• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مذہب کے نام پر درندگی اور سفاکیت کا سدِّباب کیسے ہوگا۔۔سیّد عمران علی

مذہب کے نام پر درندگی اور سفاکیت کا سدِّباب کیسے ہوگا۔۔سیّد عمران علی

مذہب کے نام پر درندگی اور سفاکیت کا سدِّباب کیسے ہوگا۔۔سیّد عمران علی/مملکتِ خداداد پاکستان کا وجود بے شک دین ِ اسلام کے نام پر آیا تھا، مگر شاید ہم نے اسلام کی اقدار کو فراموش کردیا ہے،اسلامی کی بنیادی تعلیمات میں سب سے اہم رواداری اور بھائی چارہ ہے،انسانی جان کی جو حرمت اس دین اسلام میں ہے وہ شاید ہی کسی اور مذہب میں ہوگی،

جس نے کسی ایک انسان کی جان   بچائی  گویا   اس نے پوری انسانیت کو بچایا 
انسان تو انسان، مذہب اسلام میں تو حیوانات اور چرند پرند تک کی جان کو مقدم قرار دیا گیا ہے, اور ان کو شکار تک کرنے کے اصول و ضوابط وضع کیے ہوئے ہیں،اسلام کو بطور مذہب یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اس میں قائم کردہ نظام ِ عدل سب کے لیے یکساں طور پر قابل ِ عمل ہے، اس نظام میں سزا و جزاء کا اولین مقصد اور ترجیح انسان اور معاشرے کا  بہترین مفاد اور فلاح ہے،اسی بناء پر دین اسلام کو دین فطرت کہا جاتا ہے۔

ہمارے پیارے آقا ﷺ نے  اپنے اعلیٰ ترین اخلاق کا ایسا عملی نمونہ پیش کیا کہ، مسلمین تو مسلمین، غیر مذہب اور کفار بھی آپ کے گرویدہ تھے۔
آپ نے فرمایا کہ ” مجھے تمہارے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا”
آقا کریم ﷺ جب طائف کے لوگوں دین کی دعوت دے رہے تھے تو، طائف کے لوگوں نے آپ پر اس قدر پتھر برسائے کہ آپ کو لہولہان کردیا،آپﷺ  چاہتے تو بدعا دے کر ان کو نیست و نابود کر دیتے، مگر آپ رحمت للعالمینﷺ  تھے ۔آپ نے اپنے ان دشمنوں کے حق  میں  دعا فرمائی کہ پروردگار ان کو میری آشنائی عطا  فرما ۔

دین اسلام کی سب سے  عظیم فتح  وہ تھی جب آقا ﷺ نے مکہ معظمہ کو فتح فرمایا، یہ کیا ہی عظیم فتح تھی کہ  جس فاتح نے عام معافی کا اعلان فرمایا، ہر ایک دشمن کو معاف فرمایا،اس فتح نے پوری دنیا میں دین اسلام کو منور کردیا، جس کی بدولت اسلام دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا،اسلام میں فتنہ کو قتل سے زیادہ مکروہ قرار دیا گیا ہے،اسلام محبت، یگانگت اور امن کا مظہر ٹھہرا، لیکن جیسا کہ تمام. مذاہب میں اچھے بُرے لوگ موجود ہوتے ہیں،ﷲ کے اس پسندیدہ دین کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا کہ چند ایک لوگ جن کی شرپسند طبیعت  سے ان ذاتی افعال کی بنیاد پر دین کے نام کو بیحد نقصان پہنچا۔پوری دنیا میں چند نام نہاد مسلمان متحارب گروپس نے دہشتگردی کو اسلام کے نام سے جوڑنے کی بھرپور سازش  اور کوشش کی۔

گزشتہ چند دہائیوں میں تو داڑھی جیسی پاک چیز مشکوک ہو گئی اور پوری دنیا میں اسلامو فوبیا کے نظریات فروغ پانے لگے، جس کا سب سے زیادہ نقصان خود امت مسلمہ کو اٹھانا پڑا، اسلامو فوبیا کی آڑ میں نیوزی لینڈ میں مسجد میں موجود نمازیوں پر نیوزی لینڈ کے باشندے نہیں گولیاں برسا کر 50 کے قریب نمازیوں کو شہید کیا گیا،اسی طرح کینیڈا میں مقیم ایک پاکستانی فیملی پر حملہ آور نے اپنی گاڑی چڑھا دی اور ان کو شہید کردیا،پاکستان    اس مذہبی شدت پسندی اور بد ترین دہشت گردی کا نشانہ بنا۔

ہم نے اس شدت پسندی کے ناقابل تلافی نقصانات اٹھائے اور تقریباً 50 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی قیمتی جانیں گنوا دیں،اس وقت ملک میں ایک نہایت حساس مذہبی نوعیت کا معاملہ ناموس رسالت، اصحاب و اہلِ بیت کا ہے،بے شک عشقِ  نبی و مقدسات ہر مسلمان کے لیے اولین حیثیت کے حامل ہیں ، مگر سب سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ ہم جن ہستیوں سے اپنی وابستگی اور عشق کا  دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں، کیا ہم ان کے حقیقی پیروکار بھی ہیں؟کیا ہم نے ان ہستیوں کی حیات طیبہ کو اپنے لیے مشعل راہ بھی بنایا ؟

تو جواب نفی میں ہی آئے گا۔۔

اس کے بر عکس ہم میں وہ تمام نقائص نظر آجائیں گے کہ جن کی ممانعت دین  نے فرمائی ہے،پاکستان میں ناموسِ  رسالت کے حوالے سے مکمل قوانین موجود ہیں جو کہ اس جرم کے حوالے سے جزا و سزا کا تعین کرتے ہیں،مگر اسی اہم اور حساس معاملے کا استعمال ہمارے ہاں اپنے ذاتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔

حال ہی میں 4 دسمبر 2021 کو ایک بار پھر ایسا ہی ہوا کہ جب چند مفاد پرست، گھٹیا ذہنیت کے حامل لوگوں نے سیالکوٹ کی ایک نجی فیکٹری میں بطور فیکٹری منیجر کام کرنے والے 48 سالہ سری لنکن شہری پریانتھا کمارا پر  گستاخی کا الزام لگا کر نہ صرف بدترین تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اس کا بہیمانہ قتل کرکے اس کی لاش کی بھی پامالی کرنے کے بعد اس کو نذر آتش کر کے ظلم و جبر کی تمام حدیں عبور کردیں اورساتھ کے ساتھ، ریاست اور ریاستی اداروں کو بھی چیلنج کیا۔

کیا ستم ہے کہ اک مسافر کی
لاش نہیں راکھ بھیجی جائے

جب اس واقعہ کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آئی  تو پتہ چلا کہ معاملہ ناموس رسالت  کا نہیں بلکہ ذاتی عناد کا تھا،یہ منیجر اپنا کام پوری ایمانداری اور دیانتداری سے کرتا تھا، قواعد و ضوابط کا پابند تھا، اور اسی وجہ سے اس نے کچھ لوگوں کو نوکری سے برخاست بھی کیا، جس کی وجہ سے وہ لوگ اس سے نالاں تھے اوراسی بات کا بدلہ لینے کے لیے چند شر پسندوں نے اس قدر بدترین اقدام اٹھایا کہ جس سے نہ صرف ملکی وقار کو نقصان پہنچا بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی ساکھ بھی متاثر ہوئی،سری لنکا ہمارا پرانا اور بھروسہ مند دوست  ملک  ہے، جس نے  ہمارے ملک کے باسیوں کو  ہزاروں  آنکھوں کے عطیات بھیجے۔

اس واقعہ کی وجہ سے وہاں کی فضا  بہت سوگوار ہے، ان کے صدر نے پاکستانی اداروں اور عدلیہ پر مکمّل اعتماد ظاہر کیا، اور کہا کہ مجھے یقین ہے کہ واقعہ کے ذمہ داروں کو کڑی سے کڑی سزا ملے گی،اس واقعہ کے رونماء ہونے کے فوراً بعد ریاستی اداروں پولیس، سکیورٹی ایجنسیز اور دیگر متعلقہ اداروں نے فی الفور ایکشن لیا اور اس واقعے میں ملوث 100 سے زائد ذمہ داروں کو اپنی گرفت میں لے کر حسب ضابطہ کارروائی شروع کردی  ، امید واثق ہے کہ ان وحشی درندوں کو بد ترین اور قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر دوسری طرف یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا  اس طرح کے لوگوں کو مذہب کے نام پر درندگی کرنے کی کھلی اجازت ہے؟  کیا ان جیسے لوگوں سے  آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کی جانی چاہیے کہ نہیں؟
ہم کچھ بھی کہہ لیں مگر یہ بات طے ہے کہ معاشرے میں ایک عجیب سی غیر یقینی صورتحال موجود ہے، کہیں نہ کہیں یہ دھڑکا موجود ہے کہیں ہم میں سے کوئی بھی  کسی کی شدت پسندی کا شکار نہ ہوجائے،ہمیں بحیثیت معاشرہ اپنا از سر نو جائزہ لینا ہوگا اور عدم برداشت کے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ آئندہ کوئی بھی معصوم کسی کی جنونیت کے نشانے پر نہ آنے پائے۔
اسلام مکمّل ضابطہ حیات ہے،لیکن آج کے اس دور کا مسلمان کہیں نہ کہیں راہِ  حق سے بھٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ہمیں بحیثیت مسلمان اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا،ریاست اور عدلیہ کو اس قسم کے واقعات کی روک تھام کرنے کے لئے مستقل بنیادوں پر ٹھوس اقدامات اٹھانے پڑیں گے، تاکہ پاکستان کے وقار اور سالمیت کو   ٹھیس پہنچانے کی کوشش نہ  کی جائے۔
پروردگار عالم ارض ِ وطن کو فتنہ اور فساد پھیلانے والوں کے شر سے محفوظ رکھے، آمین

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply