افغانستان میں مسلح جنگجوؤں کے چیلنجز/قادر خان یوسف زئی

افغانستان جو کئی دہائیوں سے مسلح تصادم سے دوچار، اور اگست 2021میں افغان طالبان ملک پر قبضہ کرنے کے بعد سے عبوری حکومت تسلیم کرانے کے لئے کو سرگرم ہے۔ دوحہ معاہدے کا سب سے اہم پہلو عبوری حکومت کا قیام اور اس کی نگرانی میں عوام کی منشا اور عالمی برداری کی شرائط کے مطابق متفقہ حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا لیکن افغان طالبان اس شق پر عمل درآمد نہیں کر رہے، اب چاہے جو بھی وجوہ بیان کریں لیکن افغانستان مختلف مسلح عسکریت پسند گروپ کی ’’ آرام گاہ‘‘ ہے اور ان کی بھی جو افغان طالبان کی حکمرانی اور نظریے کی مخالفت کرتے اور افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ شدت پسندوں کی تصدیق ہو چکی، جبکہ دیگر غیر تصدیق شدہ ہیں یا ان کے پاس محدود معلومات ہیں۔

بادی النظر افغانستان میں بڑی جھڑپوں کا سلسلہ تھم کیا چکا تاہم افغانستان کے مختلف سٹیک ہولڈر اب بھی ملک کے نظام و انصرام کی تبدیلی کے لئے سرگرم ہیں، انہی میں اہم گروپ نیشنل ریزسٹنس فرنٹ ( این آر ایف) ہے، جس کی قیادت احمد مسعود اور امر اللہ صالح کر رہے ہیں اور جمہوری انتخابات کرانا بظاہر ان کا ایجنڈا ہے۔ غیر جمہوری قوتیں خراسان میں اسلامی ریاست (ISK)، نام نہاد خلافت قائم کرنا چاہتی ہے اور کئی دوسرے گروہ جو فروری 2022سے مختلف نسلی، علاقائی یا سیاسی وابستگیوں اور مقاصد کے ساتھ ابھرے ہیں۔ افغان طالبان کو مختلف عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے جو اس کی حکمرانی اور نظریے کی مخالفت اور اس کے اختیار اور قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان کے خلاف مزاحمتی سب سے نمایاں عسکریت پسند گروپوں میں سے ایک نیشنل ریزسٹنس فرنٹ ہے، جو اگست 2021کے وسط میں افغان طالبان کے کابل فتح کرنے کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔ اس گروپ میں سابق شہری، سابق افغان نیشنل ڈیفنس اور سیکیورٹی کے اہلکار شامل ہیں۔ افواج (ANDSF)کے اہلکار، اور اپوزیشن کے سابق ارکان، جن میں زیادہ تر ممبران نسلی تاجک ہیں جنہوں نے سابق اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حمایت کی اور افغان طالبان کے سخت ترین مخالف ہیں۔ این آر ایف کی قیادت تاجکستان میں واقع ہیڈکوارٹر سے احمد مسعود، مرحوم کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے اور امر اللہ صالح، افغانستان کے سابق نائب صدر کر رہے ہیں۔ این آر ایف میں ایک سینئر شخصیت کا مبینہ دعویٰ ہے کہ وہ جمہوری انتخابات کروانا چاہتے تھے اور افغان عوام کو ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی ضرورت تھی۔

عسکریت پسند گروپ میں جو افغان طالبان کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے وہ اسلامک اسٹیٹ ( خراساں شاخ) ہے، جو عالمی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ (IS)سے وابستہ ہے۔ آئی ایس کے، کو 2015میں پاکستانی طالبان ( کالعدم ٹی ٹی پی) کے سابق ارکان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں نے قائم کیا تھا، آئی ایس کے کا مقصد اسلامی قانون کی خود ساختہ سخت تشریح پر مبنی خلافت قائم کرنا اور اس کے نظریے کی مخالفت کرنے والے ہر اس شخص کے خلاف لڑنا ہے، بشمول افغان طالبان، جنہیں وہ مرتد سمجھتا ہے۔ ISKنے شہریوں، سیکیورٹی فورسز، سرکاری اہلکار، مذہبی اقلیتیں، امدادی کارکنان اور صحافیوں کو نشانہ بناتے ہوئے متعدد خودکش بم دھماکے، قتل، اغوا اور قتل عام کیے ہیں اور پاک۔ افغان کے دیگر حصوں میں حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ علاقائی کنٹرول اور نظریاتی اختلافات پر ISK کئی مواقع پر افغان طالبان کے ساتھ جھڑپیں بھی کر چکے ہیں۔ افغان طالبان ISKکے خلاف متعدد کارروائیاں کرنے کے باوجود اسے قابو کرنے یا ختم کرنے میں ناکام ہیں۔ افغانستان اسلامک نیشنل اینڈ لبریشن موومنٹ (AINLM)، جسے فروری 2022میں سابق مجاہدین کمانڈر عبدالرشید دوستم نے تشکیل دیا تھا، لیکن افغان طالبان کے قبضے کے بعد ترکی فرار ہو گئے۔ ان کا دعویٰ بھی افغانستان کو افغان طالبان سے آزاد کرانا اور اسلامی جمہوریہ کو بحال کرنا ہے۔ افغانستان فریڈم فرنٹ ( اے ایف ایف)، جسے مارچ 2022میں صوبہ بلخ کے سابق گورنر عطا محمد نور نے تشکیل دیا تھا، جو طالبان کے قبضے کے بعد ترکی فرار ہو گیا تھا۔ یہ گروپ افغان طالبان کا تختہ الٹنا اور ایک جمہوری حکومت قائم کرنے دعویدار ہے۔ ترکستان فریڈم ٹائیگرز، جو کہ مارچ 2022میں نسلی ازبکوں نے تشکیل دیا تھا، دوستم اور نور کی حمایت کر نے کے مقصد میں افغانستان میں ازبک کمیونٹی کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنا بتاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

قومی مزاحمتی کونسل ( این آر سی)، جو اپریل 2022میں افغان پارلیمنٹ کے سابق ارکان نے تشکیل دی تھی جنہوں نے افغان طالبان کی حکمرانی کو مسترد کر دیا تھا۔ گروپ کا دعویٰ اسلامی جمہوریہ کے آئین اور پارلیمنٹ کو بحال کرنا ہے۔ نیشنل لبریشن فرنٹ آف افغانستان ( این ایل ایف اے)، جسے مئی 2022میں حزب اسلامی کے سابق ارکان نے تشکیل دیا تھا جو اس کے رہنما گلبدین حکمت یار کے طالبان کی حکومت میں شمولیت کے بعد پارٹی سے الگ ہو گئے تھے۔ افغانستان کو غیر ملکی قبضے سے آزاد کرانا اور انصاف اور مشاورت پر مبنی اسلامی نظام قائم کرنا ہے۔ ہزارستان کے نامعلوم سپاہی ( یو ایس ایچ)، جو جون 2022میں ہزارہ نسل کے لوگوں نے تشکیل دیا ان کا مقصد افغانستان میں ہزارہ لوگوں کے حقوق اور عزت کا دفاع کرنا ہے۔ فریڈم اینڈ ڈیموکریسی فرنٹ، جو جولائی 2022میں افغان لوکل پولیس کے سابق ممبران نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔ فریڈم کور ( ایف سی)، جسے اگست 2022 میں طالبان کی جیلوں سے فرار ہونے والے افغان اسپیشل فورسز کے سابق ارکان نے تشکیل دیا، یہ افغان طالبان کی فورسز کے خلاف گوریلا جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں مزاحمت کرنے والے بھی کئی دوسرے مسلح عسکریت پسند گروپ موجود ہیں۔ کچھ گروپوں نے عوامی سطح پر اپنی تشکیل کا اعلان کیا۔ تاہم، ان دعوئوں کے علاوہ، ایسے گروپوں کی عددی طاقت اور آپریشنل صلاحیتوں کے بارے میں محدود معلومات دستیاب ہیں۔ ان گروپوں میں سے کسی نے بھی یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ اہم حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ افغانستان میں دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مفاہمت کے بغیر امن کیسے قائم ہوسکتا ہے۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply