تربیت اولاد(حصّہ اوّل)۔۔محمد ذیشان بٹ

حدیث ِرسول ﷺ ہے “کسی باپ کی طرف سے اس کے بیٹے کے لئے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے۔ “انسان ہونا سب سے بڑا شرف ہے ۔  صاحب ِ ایمان ہونے کے بعد رب کی نعمتوں میں بڑی نعمت صاحب اولاد ہونا ہے ۔  اس نعمت کی قدر ان سے پوچھو جو اس سے محروم ہیں  ۔  اس سلسلے میں ہمارے پا جی سر ادریس کا تبصرہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جب وہ بے اولاد تھے تو رب سے کہا کرتے تھے کہ مولا اولاد نہیں دینی تو  نہ دے  ، کسی ایسے جزیرے پر بھیج دے جہاں سب ہی  بے اولاد ہوں  ،کوئی کسی سے یہ سوال نہ پوچھے ۔   ہر نعمت ہونے کے باوجود انسان کو نا مکمل ہونے کا احساس رہتا ہے ۔  اس کے برعکس زیادہ طبقہ وہ ہے جس کو بغیر مانگے ہی اولاد کی نعمت مل جاتی ہے اس لیے وہ اس کی قدر بھی نہیں کر پاتے اور زیادہ توجہ ان کی مادی ضروریات پوری کرنے کی طرف رکھتے ہیں۔

اس  میں سب سے بڑی غلطی یا بے پرواہی اپنی اولاد کو وقت نہ دینا ہے۔ یقین مانیے  اپنی اولاد کی سب سے پسندیدہ شخصیت آپ خود ہوتے ہیں ۔  اگر بچے  نے دوست بنانا ہے یا عادات کو اپنا نا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے والدین کی طرف دیکھتاہے، لیکن آپ کی بے رخی ان کو دوسرے لوگوں کی طرف راغب کرتی ہے، اکثر سادہ لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہمارا بچہ تو ایسا نہیں تھا  ،دوستوں نے اس کو خراب کر دیا۔  آپ خود کیوں اپنے بچے کے دوست نہیں بنتے ؟۔  والدین کو  بچوں کے ساتھ اتنا تعلق تو رکھنا چاہیے کہ وہ دن بھر میں ہونے والے تمام اہم واقعات کو بغیر کسی جھجک کے اپنے والدین کو بتا سکے۔

دوسری بڑی غلطی یہ ابتداء میں بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دینا۔ صرف کسی بڑے  سکول یا  اکیڈمی میں داخل کروا دینا کافی نہیں ، جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو مزید سختی کرنے سے معاملات خراب ہوتے ہیں اس کے علاوہ زیادہ تر بچے جو تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے ان کے پاس کوئی مقصد نہیں ہوتا یا والدین کی جانب سے اپنی خواہشات کا  ان پر لازم کرنا ،اب ایک بچہ ناظرہ قرآن بھی ٹھیک نہیں پڑھ پاتا تو اس سے حافظِ  قرآن کا مطالبہ کردیا جاتا ہے ۔ اس لیے شروع سے بچوں کی تعلیم پر توجہ دیں اور ان کے رجحان کے مطابق ان کو تعلیم دلوائیں۔

تیسری بڑی اور اہم غلطی یا بے پروائی برتنا ہے۔ صرف تعلیم پر زور دیا جاتا ہے  جبکہ تربیت کا فقدان  ہوتا ہے۔  جیسا کہ پہلے بھی کہا  کہ آپ اپنے بچے کے آئیڈیل ہیں اس لئے جو اصول اپنے بچے میں کل چاہتے ہیں ان کو آج خود اپنائیں ،بغیر کسی وعظ و تقریر کے آپ کے بچے ویسے ہی روپ میں ڈھل جائیں گے۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ  لوگوں کی  عزت کرے ، غیرت مند ہو ، نمازی  ہو ، سچ بولے ، ایماندار ہو غیرہ تو آج ان سب باتوں کوخود  اپنائیں۔

ہمارے  بڑوں کے پاس تعلیم نہیں تھی، مگر ان کے بڑوں نے ان کی بہترین تربیت ضرور کی تھی۔ بڑے بڑے اصول بغیر سکول کالج گئے ہمارے بڑوں کی زندگی کا حصہ تھے، جبکہ آج ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف ہےکیونکہ والدین بچوں کو جو سکھانا چاہتے ہیں عملی طور پر اُسے اپنانے کی بجائے زبانی کلامی بتانے سے ہی  سب بچے میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔

ایک دانا کا قول ہے، کہ بچوں کے لیے بہتر دنیا چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے دنیا کے لئے بہتر انسان  چھوڑ کر جائیں۔

عربی کے چند کلمات کے ساتھ اس سلسلے وار موضوع کو یہاں ختم کرتا ہوں

اپنے بچوں کے قریب رہا کرو، ان سے مشورہ کیا کرو ، ان سے تبادلہ خیال کیا کرو،ان کے  دل جیت لو ،اس سے قبل کہ آپ ان کو ہمیشہ کے لئے کھو دو۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

محمد ذیشان بٹ
I am M. Zeeshan butt Educationist from Rawalpindi writing is my passion Ii am a observe writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply