پھر بھی مسلمان دہشت گرد ہیں۔۔۔سید ذیشان حیدر بخاری ایڈووکیٹ

9/11سے پہلے بالعموم جبکہ اس واقعے کے بعد بالخصوص عالمی افق پرمسلمانوں کی شناخت بطور دہشت گرد قوم کی جاتی رہی ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے پر مسلمانوں کی عزت و عظمت سلامت نہ رہی۔آئے روز کبھی سکیورٹی خدشات کے بہانے سے ذلیل کیا جاتا رہا اور کبھی کلئیرنس کا ڈھونگ رچایا جاتا حتٰی کہ تاریخ نے ایک وقت وہ بھی دیکھا کہ پاکستان جیسےایٹمی طاقت رکھنے والے مسلمان ملک کے وزیراعظم اپنے ایک دورہ پر یورپ (امریکہ) تشریف لے گئے تو ائیرپورٹ پر ان کو کپڑے اتروا کر مکمل  تلاشی دینا پڑی جس کی وجہ سے ہمیں تمام دنیا میں جگ ہنسائی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جبکہ اس کے برعکس 9/11کے واقعے کے بعد سب سے زیادہ ظلم, تشدد اور بربریت کا سامنا بھی مسلم امہ کو ہی کرنا پڑا۔شام, فلسطین, عراق,افغانستان, برما غرضیکہ کوئی ملک ایسا نہیں رہا جو اس بربریت کا نشانہ نہ بنا ہو اور اس بربریت کے ساتھ ساتھ میں سب سے زیادہ انسانی جانوں کا ضیاع, افراد اور کنبوں کی گھروں سے بے دخلی و نقل مکانی اور املاک و مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ باوجود اتنی مالی و جانی قربانیوں کے مسلم امہ اپنے اوپر لگے اس دھبے کو دھونے میں ہنوذ ناکام رہی۔دنیا میں کسی بھی کونے پر اگر کوئی شخص ذاتی حیثیت میں کوئی فعل کر گزرتا تو بھی اس کا الزام کا سامنا مسلمانوں کو من حیث القوم اجتماعی طور پر کرنا پڑتا۔۔ ایسی صورت میں مسلمانان عالم کی حیثیت قبل از اسلام باندیوں اور لونڈیوں سے بھی کم ہو کر رہ گئی۔جبکہ بادی النظر میں دیکھا جائے تو  اقوام عالم بالخصوص مغرب کا رویہ مسلمانان عالم کے ساتھ ہمیشہ کی طرح متعصبانہ اور جانبدارانہ ہی   چلا آرہا ہے۔کیونکہ اگر کسی جگہ پر کوئی پٹاخہ بھی پھوڑا جاتا تو اس کا الزام بلا تفتیش و تحقیق مسلمانوں پر لگانے میں یورپ ہمیشہ ہی صف اول میں رہا ہے اور اس واقعے کو کسی شخص کا ذاتی فعل نہیں گردانا جاتا بلکہ اسے   مسلمانوں کا عکاس ہی تصور کیا جاتا رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

15مارچ 2019 کو نیوزی لینڈ کے شہر کریسنٹ چرچ میں ایک عیسائی شخص نے علی الصبح نماز فجر کے وقت باقاعدہ پلاننگ کر کے یکے بعد دیگرے نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں نمازیوں پر حملہ کیا اور اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے اب تک کی معلومات کے مطابق تقریباً 45 افراد کو ابد کی راہ دکھلائی۔انتہائی  تکلیف دہ  اور بیہمانہ کاروائی کا ارتکاب کیا گیا۔ ساری کاروائی کی ویڈیو بھی بنائی گئی جس میں قاتل گاڑی سے باقاعدہ نکلتا ہے اور ہتھیارنکالتا ہے اور مسجد کا رخ کرتا ہے اور جب دروازے پر پہنچتا ہے تو پہلے نظر آنے والے شخس کو گولی کا نشانہ بناتا ہے اسی طرح یکے بعد دیگرے مسجد میں موجود تمام افراد کو اس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔درندگی کی انتہا یہ کہ مسجد میں جوتوں سمیت داخل ہوتے ہوئے ایک مرتبہ تو سب کو قتل کیا لیکن واپس آکر دوبارہ تمام شہداء کی لاشوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک راہ گیر عورت بھی اس سب کی زد میں آئی۔۔
اس واقعے کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ قاتل نے یہ سفاکانہ, بزدلانہ کاروائی شروع کرنے سے لیکر اختتام تک فیس بک اور یوٹیوب پر لائیو نشر کی اور اس دوران اسے کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور اس پر مزید افسوس کہ اس ملک کی Law Enforcement Agencies کا نام و نشان تک نہ رہا ۔اس علاقے میں جو اس کو اس سے روکتے یا اس کا سدباب کرتے۔۔ اس سب کے باوجود اس واقعے  کو کسی نسلی یا مذہبی رنگ دینے کی بجائے اس وقت بھی مغربی اقوام اسے کسی جنونی, مذہب سے ڈرے ہوئے عقلی طور پر مفلوج شخص کا اقدام ہی قرار دے پائی ہیں۔
اگر کوئی مسلمان اس طرح کے کسی قبیح فعل کا مرتکب ہوتا تو اس وقت تک نہ صرف اس کی یا اس کے گھر والوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہوتی بلکہ اس کی زد میں کرہ ارض پر بسنے والا ہر مسلمان بلا کسی تخصیص کے ضرور آتا۔لیکن مجال ہے اس دنیا میں کوئی اس کو اس پیرائے میں دیکھے۔۔لیکن افسوس در افسوس کہ اتنے مظالم اور دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود صرف اور صرف ایک مسلمان ہی دہشتگرد ٹھہرایا جاتا ہے۔ مسلم امہ کی طرف سے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف محض ٹویٹس کی حد تک پرزور احتجاج کیا گیا۔میری نظر میں تو مسلم امہ اسوقت کسی سکتے سی کی کیفیت میں ہے کسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اس پر کس طرح اپنا احتجاج ریکارڈ کروائے۔ سرکاری سطح پر محض مذمتی بیانات کا دیا جانا کسی طرح بھی قابل ستائش کام نہیں گردانا جاسکتا۔ میرا مسلم امہ سے یہ مطالبہ ہے کہ مجموعی حیثیت میں اس کے خلاف اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے اوراقوام متحدہ کے پلیٹ فارم تک اس مکروہ کاروائی کا پیچھا کرتے ہوئے ذمہ داران کو قرارواقعی سزا دی جانی چاہئیے تاکہ آئندہ کسی کو بھی یہ ہمت نہ ہو کہ وہ کسی بھی مذہب کی یوں تضحیک کرے اور اتنے قبیح فعل سرزد کرنے کی جسارت کر سکے۔

Facebook Comments

سید ذیشان حیدر بخاری ایڈووکیٹ
سید ذیشان حیدر بخاری ضلع حویلی کے ایک گاؤں جبی سیداں میں پیدا ہوئے.موصوف نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائرسیکنڈری سکول جلال آباد سے حاصل کی.گریجویشن مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ تک مختلف NGOs میں جاب کرتے رہے.لگ بھگ چھ سال تک کمپیوٹر کی فیلڈ سے بھی جڑے رہے.موصوف کو ملازمت ایک آنکھ نہ بہائی. موصوف اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے لئے آزاد جموں وکشمیر یونیورسٹی مظفر آباد کا رخ کیا جہاں سے آپ نے ایل ایل بی کا امتحان امتیازی گریڈ میں پاس کیا.آج کل موصوف سینٹرل بار مظفر آباد میں بطور وکیل اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں..اور ادب کے حوالے سے موصوف نے اپنی پڑھائی کے دوران سہ ماہی سحر, اور چراغ کے نام سے بچوں کے لئے دو رسالہ جات بھی شائع کئے اور اس دوران ایک اخبار صدائے چنار کے ساتھ بھی اپنی خدمات بطور رضاکاررپورٹر وقتاً فوقتاً دیتے رہے... ایک آن لائن میگزین ماہنامہ رنگ برنگ کی ادارتی ٹیم کا حصہ بھی رہے...

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply