• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • 1857ء کے فسادات کو جنگِ آزادی کہنا کیوں درست ہے؟۔۔حافظ صفوان محمد

1857ء کے فسادات کو جنگِ آزادی کہنا کیوں درست ہے؟۔۔حافظ صفوان محمد

ہندوستانیوں نے انگریز کے ظلم و ستم کو، زمین جائیدادیں چھینی جانے کو اور معاشی بدحالی کو برداشت کیا لیکن جب انگریز نے ان کے مذہبوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کی تو وہ بپھر گئے۔ چنانچہ مذہبی جذبات مجروح کرنے کی پاداش میں دس مئی 1857ء کو دیسی فوج میں بغاوت ہوگئی جس کی خبر پھیلتے ہی جگہ جگہ فسادات پھوٹ پڑے جو بالآخر دہلی کے بادشاہ کی معزولی اور انگریز کا مکمل اقتدار قائم ہونے کی صورت میں اختتام کو پہنچے۔

واضح رہے کہ یہ فسادات اگرچہ مذہبی جذبات میں اشتعال کی وجہ سے ہوئے لیکن یہ مذہبی فسادات نہ تھے چنانچہ یہ قتل و غارت خانہ جنگی بالکل نہ تھی۔ بدامنی کے اِس سارے دور میں پورے ہندوستان میں کسی عبادت گاہ کا تقدس پامال نہیں کیا گیا اور انگریز کے خلاف لڑنے والے تمام لوگ ہندوستانی ہونے کی وجہ سے لڑے۔ جن دیسی لوگوں نے ان لڑائیوں کو مذہبی ایندھن فراہم کرنا چاہا ان کی مذموم کوششیں ناکام رہیں۔ کسی انگریز کو مارا گیا تو اس کی وجہ اس کا مذہب نہ تھی بلکہ سفید آدمی ہونا تھا۔ البتہ انگریز نے بہت سے مسلمانوں کو صرف مذہب کی وجہ سے مارا اور مثالی درد ناک سزائیں دیں۔ کوئی ایسا شخص جس نے آزادی کی جد و جہد میں مسلح حصہ لینا تو دور کی بات، محض اس کا ارادہ بھی کیا ہو وہ بچ نہیں سکا۔ انگریز کے چتکپڑیے (خفیہ والے) نہایت مضبوط کام کرتے تھے۔ آج اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے فلاں فلاں نے انگریز کے خلاف جہاد کیا اور وہ شخص ہندوستان کی سرزمین پہ محض زندہ ہی رہا، تو یہ سفید جھوٹ ہے۔ یکم نومبر 1858ء کو ملکہ وکٹوریہ نے جان بخشی کا اعلان جن لوگوں کے لیے کرایا وہ ایسے ہر دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

اُس دور میں جن سورماؤں نے اپنے اپنے علاقوں میں انگریز کے اپنا اقتدار قائم کرنے کی کوشش کی مسلح مزاحمت کی ان میں رائے احمد خاں کھرل شہید بھی شامل ہیں۔ 16 تا 21 ستمبر 1857ء کے درمیان گھمسان کی لڑائیاں ہوئیں لیکن 21 ستمبر کو دوپہر کے وقت مخبری ہونے پر لارڈ برکلے نے اپنی فوج کے ایک دستے کے ساتھ چھاپہ مار کر رائے احمد کھرل اور اُن کے چند ساتھیوں کو گولیوں کی بوچھاڑ سے بھون دیا۔ برکلے رائے احمد کھرل کا سر اتار کر اپنے ساتھ لے گیا اور اِس فتح کی خوشی میں انگریز فوج نے ساندل بار علاقے کو لوٹا اور بہت سے دیہات کو آگ لگا دی۔

رائے احمد کھرل کا قصور یہ تھا کہ اس نے انگریز کی مدد کرنے سے انکار کیا تھا، اور گوگیرہ بنگلہ کی جیل پر حملہ کرکے ساہیوال ڈویژن کے ان سیکڑوں کسانوں کو آزاد کرایا تھا جو انگریز کو پیداواری لگان نہ دے سکنے کی وجہ سے جیل میں بند تھے۔ نیز اُس نے گشکوری کی جنگ میں انگریزی فوج کا بہت نقصان کیا تھا۔

رائے احمد کھرل کی مسلح مزاحمت انگریز کے پنجاب پر قبضہ مکمل ہونے سے کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہی۔ کارل مارکس نے اس مزاحمت کے بارے میں باقاعدہ لکھا:
“Another danger had emerged for the British in Punjab because the communicative route between Lahore to Multan had been stopped for the last eight days.”

بالآخر انگریز پنجاب میں رنجیت سنگھ کا اقتدار ختم کرنے میں کامیاب ہوا اور پورا ہندوستان تاجِ برطانیہ کے زیرِ نگیں آگیا۔ مسلمانوں پر چھائی 90 سالہ غلامی کی یہ سیاہ رات 14 اگست 1947ء کو ختم ہوئی جب قائدِ اعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

1857ء کے فسادات کو جنگِ آزادی صرف اسی لیے کہا جانا درست ہے کہ اِس میں رائے احمد خاں کھرل جیسے زمین زادوں نے سفاک انگریز کے وجود سے اپنی سرزمین کو پاک کرنے کی مسلح جد و جہد میں جان جاں آفریں کے سپرد کی اور نواب عبد الرحمٰن خاں اور راجہ ناہر سنگھ جیسے لوگ اپنی راجدھانیاں قربان کرکے پھانسی پر جھول گئے۔ میں ابھی تک اس سند کی تلاش میں ہوں کہ 1857ء کے فسادات کو جنگِ آزادی سب سے پہلے کس نے لکھا اور کہاں لکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج رائے احمد خاں کھرل کا یومِ شہادت ہے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply