ہنگامی خدمات اور ادارے۔۔ذیشان سلمان

ہر ریاست اپنے شہریوں کی خدمت ،حفاظت اور امن و امان کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے۔ اس خدمت, حفاظت اور سلامتی کیلئے مقتدر اور عوامی سطح تک پہنچ رکھنے کے لیے مختلف ادارے تشکیل  دیئے جاتے ہیں۔۔
ٹریفک حادثات ہوں، کہیں آگ لگی ہو،دہشت گردی کا واقعہ ہو جائے یا کوئی عمارت گرے،سیلابی صورتحال سے نبرد آزما ہوں یا کوئی ہنگامی حالات بن جائیں ۔راہ چلتے کوئی لوٹ مار ہو جائے،تو ان اداروں میں موجود لوگ،جو چوبیس گھنٹے  اپنی ڈیوٹی پر مستعد ہوتے ہیں،انہیں کال کیجیے،وہ لوگ فوراً شکایت کا اندراج کرکے،موقع پر اُس علاقے میں موجود اپنی گراؤنڈ ٹیم کو آگاہ کرکے اُس جگہ پہنچنےکے احکامات جاری کرتے ہیں ۔یہ لوگ عام آدمی کی جان و مال کی حفاظت کی خاطر کسی بھی حد تک پہنچ کر خدمت بجالاتے ہیں ۔

میں اپنے ساتھ ان عوامی خدمات اور فوراً موقع  پر رسائی کے لیے کچھ واقعات میں سے دو کا تذکرہ کرتا ہوں۔
سنہ2009 کے انہی ایام میں سعودی نیشنل فائبر نیٹ ورک پروجیکٹ Saudi National Fiber Network-SNFN کے سلسلے میں سعودی۔اماراتی سرحدی گزر گاہ بطحاء کے آس پاس کے علاقے میں موجود تھا۔
اس سرحدی علاقے سے تین اہم شاہرات نکلتی ہیں۔
اول۔ بطحاء۔ الخرج۔الریاض شاہراہ
دوم۔ بطحاء۔سلوی( قطر سعودی سرحدی گزر گاہ)۔الہفوف۔الدمام۔ شاہراہ۔
سوم۔ بطحاء۔الخرج۔الریاض شاہراہ سے مقام بطحاء سے طرف الریاض کم وزیادہ بیس کلومیٹرز پر ایک چوک سے شيبة آرامکو آئیل فیلڈ-سلطنت عمان کیلئے ایک نئی شاہراہ بجانب بائیں جانب نکلتی ہے۔۔ اور یہ تمام علاقہ صحرائے ربع الخالی empty_quarter کہلاتا ہے۔۔
میں اور میرا ساتھی سلیم یمنی بطحاء۔الخرج ۔ الریاض شاہراہ پر بطحاء سے بجانب الریاض تقریباً  پینتالیس پچاس کلومیٹر  کی دوری پر صبح نو بجے کے لگ بھگ مرکزی شاہراہ سے اندر صحرا کی جانب پچیس تیس میٹر  دور صحرائی ٹیلوں کے پیچھے  موجودتھے،جہاں ہمارے پروجیکٹ کی فائبرز آپٹکس کی کیبل گزر رہی تھی۔وہاں پر ایک کیبل جائنٹ پر ہمیں کام کرنا تھا۔
ٹائروں سے ہوا کا پریشر بالکل کم کر کے اللہ اللہ کر کے ریت کے ٹیلوں کی اوٹ میں کیبل جائنٹ پر گاڑی لیجانے میں کامیاب ہو گئے۔
اب سین ایسا تھا کہ ان صحرائی ٹیلوں کی وجہ سے ہم کسی کو نظر بھی نہیں آ سکتے تھے۔
کیبل جائنٹ کو ریت سے نکال کر گاڑی میں رکھ لیا اور کام میں مصروف ہوگئے۔۔تھوڑے وقت بعد ریت کے بگولے ہوا کی شدت سے اڑتے ہوئےآئے  اور گاڑی سے ٹکرانے کی آوازیں آتی رہیں۔مگر ہم دونوں کام میں مصروف رہے۔
بعد عصر کام کو نمٹانے کے بعد جب جائنٹ کو باہر واپس رکھا تو گاڑی کے چاروں ٹائرز آدھے سے زیادہ ریت میں دھنس چکے تھے۔۔
گاڑی کو چلانے ہلانے کی کوشش کی تو گاڑی ذرا سا بھی نہ  ہل  سکی۔۔
ٹائروں سے ریت ہٹانے کی کوشش شروع کی تو معلوم ہوا کہ گاڑی نیچے سے بھی ریت میں دھنس چکی ہے اور ایسے ہی تھا جیسے گاڑی ریت میں گاڑ دی ہو۔
اب کیا ہو سکتا ہے۔۔
ہم دونوں یہ طے کر کے باہری مرکزی سڑک کی  جانب چل پڑے کہ وہاں کسی آتی جاتی گاڑی سے مدد لیتے ہیں۔۔
اب شام جلد آتی معلوم ہو رہی تھی۔
آتی جاتی گاڑیوں کو مدد کیلئے ہاتھ ہلاتے مگر انجان ، سرحدی علاقے کی وجہ سے کوئی بھی رُکنے کو تیار نہیں تھا۔ہم دونوں ایک دوسرے کا منہ تکتے اور سوچتے اب کیا ہو گا، اگر رات یہیں  گزارنی پڑ گئی تو۔۔

ایسے میں ایکدم خیال  آیا کہ  سعودیہ عرب کی سڑکوں پراکثر سفر کرتے  ایک ایمرجنسی  رابطہ  نمبر دکھائی دیتا ہے   ،کیوں نہ وہاں کال کی جائے۔۔
اور جھٹ سے اس متعلقہ نمبر 996 پر کال ملائی۔
آپریٹر نے فوراً کال اٹینڈ کی۔ ہم نے اس کو اپنا محل وقوع اور مشکل بتائی، تو اس نے اسی وقت کانفرنس کال میں بطحاء میں موجود 996 کے نمائندے کو شامل کر لیا۔اس نے دوبارہ  مجھ سے میری لوکیشن اور بطحاء سے بجانب الریاض کتنی دوری پر موجود ہیں بابت سوالات کیے۔
اس نے بتایا آپ مرکزی سڑک پر رُکے رہیں۔ہماری ایک اور ٹیم 4×4 گاڑی لیکر کسی اور موقعے پر مصروف عمل ہے۔۔آپ کیونکہ ٹھیک حالت میں ہیں اور بس آپ کی گاڑی پھنسی ہوئی ہے۔آپ تھوڑا انتظار کیجئے۔ہم پہنچ رہے ہیں۔
تقریباً پچیس منٹ کے بعد جب شام کا اندھیرا اب روشنی پر حاوی ہو رہا تھا۔۔
ایک ٹیوٹا کیمری کار ہمارے پاس ہارن بجا کر رکی۔اور ایک آواز آئی۔آپ وہی ہیں جن کی کار اندر صحرا میں پھنسی ہوئی ہے۔
تو ہمارے اڑے ہوئے رنگوں میں کچھ رنگ واپس آ گئے۔۔کہ مدد آن پہنچی ہے۔
جی جی ہم نے ہی کال کی تھی۔۔
کدھر ہے گاڑی۔۔جب ان کو اندر صحرا میں لیکر گئے تو وہ بہت حیران ہوئے کہ    تم لوگ ادھر کیسے آ گئے تھے کیونکہ ریت کے ٹیلے ہوا کی وجہ سے اب اور بڑے ہو چکے تھے۔۔ اور رسائی مشکل ہو چکی تھی۔۔
خیر ان پانچ ساتھیوں نے آنً فاناً  بیلچوں سے ریت ہٹائی۔ اور گاڑی کے نیچے سے بھی ریت کو ہٹایا۔ ایک ڈرائیور سیٹ پر بیٹھ گیا باقی ہم سمیت گاڑی کو دھکا لگا کر اس پھنسی ہوئی جگہ سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔
یقین جانیے وہ واقعتاً مدد کے فرشتے ثابت ہوئے۔۔اور ہم دونوں جو پہلے مرجھائے ہوئےتھے اب خوشی سے چہک اٹھے۔

دوسرا واقعہ سنہ 2011 ابہا۔ الباحہ مرکزی سڑک پر ہوا۔
میں اور میرا ساتھی ندیم خان بالکل اس طرح سڑک سے دس پندرہ میٹر کی دوری پر کام میں مصروف تھے ،عشاء کے بہت بعد بھی ایک ضروری کام کو نمٹا رہے تھے
ہم دونوں اس وقت چونک اٹھے جب ایک شرطہ۔پولیس والے   نے گرجدار آواز میں پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے۔۔ ہم دونوں گاڑی کے اندر موجود ،باہر گھپ اندھیرا۔۔
خیر ہم نے اس کو کام اور اس کی اہمیت کے بارے بتایا کہ یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم ابھی تک اس پر کام کر رہے ہیں۔ ہمارے شناختی کارڈز اقامےچیک کرنے کے بعد جو اس نے بتایا وہ ہمارے لیے سنسنی خیز تھا کہ ہماری گاڑی کے بارے999 کنٹرول روم پر تین چار سعودی شہریوں کی جانب سے اطلاع ملی کہ ایک مشکوک گاڑی جس میں روشنی کھلی ہوئی ہے اتنی رات گئے سڑک سے پرے کھڑی ہے۔تو کنٹرول روم سے اس سڑک پر گشت کرتی ہوئی پولیس گاڑی کو ہمارے بارے بتایا تو وہ موقع  پر پہنچ گیا۔۔
تو اس نے ہمیں بس دس منٹ تک علاقہ چھوڑنے کا حکم صادر کیا اور بولا باقی کام کل دن کی روشنی میں ختم کر لینا۔۔ابھی بس نکلو۔۔

یہ ہوتا ہے کام کو عملی جامہ پہنانا، اور امن و امان کی صورتحال بحال رکھنے کی کوشش۔۔ کسی بھی وجہ کو بلاوجہ پھیلنے نہیں دیا جاتا اور صورتحال کو بہتر اور نارمل ہی رہنے دیا جاتا ہے۔۔
وطنِ عزیز پاکستان میں ایک قابلِ رشک ادارہ پنجاب ایمرجنسی 1122 لاہور پائلٹ پراجیکٹ سنہ 2004 میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے بعد سنہ 2006 میں پورے پنجاب کےضلعی  سطح تک  پہنچ گیا ۔۔
اس نئے ادارے پنجاب ایمرجنسی المعروف 1122 ریسکیو     نے اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی عوامی خدمات کی بناء پر کافی مقبولیت حاصل کر لی۔۔
2004 سے پہلے پاکستان میں کوئی منظم ہنگامی طبی امداد کا نظام نہیں تھا۔۔ اسی سال ریسکیو 1122 کو ایک پیشہ وارانہ پری ہاسپٹل ایمرجنسی سروس کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔
اور یہ ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں اوسطاً سات منٹ کا وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔۔اس وقت ریسکیو 1122 دنیا میں ایک باہم مربوط ہنگامی خدمات کے طور پر مصروف عمل ہے۔ایک ہی ہیلپ لائن 1122 سے آگ،حادثات،ہنگامی حالات،سیلاب، ڈیزاسٹر مینجمنٹ،عوام کی خدمات کے ساتھ ساتھ جانوروں کے بچاؤ کے لیے خدمات پیش کرتا ہے۔۔
ریسکیو 1122 کا سب سے بڑا مسئلہ عوام کی طرف سے جعلی، غلط ،غیر متعلقہ اور مزاقیہ فون کالز ہیں جو اس کی خدمات کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔۔
بوگس اور جعلی کالوں کے  کوائف 2019 میں 1122 ریسکیو۔کے پی کے: 1.55 ملین کالز (8 ماہ جنوری – اگست 2019)
پشاور ریسکیو779000 کالز
نوشہرہ ریسکیو248949 کالز
ایبٹ آباد 97569 کالز
مردان 7718 کالز
پنجاب: فیصل آباد 1.18 ملین کالز (12 ماہ) 2019)
راولپنڈی 90000 کالز (مارچ 2019)
لاہور 905700 کال وصول کرتا ہے
گلگت بلتستان: 352789 کالز
ڈیٹا مختلف نیوز چینل سے جمع کیا گیا ہے جس میں جعلی کالز کو ریسکیو 1122 کو اطلاع دی گئی ہیں۔

ہنگامی خدمات جو بیمار اور دکھی انسانیت کی فوری مدد کرتی ہیں اور ایسے اداروں کی ہر ممکن مدد کی جانی چاہیے۔ پھر بھی معاشرے کے کچھ غیر سنجیدہ عناصر جعلی اور غیر متعلقہ  کالوں کے ذریعے محکمہ کو تنگ کرتے ہیں اور اس کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔کیا اس کا سدِ باب ممکن ہوپائے گا؟

نوٹ: اس تحریر کے لئے آنلائن لائبریری سے مدد حاصل کی گئی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply