پیالی میں طوفان (102) ۔ کچن سے باہر/وہاراامباکر

انسان معاشرتی جاندار ہے۔ ہم اپنے معاشرتی نیٹورک کو رابطوں کے ذریعے جوڑتے ہیں۔ سگنل بھیجتے اور موصول کرتے ہیں۔ ہماری آواز ہمارا ایک بڑا خاص فیچر ہے۔ ایک لچکدار موسیقی کا آلہ جو کہ آواز کی لہریں پیدا کر سکتا ہے اور اسے شکل دے سکتا ہے اور اپنے ماحول میں نشر کر سکتا ہے۔ اگر ہم چائے پینے کا ارادہ کر رہے ہیں تو آواز کے ذریعے دوسرے افراد سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا وہ بھی ہمارے طرح اس گرم مشروب کا تجربہ کرنا چاہیں گے۔ دوسرے ہمارے بھیجے گئے اس سگنل کو اپنے کانوں کے ذریعے اٹھا لیں گے۔ ہمارا سوال سنتے ہی ان کے جسم میں انفارمیشن کے نئے دریا بہنے لگیں گے اعصابی ریشوں میں بٹتی اور ملتی انفارمیشن۔ اور سب کچھ پراسس کر لینے کے بعد وہ اپنے صوتی پٹھوں کی مدد سے مناسب جواب دیں گے۔ اور جب یہ پیغام ہمارے تک پہنچ جائے گا تو ہم اپنے گرد کی دنیا کو اس کے مطابق ترتیب دیں گے۔ پیالیاں اور چمچ اکٹھے کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے جسم میں کئی اقسام کے ایٹم ہیں۔ اور اگرچہ ان کی شاندار ورائٹی ہے لیکن ہماری حدود ہیں۔ اور اس کا انحصار اس پر ہے کہ ان ایٹموں کی اپنی ترتیب کیا ہے۔
لیکن انسان اپنے ماحول کو اپنے اشاروں پر چلانے کے ماہر ہیں۔ ایسے اوزار بنا لیتے ہیں جو وہ کر سکیں جو ہم خود نہیں کر پاتے۔ ہم ابلتے پانی کو چلو میں نہیں اٹھا سکتے۔ اس کے لئے کیتلی ہے۔ ہم اپنے کسی حصے کی مدد سے خشک پتوں کے لئے بند جگہ نہیں بنا سکتے لیکن شیشے کا جار یہ کام کر سکتا ہے۔ ہمارے پاس پنجے یا خول یا ہاتھی جیسے دانت نہیں۔ لیکن چھریاں اور کپڑے اور مرتبان کھولنے والے ہیں۔ سرامک کی پیالی ہمارے لئے گرم مشروب کو پکڑ کر رکھ سکتی ہے اور اس کی حرارت ہماری نازک انگلیوں سے دور رکھتی ہے۔ دھات، پلاسٹک، شیشہ اور سرامک اس دنیا میں ہمارے لئے کام کرتے ہیں۔ اور بائیولوجیکل مادے بھی جیسا کہ چمڑا، لکڑی یا کاغذ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیتلی میں پانی کے مالیکیول تھے جن کو توانائی دے کر ان کا ارتعاش تیزتر کیا گیا تھا۔ اب ایک موقع پر انہیں سرامک کے نئے گھر میں منتقل کر دیا گیا۔ اس میں دودھ کا اضافہ کیا گیا۔ بدقسمتی سے یہ عمل اس قدر تیز ہوتا ہے کہ ہم اس کے اڑنے اور واپس آنے والے چھینٹوں کا مشاہدہ نہیں کر پاتے۔ چونکہ ہماری بصارت سست ہے تو بہت سی چیزیں ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہم سے مخفی ہیں۔
اب ہم پیالی کی تہہ نہیں دیکھ سک رہے۔ جزوی طور پر شفاف مائع اب بالکل غیرشفاف ہو گیا ہے کیونکہ روشنی فیٹ کے چھوٹے قطروں سے ٹکرا کر پلٹ رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اس بات کو بغیر سوچے قبول کر لیتے ہیں لیکن ہم فرش کے ساتھ چمکے ہوئے ہیں، لیکن بس اس حد تک کہ یہ فورس manage کی جا سکتی ہے۔ اگر گریویٹی زیادہ ہوتی تو شاید ہمیں زیادہ مضبوط ٹانگیں درکار ہوتیں اور دو ٹانگوں پر چلنا مشکل ہوتا۔ اگر کم ہوتی تو شاید ہم زیادہ لمبے ہوتے لیکن زندگی زیادہ سست ہوتی کیونکہ کسی شے کو گرنے میں زیادہ وقت درکار ہوتا۔ ہم نے اربوں سال کے عمل کے بعد اپنے سیارے کے ساتھ غیرمعمولی ہم آہنگی پائی ہے۔
جب ہم قدم لینے کے لئے ایک ٹانگ اٹھاتے ہیں تو ہم اس بات پر انحصار کر رہے ہیں کہ گریویٹی کی کشش ہمیں آگے گرا دے گی۔ ہم اپنے ساکن پیر سے آگے اپنا دوسرا پیر گھما کر آگے لے جاتے ہیں اور اپنے اس گرنے کو اس پیر کی مدد سے روک لیتے ہیں۔ اس اثنا میں پورا جسم آگے بڑھ چکا ہوتا ہے۔ گریویٹی کے بغیر چلا نہیں جا سکتا۔ اور ہماری چال زمین کی گریویٹی سے ہم آہنگ ہے۔
جب ہم نے مشروب اٹھایا اور دروازے کی طرف گئے، اس دوران ہم اپنے جسم کو الٹے پنڈولم کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ گھما کر ٹانگ کو آگے لاتا ہے اور اس وقت میں دوسرے پیر اور کولہے پر pivot کرتے ہیں۔ چلنے کا یہ ردھم پیالی کے مشروب کو بھی ہلا رہا ہے۔
اور چلتے وقت ہلنے والا مائع صرف پیالی میں نہیں، کھوپڑی میں بھی ہے جس کی مدد سے ہم توازن برقرار رکھتے ہیں۔ یہ اندرونی کانوں کے گہرائی میں ہے۔ جب ہم رکتے ہیں تو یہ دیر سے رکتا ہے اور چلتے ہیں تو دیر سے چلتا ہے۔ یہ جس سوراخ میں ہے، اس کی دیواروں پر سنسر لگے ہیں جو اس انفارمیشن کو دماغ کے بہت بڑے نیٹورک کو بھیج رہے ہیں اور یہ اس فیصلے میں مدد کرتا ہے کہ کونسے پٹھے کو کیسے حرکت دینی ہے۔
اور یہ وہ وقت تھا جب ہم نے خالی ہاتھ کی مدد سے دروازے کو کھولا اور باہر نکل گئے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply