حضرت زین العابدین کی شخصیت کےروشن پہلو۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم

واقعہ کربلا کے حوالے سے مختلف ہستیوں پر بات ہوتی ہے مگر کربلا کے اصل ہیرو جناب زین العابدین پر کبھی تفصیل سے بات نہیں ہوئی۔ میں نے شیعہ اور سنی لٹریچر دیکھا ،اس میں ایک ایسے شخص کا ذکر ہے جس نے ابن ِ زیاد اور یزید کے درباروں میں حوصلہ نہیں ہارا،ا ور تمام تر مشکلات سے بڑی جرات سے  صورت حال کا سامنا کیا، یا مدینے کے اس عبادت گزار کا ذکر ہے جس کی عبادت کو عبادت گزاروں کے لئے زینت سمجھا گیا۔ اور جس کی مناجات اور دعاؤں کے مجموعوں کو مسلمانوں کے تمام مسالک میں بہت مقبولیت حاصل ہے۔

مگر کیا یہی جناب زین العابدین کا اصل تعارف ہے، چلیں اپنے اہل تشیع بھائی تو ان کو اپنے اماموں کی لڑی میں سے ایک امام کہہ کر مطمن ہوجاتے ہیں کہ وہ ان کے نزدیک کائنات کی سب سے محترم ہستیوں کا ایک سلسلہ ہے مگر ایک غیر جانبدار شخص کے لئے کچھ زیادہ چاہیے۔

جناب زین ا لعابدین کے لئے اصل چیلنج کربلا کے بعد کی زندگی ہے۔ جب اُمتِ مسلمہ اپنے بدترین انتشار کا سامنا کرر ہی تھی تو امت کے اس ممتاز سماجی راہنما نے کیسا کردار ادا کیا۔ جناب زین العابدین نے اس موقع پر دکھلا دیا کہ ایک اہل علم اور سماجی راہنما کو کیسا کردار ادا کرنا چاہیے۔

انھوں نے جو پہلا کام کیا وہ اقتدار اور سیاست سے مکمل لاتعلقی تھی۔ انھوں نے مذہب اور اقتدار کو مکمل طور پر الگ کیا۔ ان کے سامنے اپنے والد محترم، تایا جان اور دادا جان کے حالات تھے۔ انھوں نے جو ان تمام حالات سے عملی طور پر نتیجہ نکالا وہ یہی تھا کہ  ایک سماجی اور مذہبی راہنما کو اقتدار کی ہر قسم کی رسہ کشی سے دور رہ کر کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ جب یزیدی افواج نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کیا تو آپ نے حضرت عبداللہ بن حنطلہ کے بیٹے اور ان کے ساتھیوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسے لشکر جرار کے مقابلے میں فوجی مقابلے کی کوشش نہ صرف اپنے اور اپنے ساتھیوں کو ہلاکت میں ڈالنے کی بات ہے بلکہ مدینہ منورہ اور مسجد نبوی کی بے حرمتی کا اندیشہ ہے مگر ان جذباتی نوجوانوں نے آپ کے مشورے پر عمل کی بجائے دوسرا راستہ اختیار کیا جس سے کربلا کے سانحے میں متبلا امت کو واقعہ حرہ جیسا سانحے کا سامنا کرنا پڑا۔

آپ کا دوسرا کام ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی گروہ بندی سے خود کو الگ رکھنا تھا۔ چنانچہ آپ نے حضرت عبداللہ بن زبیر، مروان بن حکم یا عبدالمالک بن مروان میں سے کسی کی سیاسی آویزش میں کسی قسم کی شرکت نہیں کی حتی کہ مختار ثقفی کے خروج کی بھی حمایت سے انکارکیا۔ اور کبھی انتقام کی بات نہیں کی۔ اورنہ ہی آپ نے کسی مذہبی گروہ بندی میں کسی قسم کی شرکت کی۔

آپ کا تیسرا کام کسی قسم کی گروہ بندی، اور امتیاز کے بغیر تمام انسانوں کی خدمت تھی۔ مدینے میں آپ کا دستر خوان ہمیشہ آباد رہتا جہاں کسی مذہبی ، سیاسی یا نسلی امتیاز کے بغیر کوئی بھی فرد شامل ہو سکتا تھا۔ ایک دفعہ ایک شخص نے آپ سے کہا کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں، آپ نے کہا میں تمہیں پہچانتا ہوں، تم ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے شام پہنچنے پر ہم قیدیوں پرپتھر پھینکے تھے۔ اس نے کہا کہ اس کے باوجود آپ نے مجھے اتنی عزت دی، اور اتنی مہمان نوازی کی۔ آپ نے بڑے اظمیان سے جواب دیا اس دن ہم تمہارے شہر میں آئے تھے تم نے اپنے طریقے سے ہمارے ساتھ سلوک کیا۔ آج تم ہمارے مہمان ہو، ہم اپنی روایت کے مطابق تم سے سلوک کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں مدینے کے تمام محروم اور مفلوک الحال لوگوں کا وظیفہ مقرر تھا اور ان کو ان کی ضرورتوں کے مطابق راشن بھی دیا جاتا۔

آپ کا چوتھا کام مسلمانوں میں ایک علمی اور تعلیمی روایت کا قیام تھا۔ آپ نے ہی اپنے قابل فخر بیٹے جناب باقر کو علمی طور پر تیار کیا۔ جس سے یہ ممکن ہوسکا کہ فقہ، حدیث اور اجتہاد کی وہ تعلیم کی جاسکے جو امت کے تمام مسالک کے کام آسکے۔

آپ کا پانچواں کام اسلام میں شدت پسندی کو رد کرنا تھا۔ آپ نے خوارج کی شدت پسندی کو سختی سے رد کیا اور اسلام کو انسانوں کے لئے ایک آسانیاں پیدا کرنے والے پیغام کے طور پر پیش کیا۔

تاریخ اسلام میں دربار اور اقتدار سے الگ رہ کر علمی، تعلیمی اور فلاحی کام کی روایت کی ابتدا آپ کی ذات سے ہوئی۔ آپ کے بعد صوفیوں اور اہل علم کی بڑی تعداد نے اس روایت کی پیروی کی۔

جناب زین العابدین نے نے خانقاہی سلسلے کی ابتدا کی۔ اگرچہ انھوں نے اس کو خانقاہ کا نام نہیں دیا مگر ایک ایسا مرکز قائم کیا جہاں بھوکوں کو کھانا کھلایا جاتا۔ مسافروں کی عارضی رہائش کا بندوبست ہوتا۔ لوگوں کی علمی اور عملی معاملات میں  راہنمائی کی جاتی اور اسی مرکز نے آئندہ ادوار  میں بعد میں صوفیوں کی خانقاہ کی شکل اختیار کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج جب ہم ایک غیر جانبدار اور اقتدار سے الگ ایک آزاد اور خود مختار اہل علم کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے جناب زین ا لعابدین کی ذات ایک بہترین ماڈل ہے!

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply