انسانم آرزوست مصنف ڈاکٹر محمد امین/مرتب سخاوت حسین(مجلس10)

آج کی مجلس میں ابن الحکم نے بھی شرکت کی۔جو ابوالحسن کا پرانا شاگرد تھا۔ابن الحکم ایک طویل عرصے کے بعد مغرب کے سفر سے لوٹا تھا۔
ابن الحکم کیا حال ہے؟
ابوالحسن میں نے ہر جا انسان کو پریشان، ملول اور اداس دیکھا ہے۔یہ کیا ترقی ہے کہ اسے اطمینان حاصل نہیں۔اور دوسروں کے درپئے آزار ہے۔
مسافر نے کہا، ابوالحسن رات ابن الحکم نے ایسی ایسی کہانیاں سنائی ہیں کہ دل ڈر ڈر جاتا ہے۔ابن الحکم کہتا ہے۔کہ یہ سب عام باتیں ہیں۔مسافر بیٹھ جا۔ابن الحکم سن اور یاد رکھ کہ اخلاق حالات کے تابع ہے، علم کے نہیں۔آج کا انسان خیر و شر کے التباس میں مبتلا ہے۔جاننا علم کے برابر نہیں۔وہ جانتا ہے کہ خیر کیا ہے۔مگر شر پر مجبور ہے۔ابن الحکم اپنے نفس کے شر سے بچ کہ آج کے دور کا سب سے بڑا فتنہ یہی ہے۔ہم سب اپنے اپنے نفس کے شر کے اسیر ہیں۔یاد رکھ غرور و تکبر انسان کی صلاحیتوں کو کھا جاتے ہیں۔دیکھ اگر خوشی اطمینان حاصل نہیں۔تو دولت اور ترقی کا کیا فائدہ۔دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کر۔ان کے کاموں میں مشکلات نہ پیدا کر۔ہم سب بیمار ہیں۔کہ دوسروں کو ستانے میں لطف لیتے ہیں۔اور اس کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔یہی شرنفس ہے۔
ابن الحکم نے پوچھا، ابوالحسن، ہر طرف قتل وغارت ہے۔ابن الحکم دیکھ، انسان ظالم اور جاہل ہے۔ریاست اپنی حدود سے تجاوز کر گئی ہے۔ریاستی ادارے ریاست پر حاوی ہو گئے ہیں۔اب جمہوریت اکثریت کی نہیں۔اقلیت کی حکمرانی ہے۔انسان طاقت ور رہنا چاہتا ہے۔حالانکہ وہ کمزور پیدا کیا گیا ہے۔طاقت کا استعمال تو دفاع کے لئے ہوتا ہے۔یا اس برائی کو روکنے کے لئے جس کا آغاز ہو چکا ہے۔اور پھیلنے کا اندیشہ ہے۔سیاست کو اخلاق کے تابع ہونا چاہیئے۔ابن الحکم دیکھ علم کا غلط استعمال حکمت کے منافی ہے۔اور یہی فساد کی جڑ ہے۔
یہاں مجلس برخاست ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply