جڑ کھوجنے اور اکھاڑنے کی گھڑی۔۔حسان عالمگیر عباسی

مبلغ اسلام مولانا طارق جمیل صاحب کے نزدیک فحاشی سکولز، کالجز، اور جامعات میں بڑھتے ہوئے اختلاط سے امڈ رہی ہے۔ مخلوط محافل کا اسلام کبھی بھی قائل نہیں ہے لیکن مخلوط محافل کو روکنے کا پیکج یا اسکیم رکھتا ہے۔ بجائے اس آفاقی اسکیم کا از سر نو اور تفصیلی جائزہ لیا جائے، محض یہ کہہ کر جان چھڑانا کہ جامعات ہی اس قباحت کی ذمہ دار ہیں’ غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے۔ دراصل جڑیں کھوجنے اور اکھاڑنے کی ضرورت ہے کیونکہ ترجیحات پہ اسلام کھڑا ہے۔

پردہ اترا کیسے؟

یکدم؟
نہیں۔۔

رفتہ رفتہ ایسا ممکن ہوا۔ میڈیا کا بڑا کردار ہے۔ معاشرتی بگاڑ یکدم نہیں آیا اور جب آ گیا تو نیست ہونے میں وقت لے گا۔

جب پردہ اترا آسانی سے نہیں ہے تو پوشی میں بھی وقت لگے گا۔ میڈیا و دیگر ذرائع کے ذریعے ایسا معاشرہ بنانے کی ضرورت ہے جہاں خواتین خود پردہ کرنے کی متمنی ہوں۔ ٹھونسنے سے چیزیں بے لگام ہوجاتی ہیں۔ فرد سازی ضروری ہے۔ جلدبازی اور شارٹ کٹس انقلاب نہیں لایا کرتے۔

مرد و عورت اس معاشرے کو مل کر بناتے ہیں۔ کسی کو کسی پہ کوئی فضیلت نہیں ہے۔ دونوں ہی خدا کی مخلوقات ہیں۔ اگر کسی جنس کے زیادہ فضائل ہیں تو ایک مخصوص دائرے میں ہی ہیں۔ ‘الرجال قوامون علی النساء’ والی آیت کو مرد اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔

ایسا معاشرہ بنانے کی ضرورت ہے جہاں سوچ میں بدلاؤ آئے۔ بے پردگی دیکھ کر انتہائی قدم اٹھانا اور سوچنا جلد بازی کی علامت ہے۔ یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ ایک ہی چیز کو اسلام کا آفاقی اصول سمجھتے ہوئے ‘شجر ممنوعہ’ سے بقیہ پھل اتار لیے جائیں۔

ہمارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ایک چیز کی اہمیت کو مبالغہ آرائی سے اس لیے بیان کرتے ہیں کیونکہ ہمارے من کو بہا نہیں رہی ہوتی، اسلام کی ممانعت والا چورن اپنی انا کو سکون پہنچانے کی غرض سے ہوتا ہے۔ وگرنہ اسلام مردوں کو بھی ایسے کئی افعال سے روکتا ہے، جسے عورت اگر برا سمجھے اور تائب ہونے کا مخلصانہ مشورہ دے تو مرد کے اندر کا شیطان بیدار ہو جاتا ہے۔ یہ کچھ آیات پہ ایمان لانے والی اسکیم گھڑنے والے کو گاڑ دینا ہی بہتر ہے۔

اسلام میں ڈنڈا ضرور ہے لیکن ڈنڈے سے کہیں پہلے اس کا امن و سلامتی والا پیغام ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ بندہ خود ہی مسجد آئے۔ کان سے کھینچ کر لایا جائے گا تو وہ طہارت و پاکیزگی والی شرط نہیں مانے گا۔ ایسی صورت میں دل چیر کے دیکھنے سے بہتر ہے دل سوزی کی جائے۔

اسلام کھڑا ہی امید و توبہ پہ ہے۔ ورنہ خدا گناہ کا تصور کبھی بھی نہ پنپنے دیتا۔ گناہ ہے تو نیکی ہے وگرنہ یہ آیت نازل ہی نہ ہوتی کہ ‘اجیب دعوة الداعی اذا دعان’ یعنی خدا سے جب مانگا جائے تو وہ رد نہیں کرتا۔ خدا بخشنے والا ہے رحیم ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ کوڑے مارنے والے جلاد بن جائیں اور سنگسار کر دیں۔ سنگسار کرنے اور کوڑے برسانے سے کہیں پہلے اسلام شادیوں میں رائج بوجھ بانٹنے کی بجائے لادنے والی رسوم سے قطع تعلقی کرتے ہوئے جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارا دلاتا ہے، بیواؤں کے لیے دوسری شادیاں ترتیب دیتا ہے، بہنوں بیٹیوں کے ہاتھ رنگنے والی مہندی کا بندوبست کرتا ہے اور فرزندان کے لیے آسانیوں کی بہار لاتا ہے۔

چور کے ہاتھ کاٹنے سے کہیں پہلے اسلام زکوٰۃ کے نظام کے ذریعے ایسا ماحول بناتا ہے جہاں دینے والا ہاتھ لینے والا ہاتھ خود ہی کاٹ پھینکتا ہے۔ اگر کاٹنا ہے تو ایسے کاٹا جائے۔ اسلام ملائیت و انتہا پسندی کا نام نہیں ہے۔ یہ صرف وہ چورن ہے جو بیچ کر توند بڑھائی جاتی ہے۔

کئی جگہوں پہ عورت کو بھی درجات ملے  ہیں، ان پہ کوئی ایمان نہیں لاتا۔ جب male dominant معاشرہ ہوگا، patriarchy کا سکہ چلے گا، خواتین پہ تیل چھڑکا جائے گا، ان کو ہراساں کیا جائے گا، غیرت کے نام پہ قتل کر کے بے غیرتی کا ثبوت دیا جائے گا، مرد کی ہوس پوجنے کو ‘بچہ ہے’ کہہ کے ٹال دیا جائے گا، عورت یا لڑکی کی چھوٹی سے خطا کو غیرت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جائے گا تو یہ کہنا کہ مسئلہ مخلوط نظام تعلیم میں پنہاں ہے، محض خام خیالی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ کو ایجوکیشن بھی ایک فیکٹر ہو لیکن ایک بڑا فیکٹر شادی کا نہ ہونا ہے۔ شادی آسان ہو گی تو مسئلہ حل ہو گا۔ شہوت ہر ایک میں ہوتی ہے اور واحد ذریعہ یہی ہے کہ روزے رکھے جائیں یا جلد از جلد بیاہ رچایا جائے۔
ایک صحابی رض نے فرمایا کہ اگر انھیں دس دن کی زندگی بھی ملے تو وہ شادی کر کے وفات پائیں گے۔ دراصل جڑ کھوجنے اور اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔

یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ شادی کے لیے نوکری، دولت، ٹھاٹ باٹ، ڈائنڈ وائنڈ اور صاحب مرتبت ہونا ضروری ہے؟ جب تک یہ سوچ ختم نہیں ہو گی تب تک جامعات کو ٹارگٹ کرنا چھوٹی سوچ ہے۔ جو ہو ہی نہیں سکتا وہ موضوع بحث بنا کر وقت کا ضیاع کہاں کی دانشمندی ہے؟ اس سے تو کہیں افضل یہ ہے کہ طالبان علم کو بتایا جائے کہ وہ پٹرول اور آگ نہ بنیں بلکہ ایسی کیفیات کو اندر ہی اندر کیفر کردار تک پہنچائیں۔

اسلام کے پیکج کو اگر قوم نے قبول ہی نہیں کیا تو قوم کی خطا نہیں ہے، اس کی غلط تصویر کو تصور بنانے والے قصور وار ہیں۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ قوم چاہتی ہی نہیں ہے، تو کیا جنھوں نے اسلام کو کفر سے برات کا اعلان کرتے ہوئے اپنایا ہے، وہ مسلمانوں کی عادات و اطوار سے متاثر ہوئے ہیں؟ ویسے بھی کسی اسکیم کو مرضی سے چننا اس کے خالق سے براہ راست رہنمائی لینے کا متقاضی ہے۔ اگر مسلمان اس قابل ہوتے بھی تو افضل یہی ہے کہ خالق کے پیغام کو اس کے پیغمبر کے ذریعے براہ راست سمجھا جائے۔

اگر واقعتاً فحاشی کا سیلاب آ ہی گیا ہے تو روک تھام کے لیے وہ کرنا چاہیے جس کے کرنے سے یہ ریلا کم نقصان کر پائے۔ جو ممکن نہیں ہے اس کو بحث بنانے سے کچھ ہونا نہیں ہے اور بہت کچھ ہو جانے کا خدشہ ہے۔ یہ سیلاب رکنا تب ہے جب شادیاں آسان ہوں گی۔ جب زنا آسان ہو اور نکاح مشکل ہو جائے تو جامعات کو ٹارگٹ کرنے سے کچھ نہ ہو پائے گا۔

ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔۔ ایک صحابی رسول ص دولت، شہرت، نام، سٹیٹس، اونچی قوم اور ٹھاٹ باٹ سے محروم تھے۔ رسول ص نے کہا، شادی کرو اور یہ بھی بتا دیا کہ فلاں بنت فلاں کو عقد نکاح میں لے لو۔ وہ عورت کے والدین نے جب ان صحابی کا سامنا کیا تو پہلی ہی فرصت میں منکر ہو گئے۔ وہ شہرت، دولت اور اونچی قوم والے تھے۔ ان کی بیٹی نے کہا کہ اگر رسول اللہ کا حکم ہے تو وہ راضی ہے (پہلے ایسا معاشرہ بنانے کی ضرورت ہے جہاں ایسی  خواتین ہوں، جنہیں ‘آمنا و صدقنا’ کہنے میں عار نہ محسوس ہو)۔ اور جب شادی رچائی گئی، بسنے لگے تو خدا نے وہ دن بھی لایا جب دولت بھی تھی، شہرت بھی تھی اور رتبہ بھی بلند تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم دراصل ہیں تو پیدائشی مسلمان لیکن ہندوتوا کے قائل ہیں۔ ہم بظاہر عبداللہ لیکن فی الحقیقت رام داس ہیں۔ یہی کمزور ایمان ہے جو ہم حکمت و دانائی سے بہت دور ہو چلے ہیں۔ ہم دانشمندانہ اسکیم بنانے کی بجائے جذباتیت سے بھرے جلد باز اقدامات کے قائل ہیں۔ سیلاب کا منہ موڑنے کی بجائے اپنے ہی گھروں اور دیواروں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ابھی والے شاید کر بھی لیں، اگلی نسل کے لیے اگر پانی کا منہ نہیں موڑا گیا تو سیلاب نے سب گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لینا ہے۔ اب جڑ کھوجنے اور اکھاڑنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply