فجر، مسجد، نکاح اور خاتون فوٹو گرافر/عاطف ملک

صبح فجر کی نماز پڑھنے مسجد گیا تو  بہت کچھ مختلف رہا۔

یہ مسجد انڈونیشین مسلمانوں کے زیر انتظام ہے۔سب سے قبل تو امام نےدوسری رکعت میں سجدے میں جانے سے قبل ہاتھ اٹھا دیے اور   بآواز بلند     دعا      مانگنا شروع کردی۔ مجھے کچھ وقت لگا کہ سمجھوں کہ کیا ہورہا ہے۔  اس سے قبل رمضان میں  وتر  تو اس انداز میں  باجماعت پڑھے تھے مگر فجر کی نماز  کبھی ایسے نہ پڑھی تھی۔  بعد میں پتہ لگا کہ شافعی مسلک میں ایسے بھی فجر کی نماز پڑھی جاتی ہے۔
فجر کی نماز ختم کرنے کے بعد امام نے بتایا کہ سب نمازی تشریف رکھیں کہ ایک نکاح پڑھایا جائے گا۔ فجر کی نماز کے وقت نکاح، یہ بھی نیا  تجربہ تھا۔
ایک گورا مسلمان آگے امام کے پاس  آیا،                              یہ برادر مائیکل تھا جس کا نکاح پڑھایا جانا تھا۔ دلہن مسجد میں خواتین والے حصے میں تھی۔ گواہان اور امام دلہن کے دستخطوں کے لیے وہاں گئے۔ نکاح پڑھایا گیا۔ کیمرے کی فلیش چمکی  تو  دیکھا ایک خاتون فوٹو گرافر تصاویر لے رہی تھی۔  یہ بھی ایک نیا منظر تھا۔
فجر کے              وقت  نکاح         اور مسجد کے   اند ر  نکاح کی تصاویرلیتی خاتون فوٹو گرافر،  یہ تو سب اپنے ہاں سے فرق ہورہا ہے۔

پچھلے سال لاہور میں ضرار شہید ہسپتال کے قریب ایک مسجد میں جمعہ پڑھنے گیا تھا۔ یہ ایک نیم دیہاتی علاقہ ہے ، سب سے پہلے تو میں جین کی پتلون  پہنے  باقیوں سے الگ  واحد نمازی تھا اور تھوڑا عجیب محسوس کر رہا تھا۔ نماز شروع کی تھی تو ایک بچے نے آگے بڑھ کر ایک سبز جالی کی بنی ٹوپی میرے سر پر  رکھ دی۔  ٹوپی پرانی اور ایک جانب سے ٹوٹی تھی۔ میں نماز پڑھتے ہوئے مسکرا اٹھا ، اس بچے کو یہی بتایا گیا تھا۔  وہ  بچہ مخلص تھا اور  اپنی نیک نیتی سے میرا بھلا چاہتا تھا۔

یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر جب  وہ اس حد تک پہنچے  گا کہ اپنی یک رنگی کو سب رنگ جانے گا تو  اس کے بعد لہو رنگ ہی باقی بچتا  ہے۔

نکاح کے بعد مٹھائی اور کھانا آیا۔ یہ انڈونیشن کھانا تھا، نیسی لیمک کہلاتا ہے، ابلے چاول، ابلا انڈا، کافی تیز مرچوں کا سالن ، بہت چھوٹی مچھلیاں، اور مرغی  کے گوشت کے چھوٹے ٹکڑے۔

ناشتے میں چاول، یہ آج کا دن فرق ہے۔

میں کھانا لے کر مسجد کے ہال میں  ایک  نوجوان گورے نو مسلم کے پاس بیٹھ گیا۔   یہ بائیس سالہ نوجوان  کچھ عرصہ قبل مسلمان ہوا تھا اور اس سے پہلے ایک دفعہ ملاقات رہی تھی۔   وہ خوبصورت ہے ، اس کے سفید چہرے پر ہلکے سنہرے  بال  ابھی پوری   طرح اپنی جگہ نہیں بنا پائے، اور اس کی آنکھوں کی چمک    آنکھیں بند کر کے بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔

کہنے لگا کہ ایک سال سے مختلف جگہوں پر گھروں اور عمارتوں کی تعمیر میں  بطور مزدور    کام کررہا ہوں۔ اب سفیدی  اور رنگ سازی   کے کام کی  تربیت شروع کرنے والا ہوں۔ پوچھنے پر بتایا کہ یہ تربیت تین سال لیتی ہے، جس میں تھیوری اور پریکٹیکل کروایا جاتا ہے۔   پھر کہنے لگا کہ مزدو ر بننے سے قبل پرتھ میں کرٹن یونیورسٹی سے سوشل سائنس میں بیچلرز کی ڈگری مکمل کی تھی۔ ابھی میں  اُس کی اس بات سے ہی سنبھل رہا تھا کہ بتایا کہ یونیورسٹی سے قبل بارہویں تک تعلیم ایک مہنگے پرائیویٹ سکول میں حاصل کی تھی۔

یہ آج کا دن کیا  شروع ہورہا ہے، آج تو سب مختلف ہے۔

یہ مزدور بننا کیا تمھارا شعوری فیصلہ ہے؟  کیا تم استاد بن سکتے ہو؟

ہاں، میں سکول میں تاریخ پڑھا سکتا ہوں، مگر مجھے تعمیراتی جگہ پسند ہے۔ کیا تم  نے کسی تعمیراتی جگہ پر کام کیا ہے؟

نہیں۔

کبھی کام کر کے دیکھنا، وہاں زندگی ہے، وہاں  ہر کوئی چیخ رہا ہوتا ہے۔وہاں راج مزدروں کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ ٹھیکیدار مجبوریوں سے فائدہ اٹھا   رہے ہوتے ہیں،  مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے۔  میں مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔ میں مزدوروں کی یونین میں کام کرنا چاہتا ہوں، یہ میرا خواب ہے۔

یہ کیا باتیں کر رہا ہے؟اس معاشرے میں جوانی میں مسلمان ہو جانا کیا کم قربانی ہے اور یہ مزدوروں کے لیے کھڑا ہونا چاہ رہا ہے۔ پرائیویٹ سکول سے تعلیم یافتہ مزدور، یونیورسٹی کا ڈگری یافتہ مزدور،  یہ لڑکا فرق ہے۔ آج کا دن فرق ہے ، آج تو سب مختلف ہے۔

تمہیں پتا ہے کہ میں کیسے تعمیراتی کام کی محبت میں گرفتار ہوا؟

نہیں۔

میں ایک جگہ بطور  مزدور  کام کر رہا تھا اور کمپنی نے ہمارے سپروائزر کو نکال دیا۔ اُسے نکال دیا کہ وہ مزدوروں کے حقوق کی بات کررہا تھا۔ تمہیں پتا  ہے کہ پھر کیا ہوا؟

نہیں۔

ہم مزدور وں نے کام کرنے سے انکار کردیا۔ ہم  زیر تعمیر عمارت کے سامنے صبح سے شام تک کھڑے رہتے۔ تم نے مزدوروں کی گفتگو کبھی سنی ہے،یہ گالیوں سے بھری ہوتی ہے۔ہم  کام نہیں کررہے تھے، سگریٹ پیتے رہتے، گالیاں دیتے رہتے۔ تیسرے دن کمپنی نے سپروائزر کو دوبارہ کام پر رکھ لیا  اور اُس دن  جب میں شام کو گھر آیا  تو میں نے اپنی یونیورسٹی کی ڈگری کو صندوق میں تالا لگا کر بند کردیا۔

میں ،جس نے اپنی زندگی ایک لگی بندھی سوچ میں گذاری ہے، سوچنے لگا کہ میں وہ  اُدھیڑ عمر بچہ ہوں جو   ہر سر  کے اوپر اپنی سوچ کی  ٹوٹی  یک رنگی ٹوپی  لاد کر  مطمن رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یااللہ کیا دن کا آغاز ہوا ہے، سب فرق ہے، سب فرق۔

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل ، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ یہ تحاریر ان کے ذاتی بلاگ پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply