• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہمارا ثقافتی مخمصہ اور خالدہ حسین کا افسانہ” جزیرہ”۔۔ناصر عباس نیّر

ہمارا ثقافتی مخمصہ اور خالدہ حسین کا افسانہ” جزیرہ”۔۔ناصر عباس نیّر

دنیا کی تعبیر انسانی عقل ،انسانی علوم اور انسانی فنون کریں گے یا محض مذہب، گزشتہ ڈیڑھ صدی سے ہمارا سب سے بڑا ’ثقافتی مخمصہ ‘ہے۔اس مخمصے کا اظہار عام زندگی سے لے کر ادب ، ادبی بحثوں ، ہمارے خارجہ تعلقات، معاشی تصورات اور سیاست میں ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ ’ثقافتی مخمصہ ‘ ہے ،اس لیے یہ کسی ایک طبقے تک محدود نہیں،کم یا زیادہ سب اس کے زیر اثر ہیں، البتہ مختلف گروہ ، مختلف سطح اور شدت سے اس سے اثر پذیر ہوتے ہیں۔مخمصہ جس شے یا تصور سے متعلق ہوتا ہے ،اس سے دائمی ، حتمی ،کلی وابستگی قائم نہیں ہونے دیتا۔یہ ایک ایسی نفسی پیچیدہ صورت ِ حال ہے ،جس میں متعلقہ شے یا تصور معلق ہوتی ہے۔اس کے باعث خیال کی کسی ایک سمت کی طرف پر یقین پرواز محال ہوجاتی ہے۔ چنانچہ نہ تو انسانی عقل کی فضیلت کا اقرار کرنے والے ، انسانی علوم کی مقامی روایت تخلیق کر پاتے ہیں اور کسی بھی وقت اپنی عقل پرستی کا مذہبی جواز تلاش کرلیتے ہیں اور نہ مذہب کو ہر شے کی اساس ماننے والے ،انسانی عقل کو اپنی مذہبی تعبیرات میں سے خارج کر پاتے ہیں۔ایسے میں دو نتائج سامنے آتے ہیں۔ایک یہ کہ مذہب وانسانی عقل یا مذہب وجدیدیت کے تصورات ایک دوسرے کوoverlap کرتے ہیں ۔دو یہ کہ ان میں سے کسی ایک سے وابستگی رکھنے والے ، اپنی وابستگی کو ختم کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔سوم مخمصے میں گرفتار فرد کی سیاسی قلب ِ ماہیت کا امکان ہر وقت ہوتا ہے۔خالدہ حسین کے افسانے’جزیرہ ‘ کا موضوع یہی ہے۔

اس افسانے کی کہانی ایک جدید ،روشن خیال طبقے کے نوجوان جمی کی ہے جس کی قلب ِ ماہیت ایک مدرسے میں ہوتی ہے ۔ وہ چست جینز، بنا آستینوں کی جیکٹ اور گلے کی زنجیریں اتار کر ٹخنوں سے اوپر شلوار اور پنڈلیوں تک پہنچتا کُرتا پہننااور سر پر عمامہ باندھنا شروع کردیتا ہے، اور جہاد پر روانہ ہوتا ہے۔ جمی کا انجام ایک عقوبت خانے میں ، اذیت کے دن کاٹنے کی صورت ہوتا ہے جہاں وہ ’اپنوں‘ کو یاد کرتا ہے ۔افسانے میں جمی کی قلبِ ماہیت کا جو نقشہ پیش ہوا ہے ،وہ ایک فوری ، سریع جذباتی جست کی صورت دوسری انتہا پرپہنچنے کا ہے۔بجا کہ قلب ِ ماہیت فوری ہوتی ہے، مگر اس کے پس منظر میں اسباب کا سلسلہ موجودہوتا ہے۔

کیا جمی کے لاشعور میں اپنے طرز زندگی سے متعلق احساس گناہ موجود تھا اور مدرسے کے حلقہ درس میں اسی کو ابھارا گیاتھا؟

افسانے میں احساسِ گناہ کے الفاظ مذکور نہیں،مگر اشارے ضرور موجود ہیں۔وہ جب اپنی والدہ کے طرزِ زندگی پر اعتراض کرتا ہے تو اس کے پس منظرمیںsacred اورprofaneکاناقابلِ مصالحت تضاد کام کررہا ہوتا ہے۔ حلقہ درس نے صرف یہ کہا کہ اس کے یہاں تقدیس کے تصور کو اس شدت سے اجاگر کیا اس نے نہ صرف اپنے اندربلکہ باہر کی دنیا میں بھی دنیویت (profanity)کے تصورات اور مظاہر کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔ واضح رہے کہ قلب ِ ماہیت میں اس کی اوّلین جدوجہد خود اپنے خلاف تھی ۔ چوں کہ اس کی قلب ِ ماہیت ہوئی ؛ وہ عقل ، مادی دنیا، جدیدیت ، روشن خیالی ، شعرو ادب ، فنون لطیفہ کو صریح گمراہی سمجھنے لگا ،اس لیے سوال کرنا ، اپنے سوال پر اصرار کرناجیسے عناصر اس کی شخصیت سے خارج ہوگئے اور اطاعت اور ترک استدلال اس کی نجی شخصیت کی بنیادی پہچان بنے ۔ جنرل ضیا کے جہاد کے پس منظر میں لکھے گئے اس افسانے کے جمی کے لیے اپنے نوجوان ساتھیوں کے ساتھ جہاد پر روانہ ہونا ،اپنی زندگی کے عظیم مقصد کی تکمیل نظر آیا۔وہ جلد گرفتار ہوجاتے ہیں اور عقوبت خانے پہنچ جاتے ہیں۔

جمی عقوبت خانے میں یاد کرتا ہے کہ اس کی ملاقات شیخ سے ہوئی تھی اور اس نے متصوفانہ سوالات پوچھے تھے۔۔

’وجود کی ماہیت کیا ہے یا شیخ؟

یا شیخ قلب کیوں کر جاری ہوجاتاہے؟

پہلے سوال کے جواب میں شیخ کہتا ہے کہ اے عزیز وجود ایک روشن مائع ہے کہ اسے جس سانچے میں ڈالے گا وہی شکل اختیار کر لے گا مگر اپنی اصل صورت کبھی عیاں نہ کرے گا۔ اور قلب کے جاری ہونے کے سلسلے میں کہتا ہے کہ قلب کا جاری ہونا کسی ذی روح کے بس کی بات نہیں، روح کی طرح یہ بھی امر ربی ہے۔

ان جوابات کو افسانے سے ہٹ کر پڑھیں تو گہری متصوفانہ بصیرت کے حامل ہیں۔لیکن جب انھیں پورے افسانے کے تناظر میں پڑھتے ہیں تو ان کی ’سیاسی جہت‘ نمایاں ہوجاتی ہے۔ وجود ایک روشن مائع ہے، یعنی ایک بہتی روشنی ہے :یہ انسانی ہستی کی مابعد الطبیعیاتی تعبیر ہے ،جو انسان کی اصل کارشتہ اسفل کے بجائے ، افضل ترین عنصر سے جوڑتی ہے۔لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تعبیر جمی کو اپنی اب تک کی دنیا کو ترک کرنے اور ایک نئی زندگی شروع کرنے کی زبردست تحریک دیتی ہے ،اور یہ نئی زندگی جہاد ہے تو اس تعبیر کا سیاسی رخ واضح ہوجاتاہے۔یہی صورت قلب کے جاری ہونے سے متعلق جواب کی ہے۔قلب کا جاری ہونا ،یعنی قلب کی ہر دھڑکن میں ذات مطلق کا سما جانا ، کوشش سے زیادہ فیضان الہٰی ہے ۔ یہ تعبیر اپنے متصوفانہ سیا ق میں بالکل بجا ہے ،مگر جس تناظر میں جمی کو یہ جواب دیا گیا ہے ، وہ اسے بے چون وچرا شیخ کی اطاعت کا مقصد لیے ہوئے ہے، جس میں سوال ،انسانی سعی دونوں کو دبایا(supress)گیا ہے۔

یہ جوابات جمی کو ایک اور ہی دنیا میں لے گئے تھے، وہ دنیا جس کاوہ دھندلا سا تصور اپنے گھر میں کیا کرتا تھا۔ اس کی والدہ فلسفہ وشعروادب کی دلدادہ تھیں، اسے خواجہ سگ پرست کی کہانیاں سناتی تھیں ،لیکن ساتھ ہی نفل روزہ ، صدقہ وخیرات میں بھی یقین رکھتی تھیں۔ گویا اس کی والدہ سیکولر،جدید،یورپی طرز فکر کی حامل تھیں مگر مذہب سے بیگانہ نہیں تھیں۔جمی کو مدرسے کے حلقہ درس میں بتایا گیا کہ وہ ایمان کے نچلے درجے پر ہیں ،کیوں کہ وہ صرف دل سے ظلم اور جبر اور نا انصافی اور حرص و ہوس کو برا سمجھتے ہیں،انھیں میدان عمل میں قدم رکھنا ہوگا تو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ آخر آدمی ایک طرف کا ہوکر کیوں نہ رہے،یعنی مخمصے سے کیوں نہ نکلے ۔اور وہ یاد کرتا ہے کہ شیخ نے یہ بھی بتایا تھا کہ دین ہمیں پورے کا پورا طلب کرتا ہے۔ اس کے بعدوجود کے مرکز میں جو روشن نکتہ ہے ،استقامت پکڑ لیتا ہے ۔پھر اس کے بعد اپنے ایک ایک خلیہ کی نشاۃ ثانیہ شروع ہوجاتی ہے۔

تب جمی نے یہ بات سمجھی کہ وہ اور اس کی والدہ اور باقی سب دو دنیائوں میں ہیں: سیکولر، جدید ، شعر وادب اور مذہب۔ اس کی قلب ماہیت نے اس سے فیصلہ کرانے میں دیر نہیں کہ اصل چیز دین ہے اور شعر وادب اور فنون لطیفہ لہوو لعب ہیں۔گویا اس کے لاشعور میں جو الجھن غیر واضح صورت میں موجود تھی، وہ دفعتاً سلجھ گئی۔ لیکن ایک اور بات بھی توجہ طلب ہے۔جمی اگرچہ بالائی طبقے سے تعلق رکھتا ہے ، جو عموماً روشن خیال ، ادب دوست ، مغربی جدیدیت کا حامی ہے اورمتوسط ونچلے متوسط طبقے سے حقیقی فاصلہ رکھتا ہے جس کے یہاں مذہب، روایت ، جدیدیت کا انکار عمومی بات ہے ، مگریہ افسانہ بتاتا ہے کہ بالائی طبقے کا متوسط و نچلے متوسط طبقے سے فاصلہ کارگر نہیں ہوسکا۔دوسرے لفظوں میں ثقافتی مخمصے کی زد پر آئے ہوئے سماج کے مختلف گروہ ،اپنی گروہی فکری وابستگی ترک کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔

یہ افسانہ تو کئی دہائیاں پہلے لکھا گیا تھا مگر گزشتہ کچھ عرصے سے ہم اپنے ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ جدید تعلیمی اداروں کی سائنس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان ،شدت پسند گروہوں میں شامل ہورہے ہیں۔ بہ ہر کیف اپنی قلب ماہیت کے بعد جمی اپنی والدہ کو بھی یہی بات سمجھاتا ہے کہ وہ اہل صفا میں اٹھا بیٹھا کریں۔ یوں جس دنیا کا وہ دھندلا سا تصور کرتا تھا ، اب پورے کا پورا اس میں داخل ہوجاتا ہے اور جس دنیا میں اس کی تربیت ہوئی تھی اسے چھوڑنے میں اسے دقت نہیں ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پکڑے جانے کے بعد جمی کو ایک پنجرے میں قید کرلیا جاتاہے۔ اس کا استقبال اس جملے سے ہوتا ہے:’’یہ ہے تمھار اجہاد ۔اب تم ہنٹر کی زدمیں ممیاؤ گے ‘‘۔ یہاں اس کی عظیم ترین مقصد سے وابستہ توقعات ، ریت کی دیوار کی صورت بکھر جاتی ہیں۔اس نے ایک اسفل زندگی ‘کو ترک کرکے ایک افضل زندگی کا انتخاب کیا تھا ، مگر انجام اسفل ترین سطح پر جینے کی صورت ہوا۔
(زیر طبع کتاب “جدیدیت اور نو آبادیات ” سے اقتباس )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply