تعلیمی ایمرجنسی۔۔مہرساجدشاد

پاکستان میں مجموعی شرح خواندگی لگ بھگ 57 فیصد ہے اور خواتین میں یہ شرح کم ہو کر صرف تقریباً 45 فیصد رہ جاتی ہے، لیکن یاد رہے کہ صرف اپنا نام پڑھ اور لکھ سکنے والے کو خواندہ تسلیم کیا جاتا ہے کسی مناسب سطح کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے اعداد و شمار شرمناک ہیں۔
ہم اس بات پر متفق ہیں کہ تقریباً ہر شعبہ میں ہر سطح پر, کم و بیش ہر خرابی میں تعلیم کی کمی ہی بنیادی وجہ ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ہمارے ملک میں ترقی کیلئے تعلیم کو عام کرنے پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے ہم چاہتے ہیں کہ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو جائیں لیکن ہم نظام تعلیم کے چناؤ میں ابہام کا شکار ہیں، ساتھ ہی ذریعہ تعلیم کس زبان کو بنایا جائے اس پر بھی ہم حتمی فیصلہ نہیں کر پائے۔ بیک وقت مدرسہ، اردو میڈیم ، انگلش میڈیم، میڑک سسٹم، او لیول اے لیول سسٹم، اور پھر مختلف نظریہ اور سوچ کے حامل نصاب تعلیم کے تحت بچوں کو پڑھا کر ایک متحد قوم بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

پھر بھی ہماری شرح خواندگی بڑھنے کا نام نہیں لے رہی، حکومت اپنے محدود وسائل کا عذر پیش کرتی ہے کہ وہ سب کیلئے معیاری تعلیم کا بندوبست نہیں کر سکتی جبکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے اکثر و بیشتر کاروباری دوکانیں ہیں جہاں اپنے من پسند نرخ پر غیر معیاری تعلیم بیچی جا رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں المیہ یہ ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے ہر سیاسی جماعت نعرہ لگاتی ہے کہ تعلیم ضروری، تعلیم کے بغیر ترقی ناممکن، تعلیمی ایمرجنسی۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد وہی ڈھاک کے تین پات۔

بات صرف حکومت کی نااہلی تک رہے تو یہ المیہ ظلم نہ بنے، لیکن کیا کِیا جائے کہ حکومتیں تعلیم دشمنی پر کمر بستہ ہیں۔ ڈپٹی کمشنر سمیت ساری ضلعی انتظامیہ جن کا کام عوام کو سہولیات مہیا کرنا ہے، بنیادی حقوق میں اہم ترین تعلیم کے حصول کو ممکن بنانا ہے وہ اسکولوں کو پڑھانے پر جرمانے کر رہے ہیں سکول کھولنے کو جرم قرار دے کر اپنی رٹ منوانے کیلئے انہیں سیل کر کے بند کر رہے ہیں کیونکہ کسی اعلی دماغ کے کسی تاریک گوشے میں لاجواب خیال آیا کہ بچوں کو ایسی سردی میں اسکول نہیں جانا چاہیے،یہ بھی لطیفہ دیکھیے کہ انہی بچوں کو ساتھ لے کر کئی والدین شمالی علاقہ جات میں برف باری سے لطف اندوز ہونے پہنچ گئے۔

دنیا بھر میں شدید ترین موسم آتے ہیں، برف باری ہوتی ہے مسلسل بارشیں رہتی ہیں، شدید گرمی پڑتی ہے سخت حبس زدہ موسم آتا ہے لیکن تعلیمی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں بچے ان مشکلات سے نمٹنا سیکھتے ہیں زندگی کیلئے تیار ہوتے ہیں حوصلہ پاتے ہیں،جبکہ ہمارے ہاں حکومت نے عجب سوچ اپنا لی ہے بارشیں آ گئیں تو چھٹیاں ، سردی سخت ہو گئی تو چھٹیاں، سموگ کا شور اٹھا تو چھٹیاں۔ اور اب چونکہ اعلان کیا جا چکا ہے بھلے دھوپ نکل آئی ہے موسم بہترین ہو گیا ہے لیکن خبردار اگر کسی نے پڑھانے کی کوشش کی۔

حالات یہ ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پہلے ہی سال بھر پڑھائی کیلئے نہایت قلیل دن دستیاب ہوتے ہیں۔ گرمیوں کی 90 دن کی چھٹیاں، کوئی 20 کے قریب سالانہ سرکاری چھٹیاں، ہر اتوار اور اکثر  سکولوں میں ہفتہ وار دو یعنی 100 سے زائد چھٹیاں، ملک میں انتخابات ہوں مردم شماری ہو کوئی قومی مہم ہو یامختلف انتخابات ہوں اساتذہ کی ڈیوٹی کے باعث طالب علموں کا تعلیمی سلسلہ جامد، پھر سردیوں کی 15 چھٹیاں اور اب ان میں زبردستی اضافہ آخر طالب علم کب پڑھیں گے ؟ کب اپنا نصاب مکمل کریں گے ؟ بدقسمتی سے ہم نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ نہیں کی بلکہ تعلیم کو آئی سی یو میں ڈال دیا ہے جہاں ہم نے مشینوں کی بجلی کاٹ کر اسکی تالہ بندی کر دی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply