• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یورپین سرمایہ دارانہ جمہوریت پاکستان میں پنپ سکتی ہے؟۔۔یاسر ارشاد

یورپین سرمایہ دارانہ جمہوریت پاکستان میں پنپ سکتی ہے؟۔۔یاسر ارشاد

کیا  یورپ کی طرز کی سرمایہ دارانہ جمہوریت پاکستان میں پنپ سکتی ہے ؟
ٹھوس سائنسی بنیاد پر اس سوال کا جواب تلاش کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج جمہوریت ، سول سپرمیسی اور آئین و قانون کی دو عدد ٹھیکیدار جماعتیں ن لیگ اور پی پی پی اسٹیبلشمٹ کے سامنے مکمل طور سجدہ ریز ہوئیں اور ان کے حامیوں کے پاس مخالفین اور عام عوام کے اٹھاۓ ہوۓ سوالوں کے کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔
یورپ میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کوئی آسمان سے نازل نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اس کے ارتقاء کو یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی ارتقاء سے کاٹ کر سمجھا جا سکتا ہے۔۔ یورپ میں جاگیردار اشرافیہ اور چرچ کے اقتدار کے خلاف سرمایہ دار طبقہ عام عوام ، مزدوروں اور کسانوں سے مل کر بغاوت کر کے جب سرمایہ دار ریاستیں قائم کرتا ہے تو ان ریاستوں کو اپنے ادا شدہ ٹیکسوں سے سینچتا ہے۔ محنت کشوں کی لمبی جدوجہد اور بغاوتوں کے نتیجے میں مزدور تحریک کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے کچھ مطالبات تسلیم کیے جاتے ہیں، جن میں پہلے ہر بالغ مرد اور بعد میں ہر بالغ خاتون کو بھی ووٹ کا حق ملتا ہےـ.

اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام ہندوستان میں کسی انقلاب فرانس کے نتیجے میں نہیں آیا تھا بلکہ انگریز راج کے مفادات کے ماتحت ایک نوآبادیاتی طرز کا سرمایہ دارانہ نظام تھوپا گیا تھا۔ نام نہاد آزادی کے بعد جب پاکستان کے سرمایہ دار طبقہ کو تاریخ کے میدان میں اترنے کا موقع ملا, تو انھیں اندازہ ہوا کہ وہ تکنیک (technology) اور سرماۓ کی طاقت کے حوالے سے مغربی ممالک کے سرمایہ داروں سے بہت پیچھے ہیں ,چنانچہ مغربی سرمایہ داروں اور سامراج کا گماشتہ بننا اور ملکی منڈی کے استحصال میں ان کا کمیشن ایجنٹ بننا ، ان سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی نسبت آسان بھی تھا اور زیادہ منافع بخش بھی ۔۔انھیں فوری طور پر ادراک ہو گیا تھا کہ انھیں مولوی اور بڑے زمینداروں سے لڑنا نہیں چاہیے بلکہ ان سے ایک مقدس اتحاد بنانا چاہیے تاکہ سوشلسٹ مزدور تحریک پر قابو پایا جا سکے اور عوام کو کنٹرول میں رکھا جا سکے ۔۔ساتھ میں ان کو یہ بھی پتہ تھا کہ نوزائیدہ ریاست کو کنٹرول کرنا، نہ ان کے طبقے کے بس میں ہے اور نہ ہی ان کی نمائندہ سیاسی جماعت مسلم لیگ کی اتنی حیثیت ہے ۔ چنانچہ یہاں کے سرمایہ داروں نے پہلے سول بیوروکریسی اور بعد میں عسکری اعلیٰ  قیادت کے ریاستی معاملات کو کنٹرول کرنے کے عمل کی زبردست حمایت کی۔۔ اس حمایت کے بدلے میں ان کو ریاستی وسائل کو لوٹ کر اپنی مالیاتی پوزیشن کو مستحکم کرنے کا موقع بھی ملا۔۔ مثال کے طور پر آزادی کے بعد Pakistan industrial (PIDC ) development corporation نام کا ادارہ بنایا گیا جو عوام کے ٹیکسوں اور سرکاری خزانے کی رقم خرچ کر کے صنعتیں لگاتا تھا اور پھر یہ صنعتیں کوڑیوں کے دام یا قریب قریب مفت میں سرمایہ داروں کو دے دی جاتی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں یورپ کے برخلاف جدھر سرمایہ داروں نے اپنے ٹیکس کی رقم سے اپنی ریاستوں کی تعمیر کی ، پاکستان کے سرمایہ داروں کی ابتدا ہی ریاستی وسائل کی لوٹ مار کر کے مالیاتی طور پر مستحکم ہونے سے ہوئی۔۔دھیرے دھیرے لوٹ مار اور چوری ڈکیتی کا یہ رجحان مضبوط ہوتا گیا اور راستے میں حائل ہونے والے عام اخلاقی اصول چھوڑیے خود سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی کچل دیا گیا۔۔

مسلم لیگ ن پاکستان کے گماشتہ سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ کرپٹ سیاسی جماعت ہے ۔ اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کسی اصول کے تحت اسٹیبلشمٹ سے لڑائی لڑے گی ،ایک بیوقوفانہ خیال تھا۔۔ اسی طرح مزدوروں کسانوں کی نام لیوا ایک اور جماعت جو درحقیقت وڈیروں ،پیروں اور جاگیرداروں کی پسندیدہ جماعت ہے ،کا بھی اسٹیبلشمنٹ کے آگے سجدہ ریز ہونا لازم تھا۔۔ جس طبقہ کے مفادات کی نگہبانی یہ جماعتیں کرتی ہیں ، کیا وہ طبقہ کسی قسم کی سیاسی جدوجہد یا کسی اعلی ٰ اخلاقی اصول میں یقین رکھتا ہے ؟؟ ہرگز نہیں۔۔۔ کیا یہ سچ نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ ان گماشتہ سرمایہ داروں کو محنت کش عوام کے سیاسی طور پر جاگ جانے اور باشعور ہو جانے سے ڈر لگتا ہے ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ محنت کش عوام کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے اور ان کی کسی حقیقی نمائندہ قیادت کو ابھرنے سے روکنے کے لیے مزدور اورطلبہ یونینز پر پابندی پر حکمران طبقہ کی تمام جماعتوں کے مابین خفیہ اور اعلانیہ اتفاق راۓ پایا جاتا ہے ۔۔حالانکہ یہ تو خود ایک صحت مند سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بنیادی ادارے ہوتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے عہد میں جب خود مغربی لبرل جمہوریتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ،پاکستان میں کسی بھی نام نہاد مین سٹریم پارٹی سے خالص سرمایہ دارانہ جمہوریت کے لیے سنجیدہ جدوجہد کی توقع اور اس ملک میں یورپ جیسی جمہوریت کی آس دلانا، جھوٹے کاذب اور مکار لبرل دانشوروں کی دھوکہ بازی کے سوا کچھ نہیں ۔

آج نا صرف عالمی سطح پر بلکہ پاکستان میں بھی محنت کش عوام کے پاس سماج کو آگے بڑھانے اور سرمایہ دارانہ استحصال سے نجات کا واحد راستہ سرمایہ دارانہ نظام سے بغاوت کرتے ہوۓ سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کے سوا کچھ نہیں بچا۔ دیگر تمام راستے دھوکے اور فراڈ کے سوا کچھ نہیں، جن پر چلنے کا نتیجہ ہمیشہ پہلے سےزیادہ تنزلی ، غربت ، بھوک ، محرومی اور پستی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply