غلام ہیں ، غلام ہیں۔سید شاہد عباس

اللہ کائنات تخلیق نہ کرتا اگر جناب محمدﷺ کو کائنات میں بھیجنا نہ ہوتا۔ رب کعبہ اس دنیا کی رنگینیاں نہ سجاتا اگر وجہ تخلیق کائنات کو زمین پر  اُتارنا نہ  مقصود ہوتا۔ رب دو جہاں ان جہانوں میں ایستادہ نشانیاں ظاہر نہ کرتا اگر مقصوداپنے محبوب ﷺ  کو دو جہانوں کے لیے رحمت بنانا نہ ہوتا ۔ اللہ نے اپنے محبوب ﷺ  کو اس دنیا میں تمام انبیاء علہیم السلام کا سردار بنا کر بھیجا۔ اور مسلمانان عالم کو اس خوش بختی کا حقدار ٹھہرایا کہ ہم پیارے نبی ﷺ  کی اُمت کہلوا سکیں۔ اور اُن کا اُمتی کہلوانے سے بڑھ کے خوش بختی کی علامت نہ ہوئی ہے نہ ہو سکی ہے نہ ہو سکے گی۔

مگر حیرت انگیز طور پہ ہم محبوب خدا ﷺ سے عشق و محبت کاوعویٰ تو کرتے ہیں مگر ان کی تعلیمات کو نہ جانے کیوں اپنی زندگیوں میں نافذ نہیں کر پا رہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کا کردار تو ایسا ہے کہ جوتے مبارک خون سے بھر جائیں اور دعا ہدایت کی فرماتے ہیں۔ مگر آج ہم کیا اُن کے حسن اخلاق کو اپنی زندگی میں رائج کرتے نظرآتے ہیں؟ اگر نہیں تو آخر کیوں۔ ہم کیوں ایسی محبت نہیں قائم کر پا رہے کہ اسوہ ء رسولﷺ ہماری زندگیوں میں شامل ہو جائے۔ آپ ﷺ  پہ کوڑا پھینکا جانا معمول ہو اور ایک دن اس معمول میں وقفہ آئے تو آپ ﷺ اپنے اوپر کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی خیرت دریافت کرنے پہنچ جائیں۔ اور کوئی حل کوڑا پھینکنے والی کے لیے باقی نہ رہے اس قدر اخلاق پہ کہ صرف حلقہء ایمان میں داخل ہو جائے۔ مگر آج ہم اس پیغام کی روح نہ جانے کیوں سمجھ نہیں پا رہے کہ ہمارے آپس کے اختلافات اس قدر شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے کے بھی روادار نہیں۔

ہمارے آقاﷺ  کا اخلاق تو ایسا تھا کہ ہر کوئی گرویدہ، مگر آج ہمارے لہجے میں اتنی سختی کیوں در آئی ہے کہ غیر تو غیر ہم اپنے کے لیے بھی ایسی زبان استعمال کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ جس کا اخلاق سے دور دور کا واسطہ بھی نہیں۔ ایک نوجوان کے خیالات سن کے دل دکھ میں مبتلا ہوا کہ یہ دن عام چھٹیوں کے جیسا ہی منانے کا ارادہ تھا موصوف کا اور ریلی کے لیے بائیک کی بانسری بھی نکالنا ہے کہ ریلی میں بائیک کی آواز بھی تو گونجے۔ آقائے دو جہاں ﷺ  کی آمد کی خوشی میں گلیاں و بازار سجاوٹ کا اعلیٰ نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ اور ہونا بھی چاہیے لیکن ہم نے یہ گوارا کرنے کی زحمت نہیں کی کہ جس نبی کی شریعت میں راستے سے کانٹا ہٹانا بھی باعث ثواب ہے تو ہم کتنے ہی لوگوں کے لیے راستے میں مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اور کوئی ہمیں التجائی لہجے میں بھی احساس دلانے کی کوشش کرے  تو ہم اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں۔

گلیاں ، بازار، شاہراہیں اپنی جگہ بہت اہم ہے مگر حقیقی معنوں میں جشن میلاد مصطفیﷺ  منانے کا حق یہ ہے کہ ہم اسوہ ء محمدﷺ کو اپنی زندگیوں میں نافذ کریں۔ میلاد مصطفیٰﷺ  کی ریلیاں بھی یقیناًعشق و سرور کا خزینہ ہیں۔ مگر ان ریلیوں میں اخلاقیات، درودو سلام، تقاضائے باہمی اتفاق کا عملی نمونہ اس قدر ہونا مقصود ہے کہ ہم اس دن کی اصل روح کو پا سکیں۔ آقائے دو جہاں ﷺ کی شان میں ہدیہ نعت کہ شاید یہی راقم کی بخشش کا ذریعہ بن جائے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے دل کا ہے بس آسرا، یہ سبز گنبد تیرا
میری روح میں ہے بسا ہوا، یہ سبز گنبد تیرا
تیری جالیوں کے نیچے میں پڑا رہوں بے خبر
میری دھڑکنوں کی ہے بس جِلا، یہ سبز گنبد تیرا
زندگی تمام ہو تیرے روضے کے ہی سامنے
یہی مغفرت کا ہوسبب میرا، یہ سبز گنبد تیرا
مشکلیں جو آ پڑیں میری راہگزر بنے آبلہ پا
میرا تب بنے یہی راہنما، یہ سبز گنبد تیرا
میرا مقصدِ حیات عباس ؔ بن جائے عشقِ مصطفیٰﷺ
مجھے حشر میں بھی یہی لے بچا، یہ سبز گنبد تیرا!

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”غلام ہیں ، غلام ہیں۔سید شاہد عباس

Leave a Reply