حسن کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے ۔۔خنساء سعید

ہم لوگ انسان ہونے کے ناطے حس ِلطافت سے بالکل محروم ہوتےجا رہے ہیں زندگی کی چیرہ دستیوں نے ہمیں بہت تلخ اور کڑوا بنا دیا ہے ۔ہماری بصارت حسن کے نظاروں کو دیکھنے سے بالکل قاصر ہو چکی ہے یوں لگتا ہے جیسے ہم لوگ روبوٹ بن چکے ہیں۔ہم زندگی کی بناوٹی اور خودساختہ آسائشوں میں اس قدر مصروف ہو چکے ہیں کہ ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ ہم لوگ قدرتی راحتوں پر غور کر سکیں، ایک لمحے کے لیے سوچیں !کہ دنیا توقائم و  دائم ہےمگر یہ حسن و زیبائی کے تمام تر جلوؤں سے خالی ہے ،آسمان ہے مگر فضا کی یہ نگاہ پرور نیلگونی نہیں ہے ۔ستارے ہیں مگر ان کے اندر روشنی چمک دمک نہیں ہے ۔ایسا بھی تو ہو سکتا تھا کہ کائنات پر حسن و جمال کی نقاب نہ ہوتی، زمین تو ہوتی مگر اس پر ندی نالوں کا شور نہ ہوتا ،پھول ہوتے مگر ان میں رنگ و بو نہ ہوتا،پربت ہوتے مگر ستاروں کا جھرمٹ نہ ہوتا ،زمیں کے اوپر سبزے کا فرش ہی نہ بچھا ہوتا ،چاند ہوتا مگر چاندنی نہ ہوتی ،سورج ہوتا مگر کرنیں نہ ہوتیں ،بلبل ہوتی مگر اس کی نوا سنجی نہ ہوتی ،پہاڑ ہوتے مگر ان پر سر سبز درخت نہ ہوتے پہاڑوں کے درمیان سے آبشاریں نہ بہہ رہی ہوتیں ،پرندے ہوتے مگر ان کی چہچہا ہٹ ہمارے کانوں میں رس نہ گھولتی ،علی الصبح باغوں میں پھولوں پر اوس کے قطرے نہ گرتے ،چناچہ اس دنیا میں سب کچھ ہوتا مگر سبزہ و گل کی رعنائیاں اور قمر ی و بلبل کی نغمہ سنجیاں نہ ہوتیں تو کیا ہوتا ؟؟

یقیناً  یہ دنیا اپنے بننے کے لیے اس چیز کی محتاج نہ تھی کہ تتلی کے پروں میں خوبصورت رنگ برنگے نقش و نگار ہوں ،اور انتہائی خوبصورت ہر رنگ کے پرندے درختوں کی شاخوں پر چہچہا رہے ہوں ۔یہ بھی تو ممکن تھا کہ درخت ہوتے مگر قامت کی بلندی ،پھیلاؤ کی موزونیت ،شاخوں کی ترتیب نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ اشیاء کا اعتدال ،اجسام کا تناسب ،صداؤں کا ترنم ،روشنی اور رنگت کی بو قلمونی ،ذرا ایک ایسی زندگی کےساتھ زندگی کا تصور کریں ،کتنا ہولناک اور بھیانک منظر ہو سکتا ہے جس میں نہ تو حسن کا احساس ہو نہ حسن کی جلوہ آرائی ،نہ نگاہوں کے لیے سرور نہ سماعت کے لیے حلاوت ،نہ جذبات کی رقت نہ محسوسات کی لطافت ،تو یقیناً  عذاب کی ایک ایسی حالت ہوتی جس کا تصور بھی ناقابل ِ برداشت ہوتا۔رب السموات الارض نے ایک طر ف تو ہمیں حسن کا احساس دلایا ہمارے اندر حسِ لطافت کو رکھا تو دوسری طرف ساری دنیا کو حسین و جمیل بنا دیا تا کہ ہم لوگ دنیا کے حسن کو دیکھ کر لطف اندوز ہو سکیں ۔ انسانی علم و نظر آج تک اس سوال کا جواب نہ دے سکی کہ تخلیق کے ساتھ حسن کیوں ضروری ہے مگر قرآن پاک اس کا جواب دیتا ہے”فتبارک اللہ احسن الخالقین “۔یہ سب اس لیے ہے کہ انسان کائنات کا مشاہدہ کرے انسان کائنات کے حسن کو دیکھے کائنات کا حسن وہ سب سے پہلی چیز ہے جو صاحب ِ ذوق انسان کو اپنی طر ف متوجہ کرتی ہے ۔

انسان اشرف المخلوقات ہے وہ اس دنیا کی سب سے زیادہ خوبصورت تخلیق ہے زندگی اللہ تعالی کی ایک انتہائی عظیم او رحسین نعمت ہے لہذایہ حسن ِ زندگی ہی ہے کہ جس کی بدولت زندگی اس قدر جمیل و جلیل ،لذت انگیز ،مسرت آفریں ،اور پر سرور لگتی ہے اگر زندگی اپنے حسن سے محروم ہو جائے تو انسان کی جمالیاتی حس فنا ہو جاتی ہے اورانسان تمام تر جذبات سے عاری محض ایک مشین بن جاتا ہے اس لیے انسان کی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی جمالیاتی حس زندہ رہے اگر ہم گرمیوں کے موسم میں صاف و شفاف آسمان کا نکھرنا دیکھیں، بارش میں بادلوں کا ہر طرف سے امڈنا دیکھیں ،شفق کی لالہ گونی ،قوس و قزح کے سات رنگ دیکھیں ،تو ہم جان جائیں گے کہ آسمان کا کوئی ایسا منظر نہیں ہے جس میں نگاہِ انسانی کے لیے زینت نہ ہو جس میں دلوں کے لیے راحت و سکون نہ ہو ۔فطرت کے فیضان کی سب سے بڑی بخشائش(گناہوں کی معافی )اس کا عالمگیر حسن و جمال ہے فطرت صرف بناتی اور سنوارتی ہی نہیں ہے بلکہ اس طر ح بناتی اور اس طر ح سنوارتی ہے کہ اس کے ہر بناؤ میں حسن و زیبائی کا جلوہ نمودار ہوتا ہے اللہ تعالی نے کائنات کی ہر تخلیق پر ایک زیبائش کا نقاب ڈال دیا ہے کیوں کہ اللہ تعالی خود بھی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند بھی کرتا ہے جیسے کہ اللہ تعالی خود فرماتے ہیں “واللہ جمیل و یحب الجمال “۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر یہ کہا جائے کہ حسن کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے تو یہ کوئی شاعرانہ مبالغہ نہیں ہے بلکہ ایک جمالیاتی حقیقت کا اعتراف ہے ۔حسن اصل میں انسانیت و اخلاقیات ،تہذیب و تمدن ، عمرانیات و ثقافت ،علم و حکمت اور ہنر و فن کی جمالیاتی روح ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ کائنات کی ہر ایک چیز میں جمالیاتی روح موجود ہے کیوں کہ جلال و جمال کے بغیر یہ دنیا محض خاکی کاغذوں کا پیر ہن لگتی ۔ہمیں ماچو پیچو پیرو،تیمقاد الجزائر ،دی ڈولومائیٹس اٹلی ،وادی رم اُردن ،بحیرہ واڈن جرمنی ،پہاپور بنگلہ دیش ،تھنگ ویلیئر آئس لینڈ،دیوارِچین،کورن وال انگلینڈ،وینس اٹلی ،تاج محل ،لال قلعہ ،بادشاہی مسجد ،مسجد قرطبہ ،قصرالحمراء ،بہزاد و مانی یا غالب و اقبال کی شعری تخلیقات یہ سب قراۃ العین سرور انگیز اور حیرت افزاء اس لیے لگتے ہیں کیوں کہ یہ سب مقامات اور تخلیقات حسین و جمیل ہیں حسن ہی ان سب کی خوبی ہے۔الغرض حسن خدا کی صنعت و کاریگری کا بہترین اظہار ہی نہیں بلکہ جہاں کہیں ہو جس کسی حیثیت میں ہو فطرت کا پاکیزہ مظہر ہوتا ہے حسن ہی ہماری زندگی کا آغاز اور ہماری خوشی و انبساط کی بھوک کو دور کرتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply