ، زیادہ انسانی آبادی کی حرکت ہو گی ، مشین کا پہیہ تیز گھومے گا ۔

عام آدمی دلربا اشتہاروں سےآئیڈل لائف اخذ کرتا ہے ۔ ارد گرد لوگوں سے متاثر ہو کر احساس کمتری کا شکار ہوا جاتا ہے ۔ خوف زدہ ذہن ، احساسِ کمتری میں مبتلا شخصیتیں کبھی بھی محدود دائرے سے نکل نہیں  پاتے اور اسی ایک دائرے کے اندر گھومتے رہتے ہیں۔

خوف و امید کا توازن بھی متناسب ہے ، انسان کسی بھی مشکل صورتحال کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، ایسی صورت میں ، انسان سب سے پہلے اس سچویشن کو آئیڈیالائز کرتے ہیں ، حقیقت پسندی اسی آئیڈیالائزیشن کا نام ہے ، اور صوتحال کو سلیکٹو پرسیپشن کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے ، پھر ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اور متبادل طریقے بنائے جاتے ہیں ، اور کسی ایک بہترین طریقے سے مسئلے  کو حل کی راہ دکھاتے ہیں ۔ ہر انسان دن میں درجنوں بار اس پراسیس کو پروسیڈ کرتا ہے ۔

خوف و امید کے ان دائروں میں ہی زندگی گزرتی ہے بلکہ گزاری جاتی ہے ، ان دائروں سے آگے انسان کبھی نکل نہیں  پاتا ، اس کی روح نکل جاتی ہے اور ایک نیا انسان پیدا ہوتا ہے ، نئے خوف و امید کے دائرے اسے جکڑ لیتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

جبران عباسی
میں ایبٹ آباد سے بطور کالم نگار ’’خاموش آواز ‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ مختلف اخبارات کیلئے لکھتا ہوں۔ بی ایس انٹرنیشنل ریلیشن کے دوسرے سمسٹر میں ہوں۔ مذہب ، معاشرت اور سیاست پر اپنے سعی شعور و آگہی کو جانچنا اور پیش کرنا میرا منشورِ قلم ہے ۔ تنقید میرا قلمی ذوق ہے ، اعتقاد سے بڑھ کر منطقی استدلال میری قلمی میراث ہے ۔ انیس سال کا لڑکا محض شوق سے مجبور نہیں بلکہ لکھنا اس کا ایمان ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply