تلاش ۔۔ مختار پارس

ایک عرصے سے میں خود کو ڈھونڈتا ہوں اور کہیں بھی سراغ نہیں۔ پہلے سمجھا کہ میں اپنے اندر ہوں مگر میں غلط تھا۔ میں نے بہت آوازیں دیں مگر کوئی نہیں بولا؛ میں وہاں ہوتا تو جواب ضرور دیتا۔ وہاں تو شاید کوئی بھی نہیں تھا؛ کوئی بھی ہوتا تو کچھ تو کہتا۔ صبح اٹھ کر بستر کو دیکھتا ہوں، وہاں کوئی سلوٹ تک نہیں ہوتی۔ ناشتے کی میز پر سیر ہو کر کھایا مگر سب کچھ ویسے کا ویسے پڑا رہا۔ گھر والے پاس سے بغیر دیکھے گزر گئے جیسے میں وہاں تھا ہی نہیں۔ میں کہاں ہوں؟
پھر ایک دن مجھے محسوس ہوا کہ میں خود کو اس لیے نظر نہیں آ رہا کیونکہ مجھے لوگوں نے پہن رکھا ہے۔ جیسے میں ایک کپڑا ہوں، جس سے لوگوں کو کچھ نہیں کہنا۔ کسی نے مجھے لپیٹ کر اپنی دستار بنا ڈالی ہے، کسی نے ‘لوئی’ بنا کر خود کو سردی سے محفوظ کرلیا ہے اور کسی نے مٹی جھاڑنے کےلیے میرا ‘صافہ’ بنا دیا ہے۔ کسی نے مجھے کسی کے سر سے کھینچ لیا تو کسی نے گلے میں ڈال کر پھندا بنا لیا اور کسی نے میرے دامن میں چھید کر دیے۔ کوئی پہن لیتا ہے اور کوئی اتار دیتا ہے۔ میں خود سے کچھ بھی نہیں کر سکتا؛ نہ میں ‘لنگی’، نہ میں ‘چولا’، نہ میں ‘ململ’، نہ میں ‘جوٹ’۔ میں تو ایسا پہناوا ہوں کہ سب کچھ ہو گیا جھوٹ۔
پیرہن میں خود کو ڈھونڈنے والےجاہ و حشم، نظر و حضر کی دنیا میں جا نکلتے ہیں۔ لباس انہیں پہن لیتا ہے اور وہ لباس کو پہن لیتے ہیں۔ علم و عرفان کو اس کی پروا نہیں کہ لباس میں کتنے پیوند لگے ہیں۔ بایزید پر جب اس کے شاگردوں نے خنجر کے وار کیے تو صرف اس کے کپڑے پھٹ سکے۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کے کپڑوں کے نیچے صرف حق ہی حق تھا۔ جسم حصارِ جانِ آفریں ہے، فصیلِ مرگِ مفاجات ہے۔ دوسروں کے جسم پر حاوی ہونا آسان ہے مگر اپنے اجسام کی تسخیر آسان نہیں۔ زمانہ بیت جاتا ہے اور لوگ خود کو دوسروں کے جسموں میں تلاش کرتے پاۓ جاتے ہیں۔ آئینہ رو ہو کر کبھی بے پیرہن ہوتے تو خود سے ملاقات ہو جاتی۔ تلاشِ حق کی پہلی منزل تمہارا اپنا جسم ہے۔ جسم تحلیل ہو جاتے ہیں مگر موجود رہتے ہیں؛ کبھی کسی کے کردار میں نظر آتے ہیں اور کبھی کسی کی گفتار میں۔ ہمیں ڈھونڈنا ہم پر قرض ہے۔
خدا کو ڈھونڈنا آسان ہے، انسان کو ڈھونڈنا مشکل ہے۔ وہ ایک بیابان میں گم ہے اور اسے رستے کی تلاش کی خواہش نہیں۔ قانون اسے سر اٹھانے نہیں دیتا اور شریعت اسے سر جھکانے نہیں دیتی۔ زندگی اسے جینے نہیں دیتی اور موت اسے مرنے نہیں دیتی۔ دنیا کچھ کہتی ہے اور دل کچھ اور سنتا ہے۔ انسان آخر کس کی سنے اور کہاں خود کو تلاش کرے۔ لوگوں کی بات پر یقین کرے تو وہ کہیں نہیں ہے اور خدا کی سنے تو اب بھی وہیں ہے۔ خدا کو آدم سے محبت تھی تو اس نے انسان بنا دیا۔ انسان کو اصولوں سے محبت تھی، اس نے انہیں تشکیل دے دیا۔ اصول محبت کے آڑے آ جائیں تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ اصولوں کو توڑ کر محبت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ محبت کا حصول کسی اصول کا روادار نہیں۔ خدا کی محبت میں گم گشتہ انسان کی شناخت ممکن ہی نہیں۔
جب مجھے بغیر کسی محنت اور معاوضے کے ثمر اثمار میسر ہوۓ تو میں سمجھا کہ میں ‘شکر’ ہوں۔ جب سخت گرمی میں ابر نہ برسے اور شاخیں سوکھنے لگیں تو میں نے خیال کیا کہ میں ‘صبر’ ہوں۔ جب بھوکے پیاسے جانوروں کو کچھ کھانے کو دیا تو سمجھا کہ میں ‘عدل’ ہوں۔ لوگوں نے میرے درختوں پر پتھر پھینکے تو اطمینان ہوا کہ میں ‘فخر’ ہوں۔ مگر پھر ایک روز ایک محنت کش کے ہاتھ پر کچھ سِکے رکھے تو اس نے ہاتھ جھٹک کر کہا کہ میں ‘جبر’ ہوں۔ وہ مزدور کے کپڑوں میں ملبوس مجھے کون ملا تھا؟ وہ کون تھا جو مجھے آئینے کے سامنے کھڑا کر گیا۔ فخر اور عدل کی بیساکھیوں پر لڑکھڑاتا ہوا میرا شکر اور میرا صبر کس کام کا رہا اگر میں نے دینے کا ہنر ہی نہیں سیکھا۔ اپنے دلنشیں باغات میں بیٹھ کر خدا کا تعاقب کرنے سے خدا نہیں ملتا۔ اپنے ہاتھوں سے کما کرکھانے اور کھلانے میں قدر ہے، باقی سب جبر ہے۔
آسمان کی مسافتوں سے جو جلتی بجھتی روشنیاں مجھے نظر آتی ہیں، وہ مجھ سے پہلے والوں کےلیے تھیں۔ میرے بعد آنے والے میرے حصے کی روشنیاں دیکھ سکیں گے۔ یہ ایک طویل داستانِ محبت ہے جس کو سننے کےلیے ہم ایک برگد کے درخت کے نیچے جمع ہیں۔ اس قصے کی طوالت کا عمر سے نہیں امر سے تعلق ہے۔میں ڈھونڈنے والوں کو اسی برگد کے نیچے ملوں گا؛یہ وہ حیرت کدہ ہے جہاں انفرادی تقدیر اور تقسیم کے مرکز کی ممکنہ دلنوازیوں پر مشقِ سخن جاری ہے۔ آسمان کی جھولی میں چھید نظر آئیں تو تارے یونہی ٹپک ٹپک کر گرتے ہیں۔ نہ میں تارا، نہ میں پانی، نہ میں خاک؛ پھونکیں مار کر پھر بھی میں نے جلائی ہے یہ آگ۔
ہستی ایک انفرادی معمہ نہیں، یہ ایک اجتماعی واردات ہے۔ایک تنہا کو لوگ نہیں ڈھونڈ سکتے اور ہجوم میں ہر کوئی جان لیتا ہے۔ کسی ایک ساعت میں مجھے سمجھنا مشکل ہے۔ مجھے ڈھونڈنا ہے تو یونان کے مرکزی ہیکل کے صدر دروازے پر جا کر دیکھو کہ کیا لکھا ہے۔ پھر دمشق میں ‘دحدح’ کا پتہ پوچھو اور دیکھو کہ وہ کیا ہے۔ وادیء کوموکس میں دھرے پتھروں کو پڑھنے کی کوشش کر سکتے ہو تو کرو۔ اردن میں جبلِ قرمہ کی سبز چٹانوں پر نوبتین کو تلاش کرنے والے کیا لکھ گۓ۔ جانتے ہو کہ ‘نونوس’ نے روم میں واپس جا کر حرم پاک کے بارے میں کیا بتایا تھا۔ ہمت ہے تو نور کو آنکھ بھر کر دیکھ لو؛ آؤ مجھے ڈھونڈ لو۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply