خلافت کا قیام۔۔ (قسط11) وہاراامباکر

زیدان الجبیری، رامادی کے قریب رہنے والے ایک قبائلی راہنما تھے جن کا بھیڑیں پالنے کا بڑا فارم تھا۔ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ ان کا امریکیوں پر اعتماد کب ختم ہوا تھا۔ جب عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تھا تو انہیں یہ امید تھی کہ شاید کچھ بہتری آئے گی اور ملک ایک پولیس سٹیٹ سے بدل کر آزادی کا رخ کرے لیکن پھر 28 اپریل 2003 آ گیا۔ بغداد پر صدام حکومت کو ختم ہوئے تین ہفتے گزر چکے تھے اور ابھی جارج بش کی “مشن پورا ہوا” کی مضحکہ خیز تقریر ہونے میں تین روز رہتے تھے۔ چالیس سالہ شیخ زیدان یہ دیکھ رہے تھے کہ نئے حکمران کیسے ملک کو چلاتے ہیں۔ لمبے کرفیو اور سفری پابندیاں ان کے اون اور گوشت کے کاروبار کے لئے اچھی نہ تھیں۔ لیکن دلیم قبیلے کے دوسرے افراد کی طرح وہ ان نئے آنے والوں کو ابھی موقع دینا چاہتے تھے۔

حملہ آوروں کے ٹینک قریبی شہر فلوجہ میں پہنچے تھے اور اپنا کیمپ سرکاری عمارتوں میں قائم کیا تھا۔ اس روز کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو سو نوجوان امریکہ مخالف نعرے لگاتے ہوئے احتجاج کرنے نکلے تھے۔ قابضین کے خلاف احتجاج کر رہے تھے کہ امریکیوں کی طرف سے فائر آیا۔ سترہ مظاہرین اس میں ہلاک ہو گئے۔ عراقی غصے میں بپھر گئے لیکن زیدان صلح کے موڈ میں تھے۔ انہوں نے ایک انبار صوبے کے دوسرے قبائلی لیڈروں کے ساتھ ملکر ایک حل ڈھونڈا اور فلوجہ میں امریکی کمانڈروں کے پاس گئے۔

“ہم قبائلی ہیں اور قبائل حل پیش کرنے آئے ہیں۔ مرنے والوں کے خاندان ہیں۔ ان کے بچے ہیں۔ ان خاندانوں کو دیعت دے دیں۔ ان کا مستقبل بھی محفوظ ہو جائے گا۔ ان خاندانوں کے بچے جنگ کا راستہ بھی نہیں لیں گے”۔

اس کا جواب کچھ دنوں کے بعد آیا۔ امریکہ دیعت دینے کو تیار تھا۔ اس کا ریٹ تین ہزار ڈالر لگایا گیا تھا۔ زیدان شدید غصے میں تھے۔ “تین ہزار ڈالر؟ کیا یہ پولیس کے کتوں کا ریٹ ہے یا عراقی انسانوں کا”۔

وہ کہتے ہیں کہ “اس کے بعد مجھے پتا لگ گیا کہ ان نوواردوں سے کوئی اچھی امید نہ رکھی جائے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیدان جب تیس سال کے تھے، اس وقت صدام حسین کے خلاف ائیرفورس کے جنرل نے بغاوت کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبہ پکڑے جانے پر ڈیڑھ سو فوجی افسوں کو سزائے موت دی گئی تھی جبکہ زیدان اور ان کے بھائی سمیت ہزاروں افراد گرفتار ہو گئے تھے۔ ان کو سزائے موت دئے جانے کے بالکل قریب معافی دے دی گئی تھی۔ یہ صدام حسین کا سُنی قبائل سے تعلقات بہتر کرنے کے لئے لیا گیا اقدام تھا۔

زیدان صدام کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن ایک قوم پرست تھے جنہیں عراقی ہونے پر فخر تھا۔ “عراقی تہذیب سات ہزار سال پرانی ہے جبکہ امریکی دو سو سال پرانی۔ ان کا ہم سے کیا مقابلہ”۔

زیدان نے پھر بھی امریکیوں سے تعلقات ٹھیک رکھنے کی کوشش کی۔ امریکی یومِ آزادی کے وقت کمانڈر کو قبائلی لیڈروں کی طرف مبارک دینے جہاں پر گفتگو کے دوران ہونے والی تلخی سے زیدان نے اندازہ لگا لیا کہ یہ نووارد فوجی نہ صرف نالائق ہیں بلکہ عراق اور اس کی تہذیبی روایات سے مکمل طور پر بے خبر بھی۔ اٹھتے ہوئے زیدان نے میرین کمانڈر کو کہا، “تم لوگ یہاں زیادہ دیر نہیں رہ سکو گے”۔ زیدان نے دیکھ لیا تھا، “اصل جنگ اب شروع ہوئی ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیدان نے امریکیوں کے خلاف 2004 میں اپنے لوگوں کو لڑتے دیکھا۔ پھر زرقاوی کے خلاف “بیداری ء  انبار” تحریک میں القاعدہ کو یہاں سے نکالنے میں مدد کی۔ پھر امریکی فوج کے چلے جانے کے بعد عراقی حکومت کی فرقہ وارانہ حرکتوں کے خلاف 2010 میں ہتھیار اٹھاتے دیکھا۔ زیدان کے مطابق، “امریکیوں نے جو بھی بُرا کیا، عراقی حکومت نے اس سے بھی بدتر۔ امریکی کم از کم مذہب کا احترام کرتے تھے۔ مسجدوں میں نہیں گھس کر مارتے تھے۔ ایران کی پشت پناہی والے یہ لٹیرے اور فرقہ پرست مذہبیوں نے تو کسی چیز کا بھی لحاظ نہیں کیا۔ 2012 میں نور المالکی حکومت نے جب حکومت پر تنقید کرنے والے مقبول سیاستدان اور سابق وزیرِ خزانہ رفیع ال عیسوی کو گھر سے گرفتار کر لیا تو فلوجہ میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے جو اگلے برس تک چلتے رہے۔ ایک سال بعد مالکی حکومت نے سخت ایکشن لیا۔ جواب میں ہونے والی جھڑپوں کا سخت ردِعمل آیا۔ دلیم قبائل نے داعش سے اتحاد کر لیا۔ اس کو سابق بعث تنظیم نقشبندی آرڈر سے بھی مدد مل گئی۔ حکومت سے خائف قبائل نے فلوجہ داعش کے حوالے کر دیا گیا۔

عراق میں داعش کے پاس آنے والا یہ پہلا شہر تھا۔ زیدان الجبیری کے مطابق، “یہ ایک قبائلی بغاوت تھی”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داعش کا بڑا حملہ 5 جون 2014 کی رات کو شروع ہوا۔ بغدادی کے البدری قبیلے کے شہر سامراء کے جنوب میں پولیس سٹیشن کو اڑا دیا گیا۔ کچھ گھنٹوں بعد پک اپ ٹرکوں میں ڈیڑھ سو جنگجو اینٹی ائیرکرافٹ گنیں لئے شہر میں داخل ہوئے۔ اس کی مرکزی میونسپل عمارت پر اور شہر کی یونیورسٹی پر قبضہ کر لیا۔ العسکری مسجد کے قریب پولیس دفاعی پوزیشن لے چکی تھی۔ عراقی فوج کو بغداد سے روانہ کیا گیا۔ حملہ آور پیچھے ہٹ گئے لیکن داعش فلوجہ سے لے کر شامی سرحد تک چھ قصبوں پر قبضہ کر چکی تھی۔

داعش کا بڑا دستہ ڈیڑھ ہزار جنگجووٗں پر مشتمل تھا۔ یہ موصل کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اٹھارہ لاکھ آبادی والے اس قدیم شہر کی حفاظت کیلئے عراقی فوج کی تعداد کاغذوں پر پچیس ہزار تھی جبکہ اصل میں دس ہزار کے قریب تھے۔ باقی یا تو چھوڑ چکے تھے یا گھر بیٹھ کر تنخواہ وصول کرتے تھے۔ اسلحہ داعش کے پاس زیادہ تھا۔

تموض میں داعش کا پہلا دستہ پک اپ ٹرکوں پر سوار مشین گنوں سے گولیاں برساتا نمودار ہوا۔ ساتھ ہی داعش کے شہر میں چھپے سیل متحرک ہو گئے۔ شہر کے اندر سے گرینیڈ اور فائر آنے لگا۔ دفاع کرنے والی فوج پیچھے ہٹنے لگی۔ چند گھنٹوں بعد داعش کے ٹرک موصل ہوٹل کے قریب پہنچ چکے تھے جہاں پر جنرل غورای کا کمانڈ سنٹر تھا۔ فیصلہ کن مرحلہ شام ساڑھے چار بجے آیا۔ دھماکہ خیز مواد سے بھرا ہوا ایک بڑا ٹرک اس ہوٹل سے جا ٹکرایا اور عراقی فوج کا کمانڈ سنٹر اڑا دیا۔ اس نے پورے موصل کو ہلا کر رکھ دیا۔ عراقی فوج جلد ہی شکست کھا چکی تھی۔ پولیس اور فوج کے جوان اپنی وردیاں اتار کر سادہ کپڑوں میں بھاگ رہے تھے۔ پکڑے جانے والوں کو قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا جاتا تھا۔

چار دن کے اندر دس جون کی دوپہر تک جہادی موصل کا ائیرپورٹ اور شہر کا زیادہ تر حصہ کنٹرول کر رہے تھے۔ شہر کے بینک کیش سے خالی کر دئے گئے تھے۔ عراقی فوج اور حکومت کا ساز و سامان مالِ غنیمت کے طور پر قبضے میں لی لیا گیا تھا۔ موصل کی جیل میں قبضہ حاصل کیا گیا۔ سُنی قیدی رہا کر دئے گئے۔ 670 شیعہ، کرسچن اور کردوں کو وہیں سزائے موت دے دی گئی۔ اس دن کے آخر تک عراق کا دوسرا بڑا شہر داعش کے قبضے میں تھا۔

عراقی فوج پسپائی اختیار کر کے دوبارہ مجتمع ہوئی اور داعش کا بغداد کی طرف مارچ روک دیا۔ جون کے آخر تک شام اور عراق میں داعش کے پاس اتنا علاقہ تھا جتنا اسرائیل اور لبنان کو ملا کر مجموعی رقبے سے زیادہ تھا۔ اس میں تیل کے کنویں، ریفائنریاں، ہسپتال، یونیورسٹیاں، آرمی بیس، فیکٹریاں، بینک سب کچھ داعش کے کنٹرول میں تھا۔ بغدادی کی صرف کیش ہولڈنگ ہی نصف ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔

داعش کی ریاست قائم ہو گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعے کی نماز کے وقت 4 جولائی کو بغدادی موصل کے بڑی جامع مسجد میں پہنچے۔ زرقاوی کے سابق شاگرد نے اپنے پہلی عوامی رونمائی میں علامات کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ سیاہ لباس اور پگڑی، جو حجة الوداع کے لباس کی سنت تھی۔ منبر کی سیڑھیاں ایک ایک کر کے آہستہ آہستہ وقفہ دے کر چڑھیں۔ اوپر پہنچ کر بات شروع کرنے سے پہلے جیب سے مسواک نکالی۔ مسواک کر کے حاضرین کی طرف منہ کیا۔ فتح کا اعلان کیا۔ کہا کہ جس خلافت کا سب خواب دیکھتے آئے ہیں، اس کا وقت آ گیا ہے۔ مجاہدین کو شاندار فتح نصیب ہوئی ہے۔ برسوں کے صبر اور جہاد کا پھل مل گیا ہے۔ خلافت قائم ہو گئی ہے۔ صدیوں سے جاری خلا پر کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ وہ خود اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں سمجھتے لیکن عارضی طور پر اس امتِ مسلمہ کے خلیفہ کی بھاری ذمہ داری نبھانے کے لئے تیار ہیں۔

اب پوری دنیا کے مسلمانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ مسلمانوں کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے ان کی پیروی کریں۔ ہم اسلام کی، مسلمانوں کی اور اسلامی زمینوں کی حفاظت کی گارنٹی دیں گے۔ بڑی مشکلات اور سخت جنگیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن ہمیں مسلمانوں کو آزاد کروانا ہے۔ اپنے ہتھیار تیار کر لیں اور اپنا تقویٰ بھی۔ قرآن کو تھام لیں۔ ہماری نظریں اب روم تک ہیں۔

اپنا خطبہ ختم کر کے، خلافت کا اعلان کر کے، بغدادی منبر سے ویسے ہی اترے۔ نماز ادا کی اور اپنے باڈی گارڈز کے حصار میں مسجد سے باہر چلے گئے۔ جنگ کے اگلے مرحلے اور اپنی حکمرانی کی تیاری کرنے کیلئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیدان الجبیری اور کئی دوسرے عراقیوں نے داعش کے ساتھ ڈیل اس لئے کی تھی کہ وہ حکومت کی فرقہ پرست پالیسیوں اور ایران کی پشت پانی والی ملیشیا سے تنگ تھے۔ ان کا داعش کے بارے میں اندازہ ٹھیک نہیں نکلا۔ فلوجہ اور موصل پر قابض داعش رقہ جیسی داعش سے مختلف نہ تھی۔ ویسے ہی ظالمانہ طریقے۔ عراقی فوجیوں کو کیمروں کے آگے پریڈ کر کے لایا جاتا۔ گولیاں مار کر گڑھوں میں پھینک دیا جاتا۔ کسی پر کفر کا شک کر کے سڑک پر ہی قتل کر دیا جاتا۔ بابل کے وہ آثارِ قدیمہ جس پر زیدان اور دوسرے عراقی فخر کرتے تھے۔ توڑ دئے گئے۔ جن عراقیوں نے ان کو خوش آمدید کیا تھا، وہ اس قسم کی حکومت کے لئے تیار نہیں تھے لیکن اب یہ دعوت نامہ واپس نہیں ہو سکتا تھا۔

لوگ حکومت سے بدظن تھے۔ داعش نے اس سے فائدہ اٹھایا تھا۔ بارہ سال سے جاری عراقی تنازعے کی خلا کو پر کیا تھا۔ صرف عراق میں ہی نہیں۔ داعش نے دوسرے ممالک میں اپنے ولایت کا اعلان کیا۔ سعودی عرب، لیبیا، الجزائر، نائیجیریا، یمن، افغانستان، پاکستان میں بھی۔

ظالم حکومتوں سے نجات کا نعرہ بلند کرنے والی اور منصفانہ معاشرے کا اعلان کرنے والی داعش نے اپنے زیرِانتظام علاقوں میں ایک بدترین مسلح ڈکٹیٹرشپ دی ۔۔۔ دولتِ اسلامیہ جس میں کرپشن، ظلم اور موت تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply