• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انقلاب ایران: “اٹھا ہوں آنکھوں میں اک خواب ناتمام لیے”( قسط سوم).. ڈاکٹر طاہر منصور قاضی

انقلاب ایران: “اٹھا ہوں آنکھوں میں اک خواب ناتمام لیے”( قسط سوم).. ڈاکٹر طاہر منصور قاضی

ایران کے تناظر میں انقلاب کے چند بنیادی مباحث:

اس وقت ہمارا بنیادی موضوع انقلاب اور انقلاب لانے والی وجوہات پہ نظر کرنا ہے۔ معاشرتی ناہمواری انقلاب کی جڑوں میں ہوتی ہے۔معاشرتی ناہمواری انقلابی کیفیات پیدا کرنے والا ایک بنیادی عنصر ہے مگر معاشرے کے اندر ناہمواری سے انقلاب نہیں آتے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے مگر اس وقت ہماری گفتگو ایران پر مرکوز ہے۔ یہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ ایران عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ تھا اور اب بھی ہے۔سیاسیات کے مشہور نظریہ ساز  عمانوئل ویلرسٹائن نے ریاست کو عالمی نظام کے ایک  حصے کے طور پر دیکھا ہے۔ انہوں نے سرمائے کے نظام میں ملکوں یا ریاستوں کو “مرکزی” اور  “ثانوی” ریاستوں میں بانٹا ہے جو  سرمایہ دارانہ سیاسی اور معاشی نظام میں مرکز سے ساتھ بندھی ہوتی ہیں مگر دونوں طرح کی ریاستوں کی سیاسی اور سماجی ساخت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ ارتقائی اعتبار سےمرکزی ریاستوں کے سیاسی اور سماجی نظام بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ثانوی ریاستوں میں سیاسی نظام میں جمہوریت یا تو سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی اور اگر موجود ہو تو بہت کمزور ہوتی ہے،جسے جمہوریت کہنامشکل ہے۔ ریاست کی طاقت چند ہاتھوں میں ہوتی ہے، اور اداروں  کا کنٹرول بھی صرف چند ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ یہی حال مالی اور معاشی معاملات کا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان ریاستوں کی ساخت کے اندر بنیادی قسم کی کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ اس طرح کی ریاستوں کو قائم رکھنے کے لئے قانون کی بجائے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔

پہلوی خاندان کے رضا شاہ دوم کے ایران کا سیاسی اور معاشرتی نظام اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ اس وقت کا ایران سرمایہ دارانہ نظام ثانوی گروپ میں تھا جسے مرکزی سیاسی طاقتیں اور ملک کنٹرول کر رہے تھے۔ شاہ پہلوی ان  طاقتوں کے زیر اثر تھے اور اپنے ملک کی پالیسی بنانے میں آزاد نہیں تھے۔ 1979 کے  انقلاب ایران کے بعد  سےعنان حکومت تو  مذہبی اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے مگر ایران بحیثیت ریاست پہلے کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے۔ ایران آج بھی عالمی سرمایہ داری نظام میں ثانوی حیثیت کا ملک ہے۔ فرق صرف اتنا سا ہے کہ انقلاب کے بعد حکومت میں آنے والی مذہبی اشرافیہ کے تعلقات اور  معاملات بڑی طاقتوں اور عالمی مالی اداروں کے ساتھ کشیدہ ہیں۔ اس مشاہدے سے ایک اور نکتہ سامنے آتا ہے جس کی اہمیت پرانے زمانے کے انقلابات کے مقابلے میں بڑھ  گئی ہے کہ اب کوئی ملک اکیلا نہیں ہے۔ ہر ملک اور ہر ریاست ایک بڑے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے۔ بڑے ملکوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ وہ انقلاب کی حمایت یا مخالفت اپنی ترجیحات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر تھیڈا سکوک پول Theda  Skocpol کے نظریات کو انقلاب کی ساختیاتی تھیوری بھی کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر جگہ انقلاب سے پہلے ریاست کا نظام بگڑنے لگتا ہے اور ریاست دھیرے دھیرے اپنی ناکامی کی جانب پھسلنے لگتی ہے، جس کی بہت سی ظاہری علامات ہیں۔ مگر ہم رضا شاہ دوم کے دور حکومت میں کی گئی اصلاحات کے نتائج کی جانب لوٹتے ہیں۔

رضا شاہ دوئم کی اصلاحات اور نتائج

ماڈرنائزیشن کے مختلف پہلو جن کا اوپر ذکر ہوا ہے، ان کی روشنی میں رضاشاہ دوم کی ماڈرنائزیشن کی پالیسی سیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے ہر طرح ناکام رہی۔ بادشاہ کے احکامات کے زیر اثر  ماڈرنائزیشن کی عملی طور پر ناکام پالیسی کو اصلاحات کہنا بجا نہیں۔ ان کے نتیجے میں معاشرے کا ہر طبقہ نالاں تھا سوائے ایک چھوٹے سے گروپ کے جو بادشاہ کے قریبی تھے  اور جو مالی اور سیاسی فائدے اٹھا رہے تھے۔ مگر اشرافیہ کے فائدہ اٹھانے کا معاملہ بھی کہاں تک چل سکتا ہے؟ ایران کی معیشت تیل کی آمدنی جیسے زمیںی وسائل کے ساتھ بندھی ہوئی تھی اور یہی بات آگے چل کر مصیبت کا باعث ہوئی۔ 1963 میں تیل اور گیس ملکی  برآمدات کا 77 فیصد تھی۔ یہ حصہ  1978 میں بڑھ کر 98 فیصد ہو گیا۔دوسرے لفظوں میں معیشت کا انحصار مکمل طور پر زمینی وسائل پر تھا یعنی تیل اور گیس۔

1953 میں وزیراعظم مصدق نے تیل کی صنعت کو قومیا لینے سے ایران کی آمدنی میں اضافے پر نظر کرتے ہیں۔ 1954 میں تیل کی آمد 22 ملین ڈالر سے بڑھ کر 1977 میں  20 “بلین” ڈالر ہو چکی تھی۔ مجموعی طور پر اس عرصے میں ایران کو 54 بلین ڈالر تیل کی آمدنی ہوئی۔  کچھ دانشور تخمینہ لگاتے ہیں کہ انقلاب کے وقت ایران کی دولت کا 20 فیصد شاہ کی ذاتی ملکیت تھا۔ بادشاہ سلامت پہلوی فاوْنڈیشن کے نام سے تجارت کر رہا تھے اور ملک کی 207  بڑی کمپنیوں میں بادشاہ کا حصہ تھا جن میں زراعت، طباعت، آٹو اور انشورنس وغیرہ شامل تھے۔ غرض یہ کہ  بادشاہ کی ہر پہلو سے تجارت میں حصہ داری تھی ۔

1953 کے بعد  پہلوی بادشاہ رضا شاہ دوم کے پاس تیل کی آمدنی کا مکمل کنٹرول آ یا تو بادشاہ نے اس آمدنی کو جس طرح خرچ کیا، اس سے معاشرتی بہبود کی کوئی خاص صورت سامنے نہ آ سکی۔ وہی ہوا جو غیر جمہوری نظام کا خاصہ ہوتا ہے، تیل کی دولت باشاہ کے ہاتھوں میں اور ان کے قریبی حلقے میں رہی۔حکومتی طبقے نے اپنے سیاسی اثرورسوخ کے بل بوتے پر تجارت سے فائدہ اٹھایا۔بادشاہ اور اس کے قریبی امراء کی دولت محفوظ رکھنے کے لئے فوج کو بڑا کیا گیا اور سواک جیسی تنظمیں ترتیب دی گئیں۔ 1977 میں آرمی کے اخراجات ملکی آمدنی کا 25-40 فیصد تھا۔ بادشاہ پر امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں سے  آلات حرب خریدنے کا جنون سوار تھا۔ انقلاب سے ایک سال پہلے بادشاہ نے دس بلین ڈالر کا اسلحہ خریدا ۔

بادشاہ نے  تیل کی آمدنی کو ملک کے اندر کس طرح خرچ کیا؟ ایک اندازے کے مطابق بادشاہ نے 30 بلین ڈالر معاشی اور سماجی پروگراموں کی مد میں خرچ کئے۔ اس سے انڈسٹری اور تعلیم کے شعبوں میں واضح طور پر بہتری آئی۔1953 میں پڑھے لکھے لوگ جنہیں انٹیلی جینشیا میں شمار کیا جاتا ہے، ان کی تعداد تین لاکھ چوبیس ہزار کے قریب تھی، 1977 یہ تعداد ساڑھے چھ لاکھ تک جا پہنچی۔ اسی دورانیے میں جدید انڈسٹری میں کام کرنے والی ورکنگ کلاس کی تعداد تین لاکھ سے بڑھ کر ایک اعشاریہ سات ملین ہو گئی۔ یہ تعداد پورے ملک کے محنت کش طبقے کا  جو پہلے 5 فیصد تھی، اس سے بڑھ کر  16 فیصد پر آ گئی۔ ان اعدادوشمار کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالنا آسان ہے کہ لوگ شہروں کی طرف رخ کرنے لگے۔ اس سے شہروں پر آبادی کا بوجھ پڑا۔ بوجھ اس وجہ سے کہ شہروں کے نظام میں آبادی کے تناسب سے جو ترقی ہونی چاہیئے تھی اس پر توجہ نہ دی گئی۔ شہروں کی آبادی بڑھنے  کے پس منظر میں زرعی اصلاحات کا ذکر بھی ضروری ہے۔

بادشاہ نے تیل کی آمدنی سے زمینیں خرید کر عام لوگوں کو بانٹنی شروع کیں۔ بادشاہ کی زرعی اصلاحات کی وجہ سے بہت سے لوگ جن کے پاس زمین نہیں تھی، انہیں حقوق ملکیت دیئے گئے مگر سب کو زمین نہیں ملی اور جن کو ملی اس زمین کا سائز ایک خاندان کی نگہداشت کے لئے ناکافی تھا۔ ملا جلا کر یہ کوئی 3 ملین کے قریب تھے۔ اس قسم کی ناکافی اصلاحات کی وجہ سے بھی نوجوان تلاش معاش میں شہروں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔یہ بات اوپر بھی کہی گئی ہے کہ غریب لوگوں کو شہروں میں زندہ رہنے کے لئے جو سہولیات میسر ہونی چاہئے تھیں، پلاننگ کرنے والوں نے اس کی طرف زیادہ توجہ نہ دی۔ ایران جیسا امیر ملک اور تہران جیسے شہر میں سوئج اور گندگی کو صاف کرنے کا کو ئی مناسب سسٹم نہ بنایا گیا۔

انقلاب اور آبادی میں اضافہ

یاد رہے کہ انقلابات کے استاد جیک گولڈ سٹون Jack Goldstone  کے مطابق دنیا میں جہاں بھی انقلاب آئے ہیں وہاں آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے۔ ایران میں بھی یہی ہوا۔1950 سے پہلے ایران کی آبادی قریبا” 17 ملین کے لگ بھگ رہی ہے۔ اس کے بعد آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ انقلاب کے وقت آبادی 37 ملین سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اگر ایک لمحے کے لئے ہم ایران کو بھول جائیں تو  پروفیسر  جیک گولڈسٹون کے ایک پرانےمضمون کا خیال آتا ہے، جس میں انہوں نے آبادی کے حوالے سے ایک بہت اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی تھی ۔ ان کے مطابق  1996 کے بعد آنے والے پچیس سے پنتیس سالوں میں ترقی پذیر ممالک کی آبادی دوگنی ہونے جا رہی ہے،  ان کا سوال تھا  کہ حکومتیں اتنی زیادہ آبادی کے غذائی مسائل، رہائش کے مسائل اور ملازمت کے مسائل کو کیسے حل کریں گی؟ لہذا  آبادی میں اضافے کو انسانوں کی تعداد کی بجائےسیاست کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ ایران میں بعینہ یہی ہوا۔ آبادی سے متعلقہ مسائل نے انقلاب سے پہلے سماجی سیاست میں سر اٹھا لیا تھا۔

پلان کے بغیر جب شہروں کی آبادی میں اضافہ ہو تو روزگار اور تعلیم کے وسائل کم پڑ جاتے ہیں، اورغربت اور غربت کے ساتھ بندھے تمام مسائل   ایک وبا کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس کا لازمی معاشرتی نتیجہ جرائم کی شکل میں نکلتا ہے، نشہ اور شراب نوشی میں اضافہ، بے راہ روی اور دیگر اخلاقی قباحتیں معاشرے میں جنم لینے لگتی ہیں۔ ان سب مسائل، برائیوں اور قباحتوں کے پیدا کرنے میں بادشاہ کا کردار صرف اتنا تھا کہ بادشاہ کے پاس مالی وسائل موجود تھے، جن کے مناسب استعمال سے ایران کے معاشرے کو اندرونی شکست و ریخت سے بچایا جا سکتا تھا مگر بادشاہ نے اس جانب زیادہ توجہ نہ دی۔ تمام مذاہب کے علماء اخلاقیات پر اپنی اجارہ داری سمجھتے ہیں۔ ایران میں مذہبی علماء نے ان “معاشرتی برائیوں اور اخلاقی قباحتوں”  کو “مذہبی گناہوں” سے تعبیر کیا اور بادشاہ اور مغرب کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

اخلاقیات کے پردے میں علماء کی مالی مفادات کی سیاست

اب مذہبی علما کے پاس بادشاہ کے خلاف سیاست کے لئے اخلاقیات کا منبر  آ گیا جسے انہوں نے اسے بخوبی استعمال کیا۔ علماءکے بادشاہ سے نالاں ہونے کی وجوہات میں ان کےذرائع آمدن پر ضرب بھی تھی۔ بادشاہ نے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنا کر تعلیم کا سسٹم سیکولر کرنے کی کوشش کی؛ ان جامعات میں طلبا کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی جن میں لڑکے لڑکیاں دونوں تھے۔ بادشاہ نے اپنے مرضی کے “مذہبی تعلیمی دستے”  تیار کئے جو کسانوں کو بادشاہ کی ہدایت کے مطابق “اصلی اسلام” پڑھائیں اور سکھائیں گے۔ اور ساتھ یہ راگ بھی الاپنا شروع کیا کہ “کالی پگڑی والے ملاو٘ں” سے مذہب مت سیکھو۔ ایک دانشور  جو مذہبی خیالات کے حامی تھے، انہوں نے لکھا کہ بادشاہ نے مذہب اور روحانیت کو بھی “قومیانا” شروع کر دیا ہے۔ بادشاہ نے سیکولر عدالتی نظام اپنایا جس سے علما کی مالی آمدنی پر زد پڑی اور زرعی اصلاحات کے نتیجے میں بھی انکی  آمدنی کم ہو رہی تھی جس سے وہ بادشاہ سے نالاں تھے۔ ان حالات میں اخلاقی مسائل نے انہیں ببانگ دہل بادشاہ کے خلاف بولنے کا جواز مہیا کر دیا۔ان سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ بادشاہ کے قریبی امراء اور افسران اور فوج کے سربراہان کی کرپشن کے واقعات بھی اوپر نیچے سامنے آنے لگے جس سے بادشاہ کی ساکھ  خراب ہوتی چلی گئی۔

رضا شاہ کی سیاست اور فاشزم

سیاسی رہنما، سماجی کارکن اور مذہبی علما میں سے جس کسی نے بادشاہ کی پالیسیوں پر تنقید کی، بادشاہ کے کارندوں نے اسے جیل میں ڈال دیا۔پولیس، فوج اور سواک جیسی تنظیمیں بادشاہ کے ظلم و جبر کی پالیسی کا آلہ کار تھیں۔ شاہ کے زمانے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق انسانی حقوق کی پامالی میں ایران کا ریکارڈ  پوری دنیا میں سب سے برا تھا۔ایک جانب انسانی حقوق کی پامالی ہے اور دوسری جانب بادشاہ  نے اپنی سیاسی پارٹی “حزب رستہ خیز ملی” میدان میں اتار دی، جس نے معاشرے کے ہر پہلو میں دخل در معقولات شروع کر دیاتھا۔ اس پارٹی نے ریاست کی طاقت کو استعمال کر کے دیہی عوام، شہری ورکنگ کلاس اور دانشوروں کی رائے کو دبانا شروع کر دیا۔

ایران کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ریاست نے شاہ کی سیاسی پارٹی حزب رستہ خیز ملی کے ذریعے  بازاری انجمنوں کے معاملات میں بھی مداخلت شروع کی دی۔ یہ زمانہ 1975 کا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ 1976 میں شاہ نے اسلامی ہجری کیلنڈر منسوخ کر کے تاریخ کو  ایران کے پرانے بادشاہ سائرس اعظم کے دور سے شروع کرنے کا آرڈر دیا اور ایک دن کے اندر اندر  ایران میں تاریخ 1355 ہجری سے تبدیل ہو  کر 2535 پہلوی ہو گئی مگر لوگوں نے اسے قبول نہ کیا۔ ان سب باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ محمد رضا شاہ پہلوی کا طرز حکمرانی فسطائیت کے قریب پہنچ  گیا تھا جس سے دائیں بازو   کے مفکر اور مذہبی علما، بائیں بازو کے سیاست دان،  لبرل دانشور اور درمیانے طبقے محنت کش اور  کسان، غرض ہر   طبقے کے اندر رضا شاہ اور حکومت کے خلاف سنجیدہ شکایات تھیں بلکہ غصہ پیدا ہو چکا تھا۔

جاری ہے۔۔۔۔

دوسری قسط کا لنک…..https://www.mukaalma.com/108912/

Advertisements
julia rana solicitors

پہلی قسط کا لنک…….https://www.mukaalma.com/108812/

 

 

 

 

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply