میں اک گرمی گزیدہ ہوں ( طنز و مزاح )۔۔۔سید عارف مصطفٰی

مختصر لباس کے شائقین کو نوید ہو کہ انکا پسندیدہ موسم آگیا ہے کیونکہ گرمیوں میں یوں تو بیشمار خرابیاں لیکن سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم خواجہ صاحب کو وہ دیرینہ دمساز پھولدار کچھا پہنے دیکھتے ہیں کہ جس کے پھولوں کے رنگ اب امتداد زمانہ سے محض دھبے سے دکھائی پڑتے ہیں اور جسے وہ عین خط اشتعال کی سرحد پہ باندھ کر ہماری بے داغ نیت اور بے انت تاب نظارہ کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور اگر وہ کہیں ذرا ہل ہلا کے ہاتھ اٹھا  کے انگڑائی لے بیٹھیں تو کچھا دفعتاً حدود برداشت پھلانگتا دکھتا ہے اور بنیان اوپر کو چڑھکے انکی روح فرسا و دانے دار توند کی گولائی دکھاتا ہے۔ یوں ایک ہی منظرنامے میں دو بڑے لرزہ خیزنظاروں سے نگاہوں , اخلاق اور اعصاب پہ بہت برا اثر پڑتا ہے-

ویسے گرمی کا عام مردانہ ملبوس جو تھوڑا بہت باقی رہتا ہے اسے بنیان اور شلوار کہتے ہیں اور گرمی جتنی  بڑھتی جاتی ہے ، تو بنیان اور شلوار کے پائنچے اتنے ہی اوپر کو مائل پرواز ہوتے جاتے ہیں پھر کسی وقت بنیان تو اڑنچھو ہوجاتی ہے لیکن شلوار کو معاشرہ تھامے رکھتا ہے۔ ہمارے دیہاتوں میں شلواروں کی جگہ دھوتی کا استعمال مجرب ہے جواندرونی ماحول کافی حد تک ہوا دار رکھتی ہے لیکن ہوا کا دباؤ بڑھ جائے تو خود بھی ہوا ہونے کی تیاری پکڑتی ہے ایسے میں اسے مضبوطی سے پکڑے رکھنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا ورنہ سامان رسوائی کی نمائش کے امکانات یکایک بڑھ جانے سے معاشرے میں بےراہ روی بڑھنے کے امکانات بھی دفعتاً خطرناک حد تک بڑھ جاتے ہیں۔

خواجہ کا کہنا ہے کہ موسم گرما نہایت عشق دشمن اور کیدو پرور موسم ہے کیونکہ ان دنوں عموماً بجلی کا بحران رہتا ہے اور لائٹ غائب ہوتے ہی محبوب کے ابا اور بھائی گھر کے باہر آبیٹھتے ہیں اور گھر کے آس پاس دبکے عاشق زار کو دیکھ کے وہ جوش غضب سے ‘بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں ‘ کی تصویر بن جاتے ہیں ۔۔یوں ان دنوں جو عاشق منہ سے ہائے ہائے کی بانگِ  درا سناتے دیکھے جاتے ہیں اسکی وجہ ہجر و فراق کا غم کم اور محبوب کے ستمگر اہل خانہ کی تابڑ توڑ ضرب کلیمی زیادہ ہوا کرتی ہے –

اس موسم میں اپنے اخلاق اور زبان کو مہذب رکھنے کی ایک اہم احتیاطی تدبیر یہ بھی ہے کہ بجلی جاتے ہی اسکی پیداکار کمپنی کے بارے میں رواں تبصرے سننے سے بچاجائے – اس موسم میں اک عجب سی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ گرما گرما آپا دھاپی مچی ہوتی ہے اور سبھی کو بس اپنی اپنی پڑی ہوتی ہے – ہر روزسہ پہر آتے آتے حالت یہ ہوجاتی ہے کہ فرہادِ وقت اپنا طرف تیشہ ایک طرف کو ڈالے کوہ ستون کی اوٹ میں ایک سائے میں پڑا پیٹ کھجاتا ہونکتا دکھتا ہے تو دوسری طرف شیریں بھی فرہاد کی جانب سے کان لپیٹے ، ٹانگ کے پھوڑے پہ پلٹس باندھے گرمی سے بولائی بولائی غٹا غٹ ستو اور سردائی کے جام لنڈھارہی ہوتی ہے-

موسم گرما کے بارے میں جو بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دراصل کھجلیوں کا موسم ہے جسے حالت سکون میں موجود مہذب لوگ بڑے رکھ رکھاؤ سے خارش کہتے ہیں لیکن جیسے ہی یہ انکودرپیش ہوجائے وہ بھی اسے صرف کھجلی کہنے پہ اتر آتے ہیں کیونکہ اس صؤتی تاثر سے بھی تھوڑا سا سکون ضرور ملتا ہے – بلاشبہ یہ واحد قومی مشغلہ ہے کہ جس سے ملنے والی آسودگی پہ ساری قوم متفق ہے – خارش موسم گرما کا وہ عطیہ ہے جو کسی کو کہیں بھی عطا ہوجاتا ہے اور بقدر ہمت و کثرت نجاست ہر کسی کوتھوڑا بہت ضرور نصیب ہوتا ہے تاہم بعضے ایسے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ محض نہانے دھونے اور صاف ستھرا رہنے سے اجتناب ہی کھجلی پروری کا باعث ہوتا ہے تو وہ تو غسل خانے ہی سے اپنا چمڑا کھجاتے برآمد ہوتے ہیں ۔۔۔ موسم گرما میں جہاں دیکھو جسے دیکھو ہرکوئی کہیں نہ کہیں حسب توفیق کھجانے میں مصروف دکھائی دیتا ہے – لیلیٰ کھجارہی ہے مجنوں کھجارہا ہے ۔۔۔ لیکن جوکوئی جس وقت مصروف کھجلی ہوتا ہے اک عجب سا سرور اور کیف اسکے چہرے سے ہویدا ہوتا ہے شاید ویسا ہی کیف جیسا شہنائی بجاتے وقت بسم اللہ خان یا ستار کے تار چھیڑتے سمے روی شنکر کے چہرے پہ نظر آتا ہے یوں یہ کھجلی اپنی طبعی کیفیت کے لحاظ سے بھلے ہی کوئی سائنسی جواز رکھتی ہو مگر کھجانے کی مشق اسے ذہنی آسودگی کا ذریعہ بنا کر ایک جمالیاتی عمل میں بدل دیتی ہے

خیالی کہتے ہیں گرمیوں کا موسم بڑا واہیات ہوتا ہے۔۔۔ کراچی میں تو شاید سمندر سے ڈر کے چند ہی دنوں میں شہر چھوڑ دیتا ہے لیکن لاہور میں تو جیسے داتا دربار کے سامنے ملنگوں کے ساتھ ہی پڑجاتا ہے – کراچی کی گرمی بس اسی قدر کو ہوتی ہے کہ ایک قلفی دکھا کے بھگائی جاسکتی ہے مگر اصل گرمی تو اندرون سندھ پڑتی ہے کہ جو انکی عقلیں ماؤف کرچھوڑتی ہے اور جسکا ثبوت ہربار کے انتخاب نتائج میں صاف جھلکتا ہے ادھر اپنا ملتان تو جیسے ایک بڑے سے تندور کا نام ہے کہ جہاں کے شہری 7 ماہ روٹیوں کی طرح اس بڑے تندور کی دیواروں پہ چسپاں ہوئے دکھتے ہیں- یہاں موسم گرما ذرا دیر کو نہیں سستاتا بلکہ رات کو زیادہ چٹاخ پٹاخ ہوجاتا ہے اور جس برے مانس کو جنت نہ ملنے کا پکا یقین ہو وہ جہنم کی تپش جھیلنے کی پریکٹس کے لیئے مئی جون میں ملتان رہ آئے – ہم بھی پہلی بار وہاں جون میں گئے تھے اور صبح صبح پہنچے تھے اور ارادہ 4 دن ٹھہرنے کا تھا مگردوپہر آتے آتے ہم انگارہ بن چکے تھےاور سہ پہر  سےبہت پہلے ہی ہم بھوبھل میں بھلستی شکرقندی سے نظر آرہے تھے اور شام کو ہی اس بھٹی سے یہ بڑبڑاتے ہوئے نوک دم ہوئے تھے کہ” جان ہے تو جہان ہے ورنہ تو مقدر میں ملتان ہے “۔

اس بات میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ موسم گرما کا سب سے زیادہ اثر اخلاق و مزاج پہ پڑتا ہے اور جو منش گرمیوں میں بھی اے سی اور پنکھابند ہونے کے بعد بھی خوش اخلاق رہ پائے اسے ہی بھلمناسٹ کی سند ملنی چاہیے وگرنہ کپکپاتے سرد موسم میں مذاق کرنے بلکہ گرما گرم مذاق کرپانے کی تاب تو اکثر میں ہے لیکن جلتے بھلستے موسم میں محض ٹھنڈا مذاق بھی کرپانا شا  ذ ہی کسی کے بس میں ہو ۔۔ جس کسی کو اس موسم میں حقیقی متقی کھوجنا ہو تو وہ کسی تقدس سے لبریز روحانی محفل میں بھی ، گھومنے والے پنکھے کو اچانک اپنی طرف زیادہ موڑ لے اوراگر پھر بھی وہاں کوئی ایک فرد بھی ایسا پائے کہ جوآن کی آن تتیا مرچ بنتا نہ دکھائی دے اور شانت رہ جائے تو بس بیشک آنکھ بند کرکے اسی کے ہاتھ پہ بیعت کرلے ، مگر شرط یہ ہے کہ وہ تقدس ماب طبعاً دمے اور مزاجاً بلغم کا مارا نہ ہو ۔

گرمیاں عروج کو پہنچتے ہی  یہ نوبت بھی آجاتی ہے کہ روزانہ کئی بار نہانا مشکوک نہ رہ جانے کے باوجود بھی زوجہ کا دائرہء اشتہاء ، چھپی باردودی سرنگوں سے ُپر میدان محسوس ہونے لگتا ہے ۔۔۔ لائٹ چلی جائے اور بجلی کا متبادل انتظام نہ ہو تو جو خاتون ابھی تھوڑی دیر پہلے پرفیوم کی مہکار سے چمن زار بنی ہوئی تھی دو تین گھنٹے ہی میں باسی و کھٹے دہی کے کونڈے جیسے بھپکوں کا منبع بن جاتی ہے۔

موسم گرما کی اک پہچان پہلے کبھی ساون بھادوں بھی ہوا کرتا تھا ، لیکن اب بدلتے زمانے میں یہ بھی سیاسی ہوگیا ہے اور کبھی برستا ہے تو کبھی صرف گرج چمک کے ہی رہ جاتا ہے ۔۔۔ لیکن ہمارے شہر میں تو یہ  جب کبھی برستا ہے آن کی آن سڑکوں پہ دریائے کرپشن بہہ نکلتا ہے ۔ سڑکیں جوہڑ بن جاتی ہیں اور گلیاں تالاب اور دیکھتے ہی دیکھتے گٹر بھی بہہ  نکلتےہیں ، ایسے میں کہاں کا کوچہء یار اور ‘ کتھے مرزا یار پھرے’ ۔۔۔ اس وقت پھر یوں ہوتا ہے ؛انجانی راہوں پہ سنسان راتوں میں ۔۔۔ ایک مسیحا نکلتا ہے جسے لوگ ایتھے آجا کہتے ہیں اور وہ ہاتھوں میں تھامی لکڑی کی طویل کھپچی کی بدولت آپکو ساون بھادوں کی فیوض و برکات کے سیلاب سے اگلے موسم گرما یا اگلی بارش تک کے لیئے امان دلوا دیتا ہے ۔۔ خرابی مگر یہ ہے کہ ڈنڈا کرنے سے خرابی دور کرنے کا یہ فارمولا ایک ادارے کی انسپریشن بنتا ہے اور اسکا عملی اطلاق ہمیں ہر چند برس بعد دیکھنے کو مل جاتا ہے اور ہر بار وہی پرانی غلطی دہراتی نظر آتی ہے یعنی غلط زور لگانے سے ڈنڈا بھی پھنس کے ٹوٹ جاتا ہے اور صاف صفائی کا کام بھی دھرا رہ جاتا ہے اور پھر کئی ساون بھادوں ہمیں یونہی مسائل کے سیلاب میں ڈولتے ڈمکتے گزارنے پڑجاتے ہیں –

گرمی میں غسل سے بڑی نعمت کیا ہوگی کیونکہ موسم سرما میں پانی سے بھری جس پالٹی کی طرف نظر بھر کے دیکھنے سے کپکپی چڑھتی تھی اب اسی کو ہلہلا کے جھٹ پٹ سر پہ انڈیل لینے کو جی چاہتا ہے- آخر غسلخانے سے جو نہائے لوگ زخمی پیشانی لیئے باہر آتے ہیں وہ سبھی پھسل کے تو نہیں گرے ہوتے-اسی لیئے لاریب ، موسم گرما کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر طرح کے فرد کو نہانے کی توفیق عطا کرتا ہے اور اکثر کو تو بار بار ۔۔۔ یوں محض ایک خوشبو دار صابن کے بل پہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا آسان بناتا ہے -لیکن واضح رہے کہ نہانے کے لیئے لازمی درکار شے صابن نہیں پانی ہے جسکی ناگزیر اہمیت اس وقت زیادہ عیاں ہوتی ہے کہ جب شاور کے نیچے موجود نہانے والے نے پورے بدن پہ صابنی جھاگ پہن رکھا ہو اور اسکی آنکھیں مرچیلے بلبلوں کی اوٹ میں ہوں اور پانی غائب ہوجائے پھر شاور خاموش رہتا ہے اور غسلاتا فرد بولتا ہے مگر کچھ ایسا کہ سننے والوں کو صابن لگائے بغیر بھی مرچیں لگ سکتی ہیں خصوصاً واٹر بورڈ والوں اور انکے شجرہء نسب کے چنیدہ افراد کو  اس وقت انکے پورے جسم پہ جتنا جھاگ ہوتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ انکے منہ سے نکل رہا ہوتا ہے- لیکن کچھ لوگوں کی سوچ زیادہ جدید ہوجانے کی وجہ سے وہ اس مسئلے کا قدیمی حل نہیں نکال پاتے ورنہ تو وہ ایک بالٹی کیوں نہ خرید لاتے اور منہ سے جھاگ کیوں نکالتے ، بدن سے ہی کیوں نہ بہا ڈالتے ۔

بلاشبہ گرمی کی قہرسامانی کی کافی تلافی اور پوری ڈھارس آم ہیں ۔۔۔ اور محض اسی سوغات کی وجہ سے گرمیاں نہایت بری ہوکے بھی خاصی گوارا رہتی ہیں ۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر آم نہ ہوتے تو چلچلاتی گرمیوں سے بلبلاتے ہم اہل برصغیر اس موسم میں کیا کرتے ؟؟ ۔ یہی تو وہ معجزاتی پھل ہے کہ ایک سیزن کی حد ہی سہی مگرامیری غریبی ، رنگ و نسل اور دین دھرم کے سب امتیازات مٹا دیتا ہے
ع – بندہ و سرکار وہ محتاج و غنی ایک ہوئے ۔۔۔ آم کے تھال تک پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ۔۔۔
کیونکہ پلمبر سے وائس چانسلر تک سبھی امبوا کی بور کی مہک سے ہی میعادی باؤلے پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ پھل اس قدر عجیب ہے کہ جو اسے بڑے ولولے اور واضح بدتمیزی سے نہ کھائے اسے خوش ذوقی کی داد بھی نہیں ملتی .

Advertisements
julia rana solicitors london

موسم گرما کے رنگوں میں ایک اہم رنگ کسی برہن کے دل کی ہوک کا ہے جو کوئل کے گلے ہوک بن کے نکلتی ہے اور ہر طرف ہجر کا سوگ اور انتظار کی اداسیاں سی چھاجاتی ہیں امبوا کی ڈاریوں پہ جھلنے میں بیٹھی ناری ساون میں ڈھیروں روپیہ کمانے کو بدیس گئے اپنے پی کا بڑی بیقراری سے انتظار کرتی ہے کہ شاید اب کے ساون میں  وہ ہولے سے آجائے اور اسے چپکے چپکے جھلنا جھلانا شروع کر دے لیکن پھر جب کافی دیر کوئی نہیں آتا تو وہ برہا کی ماری آہستہ آہستہ پینگیں لیتی دکھائی دیتی ہے جھولے کی زنجیروں کی کٹکٹاتی ، کھڑکھڑاتی آواز بھی یوں سنائی دیتی ہے جیسے وہ بھی کسی یاد میں سسک رہی ہیں اور پھر دفعتاً وہ آس نراس کے بیچ ڈولتی ناری بھی دو چار جھونٹوں ہی میں بیٹھے بیٹھے آپ ہی آپ سسک اٹھتی ہے اور جھولا چھوڑ کے بلکتی سی بھاگ لیتی ہے ۔۔۔ پھر سارا ساون جھولا یونہی سونا پڑا رہتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے فریاد کناں ہو ، کیا پیا کو معلوم ہی نہیں کہ گوری کے گاؤں ساون کب کا اتر آیا ۔۔۔ لیکن وہاں بدیس بیٹھے بلماء تو نوٹوں کی خوشبو کے آگے ُبور کی سوندھی مہک اور ایئرکنڈیشنڈ کی خنکی پاکے برگد کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں تو جیسے بھول ہی گئے بلکہ دو تین ہی برس میں ساون بھادوں کے سبھی تیوروں سے انجان ہوگئے ۔۔۔ اور اب جب گاؤں کے پیڑوں پہ بیٹھی کوئی کوئل جب کوکتی ہے تبھی آپ ہی آپ گوری کے من اندر بڑے زوروں سے ساون بھادوں اترتا ہے اور پہروں آنچل بھگوتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply