پاکستان کے قرضے اور انصافی حکومت۔۔عامر کاکازئی

(اس تحریر کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ اس سال، سو فیصد حاصل شدہ ٹیکس، قرض کی ادائیگی میں چلا جاۓ گا۔ تو دفاع، ترقیاتی منصوبوں، پنشن ، تنخواہ ، صوبوں کا حصہ کہاں سے پورا ہو گا؟ جواب ہے “قرض” )

دی نیوز اخبار میں مہتاب حیدر صاحب نے پاکستانی قرضوں پر ایک رپورٹ لکھی ہے۔ جس کا لب ِ لباب کچھ اس طرح سے ہے۔

پاکستان کا حاصل شدہ ٹیکس رواں مالی سال 2021-22 کے دوران صرف قرض کی مد کو پورا کرے گا لہذا ملک کے دفاع، ترقی، سبسڈیز، سول حکومت کو چلانے سمیت وفاقی حکومت کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی “مہنگے ادھار” کی رقم سے ادا کی جائے گی۔

آسان الفاظ میں اگر بیان کریں تو 100 روپے کی کُل خالص آمدنی میں سے، وفاقی حکومت نے قرض کی ادائیگی کے لیے تقریباً 85 روپے ادا کیے ہیں جب کہ انڈیا کی مرکزی حکومت نے گزشتہ مالی سال یعنی 2020-21 میں 51 روپے اور بنگلہ دیش نے 20 روپے خرچ کیے ۔

مالیاتی صورتحال مزید خراب ہونے والی ہے، اس صورت حال کے بارے میں معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا ہے کہ ٹیکس کی موصول شدہ رقم صرف 30 جون 2022 کو ختم ہونے والے رواں مالی سال کے دوران قرضے کی ادائیگی میں خرچ ہو  گی، جبکہ باقی تمام اخراجات بشمول ملک کے تمام اخراجات دفاعی ضروریات کو “قرض” کی رقم سے پورا کیا جائے گا۔

گزشتہ مالی سال 2020-21 میں ایف بی آر نے 4,764 ارب روپے جمع کیے اور اس کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 2,741 ارب روپے کا حصہ دیا گیا، خالص محصولات کی وصولیاں 2,023 ارب روپے رہیں۔ نان ٹیکس ریونیو کی وصولی سے 1480 ارب روپے حاصل ہوئے جس سے وفاقی حکومت کی وصولیاں 3503 ارب روپے تک پہنچ گئیں۔ قرض کی مد میں 2749 ارب روپے خرچ ہوئے اور وفاقی حکومت کے پاس صرف 754 ارب روپے رہ گئے۔

باقی تمام اہم اخراجات جیسے کہ ملک کا دفاع، ترقی، سبسڈی کی فراہمی اور حکومت چلانے بشمول تنخواہوں اور پنشن کے بل ،مہنگے قرضوں کی رقم سے ادا کیے گئے۔ دفاعی اخراجات میں 1316.418 ارب روپے، وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام 441 ارب روپے، سول حکومت چلانے کے لیے 505 ارب روپے، پنشن بل 440 ارب روپے، سبسڈیز 425 ارب روپے اور دیگر کو 827.3 ارب روپے کی گرانٹس دی گئیں۔

حکومت وقت نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے جی ڈی پی کے 7.1 فیصد کے برابر 3,403 ارب روپے کا قرضہ ابھی تک لیا ہے۔
ملک کے کل قرضے اور واجبات 21 ستمبر 2021 تک 50.5 ٹریلین روپے سے زیادہ ہو گئے  ہیں، جبکہ تقریباً تین سال قبل جب پی ٹی آئی حکومت میں آئی تو قرضے 29.8 ٹریلین روپے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری قرضوں اور واجبات میں خالص اضافہ تیزی سے تقریباً 21 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا، جو قرضہ تین سال کی مدت میں حاصل کیا گیا وہ ستر سال کی مدت میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔

بیرونی قرضے اور واجبات 2017-18 میں 95 بلین ڈالر سے بڑھ کر 30 ستمبر 2021 تک 127 بلین ڈالر ہو گئے۔ صرف پچھلے تین سالوں اور تین ماہ کی مدت میں بیرونی قرضوں اور واجبات میں 32 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ اے پاشا کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ حاصل شدہ ٹیکس صرف قرض کی مد میں بڑے اخراجات کو پورا کر رہی ہیں۔

سابق اقتصادی مشیر اور معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ حکومت کو قرض کی مد میں ادائیگی کے لیے 53 ارب روپے کا قرض لینا پڑا۔ باقی تمام اخراجات ادھار کی رقم سے پورے کیے گئے۔

گزشتہ مالی سال 2020-21 میں خالص محصولات 100 فیصد ڈیٹ سروسنگ بل اور 59 فیصد دفاعی ضروریات پوری کر سکیں۔ باقی تمام اخراجات ادھار کی رقم سے پورے کیے گئے۔رواں مالی سال کے لیے ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ مالیاتی پوزیشن اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے تحاشا  قدر میں کمی اور رعایتی شرح  میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے جمع شدہ ٹیکس سو فیصد قرض کی ادائگی میں خرچ ہوں گے۔ جبکہ قرض دفاع، سبسڈیز، پی ایس ڈی پی اور سول حکومت کو چلانے کے لیے لیا جائے  گا۔

(تحریر کی دم یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دفاع کے اخراجات بھی قرض کی رقم سے پورے کیے گئے  ہیں۔ سوال ان سے بنتا ہے جن کے لیے یہ قرضہ لیا گیا کہ “ہن آرام ہے” یا ابھی بھی کسی اور ایڈونچر کرنے کے موڈ میں ہیں؟)
پوسٹ سکرپٹ

Advertisements
julia rana solicitors

خبر ہے کہ پاکستان کو سعودی قرضہ چار فیصد کی مہنگی شرح سود پر ملا ہے، اگرسعودی حکومت کو ضرورت ہو گی تو 72 گھنٹوں کے نوٹس پر واپس کرنا ہوگا۔ واپسی ایک سال بعد یکمشت ہوگی۔ پاکستان  آئی ایم ایف کا ممبر نہیں رہتا تب بھی واپس کرنا ہوگا، کسی انٹرنیشنل ادائیگی میں ناکام رہنے پر بھی 72 گھنٹوں میں واپس کرنا ہوگا۔ ورنہ سعودی حکومت پاکستان کو بینک کرپٹ قرار دے دے گی۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply