کشمیر: گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا

(( کشمیر میں جاری دو عشروں کی جنگجوئیت پرصاحب طرز ادیب اور ناقد محمد ہاشم خان کی خصوصی تحریر جو نہ صرف زمینی حالات کے مشاہداتی تجزیئے پر مبنی ہے بلکہ ہمارے’ اجتماعی ضمیر‘ پر ایک زوردار طمانچہ بھی ہے۔))
غالبؔ نے بہشت کو اٹھا کر دوزخ میں ڈالنے کی بات کی تھی کیونکہ بہ خیال غالبؔ لوگ خالصتاً بوجہ اللہ نہیں بلکہ حصول فردوس بریں کے لئے عبادت کرتے ہیں کہ وہ جب جنت میں جائیں گے تو انہیں حورو غلمان کے علاوہ ’رحیقِ مختوم‘ بھی ملے گی۔ اسے غالب کی شوخی وشرارت سے تعبیر کریں یا متانت طبع سے ،یہ معاملہ فی الحال ہم ماہرین غالبیات پر چھوڑ دیتے ہیں کہ غالب کوسمجھنے کے جملہ حقوق انہیں کے نام محفوظ ہیں۔ بہرحال غالب کی یہ حسرت پوری نہیں ہوئی اور پوری بھی کیسے ہوتی یہ تو حصول نا ممکنات کی آرزو تھی لیکن مرحوم آج اگر زندہ ہوتے اور گزشتہ 2عشروں کے درمیان وادیء کشمیر کو جنازہ بردوش دیکھتے تو شائد یہ کہے بنا نہیں رہ پاتے کہ بہشت کو دوزخ میں ڈال دیا گیا ہے یا دوزخ کو بہشت میں ۔
کشمیر کو بھی جنت ارضی کہا جاتا ہے،کہیں بہت پیار سے اورکہیں بڑے فخر سے ۔کشمیری پیار سے اسے ’فردوس بر روئے زمیں است‘ کہتے ہیں۔اس لہجے میں احساس تشکر نہیں ہے مگر شفقت ہے سوزوساز ہے نغمگی ہے، ایک مدھم،خلش آمیز و پریشان کن نغمگی۔لیکن جب ہم اسے فردوس بر روئے زمیں است کہتے ہیں تو ہمارے لہجے میں احساس تفاخر شامل ہوتا ہے،جیت کا احساس اور اگر برا نہ مانیں تو بعض اوقات ہمارے لہجے میں کشمیریوں کو سبق سکھانے کا احساس بھی شامل ہوتا ہے۔بسا اوقات ہمارے لہجے میں یہ پیغام بھی شامل ہوتا ہے کہ یہ جنت ارضی ہماری ہے مگر یہاں کے مکین نہیں۔یہ ہمارے نہیں ہیں،صرف سر زمین ہماری ہے،فلک سے گفتگو کرتی برفیلی پہاڑیوں کے دامن میں واقع مرغزار وادیاں، ندیاں،پہاڑیاںیہ سب ہماری ہیں مگر آبادیاں نہیں۔ یہاں پر جو لوگ آباد ہیں وہ ہمارے نہیں ہیں،وہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں ،وہ کسی اور ملک کے باجگزارہیں کیونکہ وہ ہمارا کلمہ نہیں پرھتے ، کیونکہ وہ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں،حکومتیں بناتے ہیں اسکے با وجودہمارے مطیع و فرمانبردار نہیں ہیں۔وہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں،ایک ایسی دنیا جہاں صرف مکروہ ،قابل نفریں، بدقماش اور دھوکے باز لوگ رہتے ہیں۔یہ لوگ کب ،کیسے اور کہاں پیدا ہوتے ہیں، ہمارے لئے یہ جاننا بے محل و بے سود ہے۔یہ سماج دشمن نفوس کب مرتے ہیں،کیوں ،کیسے اور کہاں یہ پوچھنے کا ہمارے پاس نہ تو وقت ہوتا ہے اور نہ ہی گنجائش ۔
جب جنگجوئیت کا با قاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا،جب ہماری فوج یہاں خیمہ زن نہیں ہوئی تھی،جب فوجی بوٹوں کی بھیانک چاپ نہیں سنائی دے رہی تھی،جب اس خوبصورت وادی کے سینے چیر کر بنکر اور فوجی تنصیبات نہیں بنائے گئے تھے جب سر شام کھڑکیوں سے سر نکالنے پرگولیاں نہیں آتی تھیں،جب کشت زعفران خون سے لالہ زار نہیں ہوئی تھی ،جب خیابان کشمیر سے لاشیں برآمد نہیں ہوا کرتی تھیں،جب نیلم کا پانی خوں رنگ نہیں ہوا تھا ،جب مٹی سے گولہ بارود کی بو نہیں آرہی تھی،جب سرِمژگاں کوئی قطرہ کوئی اور کہانی نہیں بیان کررہا ہوتا تھا، جب پھول کی ٹوکریوں میں صرف پھول ہوا کرتے تھے اور پھول جیسے معصوم چہرے خوف سے زرد نہیں ہوتے تھے تب دشتِ امکاں کا یہ نقشِ پا جنت ارضی ہوا کرتا تھا ،مگر اب یہ وہ بہشت ہے جسے دوزخ میں پھینک دیا گیا ہے اور اس دوزخ کی نگرانی کے لئے ایک نہیں کئی سارے داروغے بٹھا دیئے گئے ہیں اور ہر داروغہ کا اپنا ایک قانون ہے۔فوج کا اپنا قانون ہے ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ 1990،بی ایس ایف کی اپنی ایک حد ہے اور یہ غیر محدود ہے ،سی آر پی ایف کا اپنا قانون ہے اور وہ یہ کہ اسکی نظر میں سب برابر ہیں چاہے وہ معصوم شہری ہوں یا جنگجو،۔ انٹلی جنس ایجنسیوں کا اپنا ایک جال ہے جس میں وہ کسے اورکب الجھا دینگے کچھ پتہ نہیں ۔اور تو اور ان سب کی موجودگی میں بے چاری ریاستی پولس بظاہربے بس ہوتے ہوئے بھی بہت ’کام‘ کرجاتی ہے ۔ یہ تمام سرکاری عناصر اسی ایک خطہ میں بیک وقت سرگرم عمل ہیں اس لئے حالات میں اعتدال کہاں سے آئے ۔برسوں سےفضاؤں نے غیر مرئی کشیدگی کا پیرہن اوڑھا ہوا ہے جس کا مہیب سایہ دور سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ہم نہیں محسوس کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے لئے حالات نارمل ہیں،کیونکہ ہم کسی عدم تحفظ،بدامنی اور آشوب کے شکار نہیں ہیں، کیونکہ ہم اپنی ہذیانی نرگسیت کو ِجمہوریت سمجھ رہے ہیں ۔ہم ٹھیک سمجھ رہے ہیں کیونکہ یہاں ہر قسم کے جمہوری ادارے موجود ہیں ،حکومت ہے ،سرکاری و غیر سرکاری ادارے ہیں،انسانی حقوق کے لئے سرگرم غیر سرکاری تنظیمیں ہیں اور تو اور ایک احتساب کمیشن بھی ہے جو ملک میں اپنی نوعیت آپ ہے ،اسے انتظامیہ میں شفافیت لانے کے لئے قائم کیا گیاتھا،سرکاری افسران اور وزراء کو جوابدہ بنانے کے لئے قائم کیا گیا تھا ،’ہیلنگ ٹچ پالیسی‘ کے روح رواں مفتی سعید(جو کہ اب مرحوم ہوچکےہیں) ایک ریکارڈ بنا رہے تھے اور بنا بھی مگر اس طرح کہ احتساب کمیشن کا کوئی محتسب نہیں تھا۔ یہاں انسانی حقوق کمیشن بھی ہے۔نا مکمل کمیشن ،جسے عوام میں بے دانت شیر کہا جاتا ہے۔اسکی بیشترسفارشات ردی کی ٹوکری کی زینت بنتی ہیں۔کمیشن کی سالانہ رپورٹ اب تک شائع نہیں ہوئی ہے کیونکہ سرکاری پریس کے پاس اور بھی سرکاری کام ہیں۔ پریس کے پاس اور بھی سرکاری رپورٹیں ہیں چھاپنے کے لئے مثلا جموں و کشمیر ایک درخشاں جمہوریت ہے ،امن اور خوشحالی کی طرف تیزی سے گامزن ہے ۔
۸ جولائی ۲۰۱۶ کو آننت ناگ میں سلامتی افواج کے ساتھ مبینہ تصادم میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی موت کے رد عمل میں کشمیر میں زندہ ہونے والی تحریک،احتجاج اور مظاہروں کا دوبارہ سلسلہ شروع ہونے سے کئی برس پہلے غالباً 13دسمبر2001کو پارلیمنٹ پر حملہ سے قبل کی بات ہے، ہماری حکومت اور اسکے حاشیہ بردار،سرکاری دانشور اور خانہ جنگی امور کے ماہر مبصرین ہمیں یہی باور کرا تے آرہے تھے کہ جموں و کشمیر میں حالات پر امن ہیں ،گھبرانے کی ضرورت نہیں حالانکہ ہم بالکل نہیں گھبرائے تھے،کسی بھی قسم کی شورش سے نمٹنےکے لئے ہمارے حوصلے بلند تھے پھر بھی ہمیں دلاسہ دیا جا رہا تھا پتہ نہیں کیوں۔ سچ یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں مخدوش حالات سے ہم اس وقت تک نہیں گھبرائے جب تک کہ اس آ نچ کی لپٹ ہمارے اپنے گھروں میں نہیں داخل ہوگئی ،جب ہندستان کے دیگر حصوں میں بارود بچھنے اور پھٹنے لگے تب ہمیں جاکر احساس ہو اکہ سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے پھر بھی ہمیں پل پل بریف کیا جا رہا تھا اور یہ یقین دلانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی جا رہی تھی کہ جنت ارضی سے جنگجوئیت ختم ہوگئی ہے،بس کچھ نام کے جنگجو باقی بچے ہیں جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور انہیں ہم نے کھدیڑ کر پہاڑوں میں بھگا دیا ہے، عوام میں عسکریت پسندی رجحان ختم ہو گیا ہے ،پاکستان کی طرف سے دراندازی کے واقعات میں کمی آئی ہے لوگ سمجھ گئے ہیں کہ تنازع کا حل گولی نہیں بولی ہے ۔ہندستان بالخصوص ممبئی میں ہمیں اسی طرح کے بیانات اخبارات میں پڑھنے کو ملتے تھے ۔اچھے اچھے بیانات ،سمجھ میں آنے والے بیانات ۔مفتی سعید کی ہیلنگ ٹچ پالیسی اپنا اثر دکھا رہی تھی ،جنگ بندی ہو چکی تھی ،سرحدوں پر امن قائم ہو چکا تھا ، ریاستی عوام بالخصوص ارباب اقتدار میں فوج کو واپس بیراک میں بھیجنے کی بات دبے دبے لفظوں میں ہونے لگی تھی ۔سب کچھ امن کی پٹری پر توازن اور تیز رفتاری سے چلنے لگا تھا۔حالات واقعی نارمل ہو چکے تھے کیونکہ جنگجوئیت ختم ہو چکی تھی لیکن اسکے باوجود ہم نے ڈسٹر بڈ ایریا ایکٹ کو ختم نہیں کیا ۔نہ ہی ہم نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ کو کالعدم قرار دیا۔نہ ہی ہیلنگ ٹچ پالیسی کے روح رواں مفتی محمد سعید کے دور حکومت میں مذکورہ دونوں قوانین کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی گئی اور نہ ہی ’غلام کشمیر‘ کے آزاد وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کے مرکزی آقاؤں نے اس طرح کی تجاویز کی حوصلہ افزائی کی ۔سرکاری دعووں کے مطابق انگلیوں پر گنے جانے والے چند سو جنگجوؤں کی سرکوبی کے لئے لاکھوں کی تعداد میں فوج موجود ہے ۔سچ یہ ہے کہ فوج کی اتنی بڑی تعداد جنگجوؤں کی سرکوبی کے لئے نہیں ہے بلکہ سرحد کی حفاظت اور کشمیر کے اندر اٹھنے والی بے چینی کی لہر کو کچلنے کے لئے ہے۔بے چینی کی لہر کیوں اٹھے گی ہمیں نہیں معلوم اور نہ ہی ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے ۔
حکومت کی سرکاری کمنٹری کے مطابق حالات پر امن تھے لیکن زمینی حقائق سے آگاہ لوگ یہ جانتے تھے کہ کشمیر میں ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق سے زیادہ حالات پر امن اور مستحکم نہیں ہیں۔اور کوئی بھی حساس و ذی شعور مشاہد پردے کے پیچھے روپوش اس بے اطمینانی ،بے چینی اور آشوبیدگی کے وجود کا مشاہدہ کر سکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی جلے ہوئے مکان کی راکھ سے آگ بجھنے کے بعد بھی دھواں اٹھ رہا ہو اور اس بات کاخدشہ ہر وقت لگا رہے کہ اس میں دوبارہ آگ بھڑک سکتی ہے۔ہمارے دانشور ہمیں تسلی دے رہے تھے کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور کشمیر میں غیر مطمئن روحوں کو بے اطمینانی کا جام پلا رہے تھے اور یہ جانتے تھے کہ آگ دوبارہ بھڑک سکتی ہے ۔لیکن اسی دوران امرناتھ تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔جموں میں بم بم بھولے کا نعرہ لگا تو کشمیر میں ’’ہم کیا چاہتے ہیں؟ آزادی!‘‘ کے نعرے لگنے لگے ۔جاں بلب حضرت سید علی شاہ گیلانی اور انکی تحریک کو دوبارہ زندگی مل گئی،49 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ۔اس پورے معاملہ کا انتہائی حیرت انگیزومعجزاتی پہلو یہ تھا کہ حالات کے خراب ہونے کا کوئی ذمہ دار نہیں تھا۔نہ ہی سابق بھگوا گورنر ایس کے سنہا اور نہ ہی محبوبہ مفتی اورغلام نبی آزاد۔درخشاں جمہوریت کی تشریح اس سے بہتر اور کیا کی جا سکتی ہے ۔ہم یہ تو مانتے ہیں کہ اتنے لوگ مرے لیکن کیوں مرے کیسے مرے اور کن لوگوں نے مارا یہ ماننے کے لئے تیار نہیں۔اگر ہم مان لیں کہ حالات پر امن ہیں تو کیا اسکا یہ مطلب اخذ کریں کہ حالات جس قدر معمول پر آنے تھے آچکے اب اس سے زیادہ کی کوشش نہیں ہوگی اور نہ کی جائے گی ؟
بہر حال امرناتھ تنازعہ کے تصفیہ کےفوراً بعد اسمبلی انتخابات ہوئے اور60سے زائد فیصد عوام نے جمہوری عمل میں حصہ لیا۔یہ واقعتاًخلاف توقع اور ناقابل یقین بات تھی ۔ دو ماہ کے احتجاج و مظاہرے کے بعد عوام کا الیکشن میں اس بڑی تعداد میں حصہ لینا بیشتر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا۔اور اس ’’رست خیزبےجا’’ کا اینٹی کلائمیکس یہ نکلا کہ نہ صرف پی ڈی پی اپنی زمین بچانے میں کامیاب رہی بلکہ اور زیادہ طاقتور پارٹی بن کر نمودار ہوئی اورجو لوگ مفتی سعید،محبوبہ مفتی اور پی ڈی پی کے خاتمے کی پیش گوئی کرچکے تھے وہ خجالت سے کہنے لگے’’یار ایسا کیسے ہوگیا‘‘۔عمر عبداللہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے اور حالات ایک بار پھر اعتدال پر آتے دکھائی دیئے کہ شمالی کشمیر کے بمئی سوپور میں ایک سابق اخوانی کی مخبری پر فوج کی طرف سے بلا اشتعال فائرنگ میں دو طالب علموں کی ہلاکت نے حالات کو پھر سے غلط سمت میں موڑ دیا،سرینگر اور بمئی سوپور میں ہفتوں احتجاج و مظاہرے جاری ہے،حسب توقع معصوموں کی لاش پرسیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش زوروشور سے شروع ہو گئی ۔پی ڈی پی نے اسپا کو ختم کرنے اور فوج کی تعداد میں تخفیف کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔محبوبہ مفتی نے اسمبلی اجلاس میں بمئی سوپور واقعے کو کیش کرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’جب تک ریاست میں فوج تعینات رہے گی ایسے واقعات ہوتے رہیں گے، AFSPA ، ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ اور دیگر سخت کالے قوانین کو ختم کئے جائیں تاکہ ریاستی عوام سکھ اور چین سے زندگی بسر کرسکیں ـ‘‘محبوبہ مفتی کا یہ بیان اپنی جگہ پر صد فیصد درست ہے کہ65سے70فیصد کشمیریوں نے اس لئے ووٹ نہیں دیا تھا کہ انکا خون بہایا جائے تاہم یہ جذباتی استحصال اور ابن الوقتی سے زیادہ کچھ اور نہیں کیونکہ انکے والدمفتی محمد سعید اپنے دور اقتدار میں ایک طرف ہیلنگ ٹچ کی بات کر رہے تھے تو وہیں دوسری طرف انسانی حقوق کمیشن کی سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال رہے تھے اور محبوبہ مفتی کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب جموں و کشمیر میں اے ایف ایس پی اے لگا تھا تو اس وقت انکے والد مرکزی حکومت میں کابینی وزیر برائے امور داخلہ تھے۔انہیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ جب بہ حیثیت وزیر اعلیٰ مفتی سعید زخموں کو مندمل کرنے کی بات کر رہے تھے تو اس وقت یہ کالے قوانین نافذ تھے۔ پی ڈی پی پر جب اقتدار اور ہیلنگ ٹچ کا ہذیانی نشہ طاری تھا تو اس وقت سال 2003سے سال 2005تک کراس فائرنگ کے مختلف واقعات میں 240عام شہری مارے گئے جبکہ اس دوران 24افراد کو زیر حراست ہلاک کیا گیا ۔ سابق حکومت میں انسانی حقوق کمیشن کو حقوق البشر پامالیوں کی 1863شکایات موصو ل ہوئی تھیں لیکن ان شکایات پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ یہ وہ اعدادوشمار ہیں جن کا ہماری حکومت نے اعتراف کیا ہے۔اور اب خود محبوبہ مفتی وزیراعلیٰ ہیں اور واپس وہی بیان دے رہی ہیں جو برسوں سے دیتی آئی ہیں ’ہمارے بچوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی‘‘
بہرحال ایک بار پھر چنار کے پتے مزاحمت کی تپش سے جھلسنے لگے ہیں ۔ گلیوں،سڑکوں ،خیابان اور کیاریوں کی مہیب خامشی دور دور تک سنائی دینے لگی ہے۔گزشتہ بیس دنوں سے مسلسل حکم امتناعی اور پولیس و مظاہرین کے درمیان جھڑپوں سے معمول کی زندگی مفلوج ہوگئی ہے۔ اب تک تقریبا ۵۱ افراد اس احتجاج و تصادم کی نذر ہوچکے ہیں اور پانچ ہزار سے زائد شہری زخمی ہوئے ہیں۔ اگست ۲۰۰۸ میں امرناتھ اراضی تنازعہ،۲۹ مئی ۲۰۰۹ میں شوپیاں ضلع میں دو بہنوں کی عصمت ریزی اور قتل کے ردعمل میں ہونے والے پرتشدد مظاہرے کے بعد گذشتہ آٹھ برسوں میں یہ تیسرا بڑا احتجاجی مظاہرہ ہے جس نے کہیں ’ ہمارے اجتماعی ضمیر‘ کو جھنجھوڑا ہے اور کہیں جھنجھوڑنے کی ناکا م کوشش کی ہے۔گزشتہ ۶۰ سال سے ہم کشمیر اور کشمیریوں کومینٹین (maintain) کرتے آئے ہیں اس بار بھی کرلیں گے ۔ ہمیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،ہمارے نزدیک حالات نارمل تھے ،ہیں اور رہیں گے۔بلکہ اب تو ہم شاید اس وقت ایک لمحے کے لئے پریشان ہوں جب چنار کے پتوں پر لکھی ہوئی یہ خبر چہار دانگ عالم پھیل جائے کہ یہاں سب نارمل ہے اور اب کوئی احتجاج و مظاہرہ نہیں ہوگا۔تب ہم شاید سوچیں ’’یار! یہ احتجاج کیوں نہیں کرتے۔‘‘
سردست محبوبہ مفتی نے زخموں کو مندمل کرنے کی موروثی کوشش شروع کردی ہے کہ ’’بچوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی‘‘ ۔خوش ہونے کی ضرورت نہیں کہ یہ وہ کلاسیکی ’عذرگناہ بدتر از گناہ‘ بیان ہے جس کا وقتاً فوقتاً اظہار ’کشمیریت‘ کا جز لاینفک بن چکا ہے۔محبوبہ کہہ رہی ہیں کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی کو قطعاً برداشت نہیں کریں گی ،یہی دعویٰ عمرعبداللہ بھی کرتے آئے تھے اور غلام نبی آزاد بھی لیکن زمینی سطح پر حالات نہ بدلنے تھے اور نہ بدلے۔آگے کیا ہوگا یہ یا تو مرکزی حکومت کو پتہ ہے یا سید علی شاہ گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو،یا پھر تینوں نہیں جانتے کیونکہ کشمیریوں کے تعلق سے کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی، ان سے بڑا کوئی ’ظالم‘ نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے دو ملکوں کو ’پریشان‘ کر رکھا ہے۔ ہمارے دانشوروں نے ہمیں یہی بتا یا ہے تاہم انہوں نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ ہم اپنے گناہوں کوناکام جمہوری اداروں میں دفن کر رہے ہیں۔
گھرمیں تھاکیا کہ تراغم اسےغارت کرتا
وہ جورکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سے ہو

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply