میں ڈرتا ورتا کسی سےنہیں

صحافی : آجکل آپ کی ایک وڈیو نے کافی دھوم مچا رکھی ہے
جنرل : ارے بس کیا بتاوں کسی دوست کی شرارت ہے
صحافی : دوست کی شرارت تو یہ ہوگی نہ کہ اس نے موبائل سے آپکی وڈیو بنا کر یو ٹیوب پر اپ لوڈ کردی مگر ناچ تو آپ ہی رہے تھے وہ تو دوست کی شرارت نہیں تھی
جنرل : کیا کہنا چاہتے ہیں آپ میں ناچ نہیں سکتا ، مجھ پر کوئی پابندی لگا سکتا ہے آپ شائد مجھے ٹھیک سے جانتے نہیں میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں
صحافی : جی وہ تو ساری قوم جانتی ہے کہ آپ ڈرتے ورتے کسی سے نہیں مگر میرا سوال یہ تھا کہ آپ کی کمر میں اتنا شدید درد تھا کہ آپ بنا سہارے کروٹ نہیں لے سکتے تھے اور آپ کمر کے علاج کیلئے یہاں آئے تھے
جنرل : تو کیا ساری زندگی بیمار ہی رہوں گا اب ماشااللہ میں ٹھیک ہوںبالکل فٹ ہوں
صحافی : تو فٹ ہو کر کیا صرف ناچیں گے ہی
جنرل : اے مسٹر ۔۔۔ تم صحافی ہو یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر تمھیں میرے ناچنے سے کیا پرابلم ہے
صحافی : آپ طبلہ بھی بجا لیتے تھے
جنرل : ہاں موسیقی کا مجھے شروع سے شوق تھا میں ہارمونیم بھی بجا لیتا تھا
صحافی : اب آپ فٹ ہیں کب آ رہے ہیں پاکستان مقدمات کا سامنا کرنے کیلئے ڈرتے ورتے تو آپ ویسے ہی کسی سے نہیں ہیں
جنرل : پاگل سمجھا ہے مشکل سے تو نکلا ہوں جہنم سے
صحافی : جہنم بنایا بھی تو آپ ہی نے تھا
جنرل : کیوں میں نے کیا ، کیا یاد نہیں میرے دس سال میں کبھی ڈالر 60 سے اوپر گیا
صحافی : وہ تو آپ نوٹ چھاپ چھاپ کر افراط زر بڑھاتے رہے اپنی کرنسی ردی ہوتی گئی اور ملک دیوالیہ ہوگیا
جنرل : ان بکواسیات کا مجھے نہیں پتہ میں کوئی ماہر معاشیات نہیں
صحافی : آپ نے لال مسجد میں آپریشن کا حکم کیوں دیا تھا
جنرل : ; تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے تم پاکستانیوں کا یہی مسئلہ ہے تحقیق نہیں کرتے ۔میں جنرل تھا صدر مملکت تھا ایک مسجد پر آپریشن کا حکم میں نے دینا تھا میں کیا اسلام آباد کا کوچوان تھا
صحافی پھر کس نے دیا تھا حکم
جنرل : کمشنر اسلام آباد نے دیا ہوگا
صحافی : آپریشن ایس ایس جی نے کیا تھا
جنرل : تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ہم حکومت کی درخواست پر کچھ بھی کر سکتے ہیں
صحافی : مولانا عزیز کو وہاں سے کس نے نکالا تھا
جنرل : وہ کچھ دوستوں کی فرمائش تھی
صحافی : کون دوست
جنرل : وہ برقعہ پہن کر پردے میں نکلا تھا نا
صحافی : جی با لکل
جنرل : بس پھر اس بات کو بھی پردے ہی میں رہنے دو
صحافی : کارگل پر قبضہ کیلئے بھی کیا حکومت نے آپ سے درخواست کی تھی
جنرل : او نہیں جی ان میں کہاں دم ہے یہ تو میرا بچپن کا شوق تھا ( قہقہہ )
صحافی : اور جب وزیر اعظم نے آپ سے کہا کہ بھارت نے حملے کی دھمکی اور ڈیڈ لائن دے دی ہے اگر آپ اسٹینڈ لینا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی ہم آپ کے ساتھ ہیں تو آپ نے اسٹینڈ کیوں نہیں لیا ۔
جنرل : پہلی بات تو بس وہ میرا شوق تھا جو پورا ہوگیا تھا دوسرا اس پر مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ سفارتی سطح پر ہماری کوئی مددکر سکے گا اس وقت اگر بینظیر کی حکومت ہوتی تو شائد میں اسٹینڈ لے بھی لیتا
صحافی : بینظیر اتنی قابل تھی تو پھر اسے قتل کیوں کروایا
جنرل : تم کیا نشہ کرتے ہو ۔۔۔۔ میں نے قتل کروایا ؟میں نے تو اسے خبردار کیا تھا کہ پاکستان آو گی تو ماری جاو گی
صحافی : وہ تو کہتی تھیں کہ آپ نے دھمکی دی تھی
جنرل : کس سے کہتی تھیں ۔۔۔۔ تم سے کہا تھا ۔۔۔ سیگل بکواس کرتا ہے اس کی بات اہم ہے یا میں جو کہہ رہا ہوں
صحافی : کیا یہ سچ ہے کہ آپ اپنے ادارے سے بھی جہادی سرپرستی کا خاتمہ کر رہے تھے
جنرل : بالکل کر رہا تھا
صحافی : پھر کارگل میں حافظ سعید کے لوگ آپ کے ساتھ کیوں نظر آ رہے تھے
جنرل : صحافت کرو تحقیقات نہ کرو
صحافی : اچھا پھر وہ ایکس سروس گروپ آپ کے خلاف کیوں ہو گیا تھا جو ضیائی سوچ کا حامل سمجھا جاتا تھا اور سڑکوں پر نکل آیا تھا آپ کے خلاف
جنرل : وہ تو ظاہر ہے میں انکی سوچ کے حامل افراد کے خلاف تھا
صحافی : ڈاکٹر عبدلقدیر خان کا کیا قصور تھا
جنرل : ان کا قصور تھا ایٹمی پھیلاو اسکینڈل میں انھیں میں نے ڈسمس کر دیا تھا
صحافی : دو دو پلاٹ اور تمام مراعات دیکر
جنرل : وہ انکا حق تھا
صحافی : ایم کیو ایم کے ساتھ آپ نے کیا ۔ کیا
جنرل : میں نے کیا کرنا تھا دس سال انھیں کیسی عیاشی کروائی ہے پوچھو ان کے کسی بندے سے
صحافی : کیا آپ نے انھیں خود فریبی میں مبتلا نہیں کیا اور کیا آپ خود اشارے نہیں دیتے رہے کہ آپ ایم کیو ایم کی قیادت سنبھالنا چاہتے ہیں اور کیا آپ ہی کے دور میں مائنس الطاف کے فارمولے پر ورک شروع نہیں ہو چکا تھا
جنرل : تو کیا الطاف حسین نے آب حیات پی رکھی ہے ہر شخص کو ایک دن چلے جانا ہے اس کی جگہہ کسی اور کو آ جانا ہے۔
صحافی : پھر اس برے وقت میں جب ایم کیوایم کے لوگ آپ کے پاس آئے تو آپ نے انھیں کیوں واپس کردیا یہ کہہ کر کہ ایم کیو ایم بدنام ہو چکی ہے اسکا نام بدل لو تو سوچتا ہوں۔
صحافی : آجکل آپ کیا کر رہے ہیں ڈانس کے علاوہ
جنرل : تمھیں میرا نعرہ یاد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب سے پہلے پاکستان
صحافی : جی کس کو یاد نہ ہوگا۔
اور ایک آخری بات جا کر قوم کو بتا دینا خاص کر انکو جنکی وجہ سے میں بھاگتا پھر رہا ہوں
صحافی : جی فرمائیں
جنرل سب کو بتا دینا ٹرمپ بھی ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ( قہقہہ )

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply