عوامی راج سویلین سپریمیسی۔۔مہر ساجد شاد

جمہوریت کی تاریخ بڑی تلخ ہے۔ اس وقت دنیا میں دو بڑی جمہوری مثالیں موجود ہیں، ایک برطانوی پارلیمانی جمہوریت اور دوسری امریکی صدارتی  نظامِ  جمہوریت ۔ دونوں طرز جمہوریت کی تعریف یکساں ہے یعنی عوام کی حکومت، عوام کے  ذریعے عوام کیلئے، لیکن دونوں کی تاریخ بہت مختلف ہے۔

جمہوریت کی روح یہ ہے کہ عوام پالیسی سازی میں بنیادی حصہ دار ہوں۔ امور ِ ریاست تین ادارے چلاتے ہیں، قانون سازی کا اختیار رکھنے والے ادارے کو مقننہ (پارلیمنٹ اسمبلی) کہتے ہیں۔ ریاست کے روزمرّہ کے امور اور نظم و نسق چلانے والے ادارے کو انتظامیہ یا عاملہ کہتے ہیں اسکا سربراہ صدارتی نظام میں صدر اور پارلیمانی نظام میں وزیراعظم ہوتا ہے۔ قانون کی تشریح اور تنازعات کا تصفیہ کرنے والے ادارے کا نام عدلیہ ہے۔ اس کے علاوہ ریاست میں سب شعبے دراصل محکمہ جات ہوتے ہیں جو کہ حکومت یعنی انتظامیہ کے زیرِ  انتظام زیرِ  نگیں ہوتے ہیں۔

پاکستان اپنے قیام کے فوراً  بعد سے ہی اختیارات کی تقسیم کے تنازع  کا شکار ہو گیا اور آج تک اس سے نہیں نکل سکا۔ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہم نے پارلیمانی جمہوری نظام کو ہی ریاست کیلئے چُنا ،لیکن ریاست کے طاقتور محکمہ نے برطانیہ کے نو آبادیاتی نظام میں اپنے حاصل شدہ خصوصی اختیارات کو جمہوریت کے تابع چھوڑنے سے احتراز کیا اور یوں عوامی راج سویلین سپریمیسی کی جنگ شروع ہوئی۔ اس میں پہلا باقاعدہ معرکہ جو ریاست کے تنازعات کے تصفیہ کے ضامن ادارہ عدلیہ کے پاس پہنچا وہ مولوی تمیز الدین کیس تھا، جو اس وقت کے اسمبلی کے  سپیکر نے اختیارات سے تجاوز کرنے پر دائر کیا۔۔ افسوس یہ کہ یہیں سے اس اہم ترین ادارہ عدلیہ نے بھی طاقت سے مرعوب ہو کر عوامی راج پر نظریہ ضرورت کے ڈھکوسلہ سے آمریت مسلط کر دی۔

یہ جدوجہد بہت سے نشیب وفراز سے گزری، کبھی مکمل آمریت نافذ رہی اور کبھی آمریت زدہ جمہوریت  اُمیدِ  منزل بنی، بہت سے لوگ اس جدوجہد میں تھوڑے یا زیادہ وقت کیلئے لیڈر بنے، سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور وقت آگے بڑھتا گیا۔ کئی لوگ بنیادی اصولوں پر ڈٹے رہے اور نظام سے نکال باہر کیے گئے یا جان سے گئے، اور کئی لوگ مصلحتوں کا شکار ہو کر گوشہ نشیں ہو گئے یا آمرانہ نظام میں کٹھ پتلی بن گئے۔

عوامی راج سویلین سپریمیسی ۔۔یہ عوام کی منزل ہے ،جس کیلئے عوام ہی جدوجہد کر رہے ہیں، اس جدوجہد میں جس نے جو بھی حصہ ڈالا وہ قابل ستائش اور قابل احترام ہے۔ لیاقت علی خان سے لے کر  آج تک سب نے عوامی شعور اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، مولوی تمیز الدین ہو یا حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو ہو یا محمد خان جونیجو، نوازشریف ہو یا بے نظیر، ظفراللہ خان جمالی ہو یا یوسف رضا گیلانی، نوابزادہ نصراللہ خاں ہو یا عبدالولی خان، حاصل بزینجو ہو یا محمود خاں اچکزئی، عمران خان نیازی ہو یا مولانا فضل الرحمن سب نے عوام کو شعور دیا کہ جمہوریت کیا ہے اور عوامی راج کیوں ضروری ہے۔

ن لیگ کا ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ہو یا عمران خان کا ماضی میں بطور اپوزیشن کردار اور مولانا فضل الرحمن کا موجودہ اپوزیشن کا کردار عوام کی تربیت کا گراں قدر کام ہے ،ایسا سچا اور کھرا کام کہ یہ لوگ اس سے بھلے ہٹ بھی جائیں لیکن عوام نے یہ سبق خوب یاد کر لیا، عوام نے ان کی جدوجہد سے سیکھا ،ان کی غلطیوں سے سیکھا، ان کی مصلحتوں سے سیکھا، یہی وجہ ہے کہ آج پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے آرمی ایکٹ پر تمام عوام کا موقف ایک ہے۔ حکومتی جماعتوں کے ووٹر ہوں یا اپوزیشن جماعتوں کے ووٹر سب یہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی عوامی راج کا فیصلہ نہیں ہے، یہ ایک جمہوری لیکن کوئی قابل ستائش قدم نہیں ہے۔ اسے بہت سے لوگ جمہوریت کیلئے المیہ گردانتے ہیں،  پارلیمنٹ میں چند آوازوں کے علاوہ سب جدوجہد کے استعارے زمیں بوس ہوئے۔

لیکن یہی قاعدہ ہے کہ عوام کا اجتماعی شعور آنے والے وقت میں عوامی راج سویلین سپریمیسی کیلئے تازہ دم رہنماؤں کو آگے لے آئے گا اور منزل کی طرف سفر جاری رہے گا۔ عین ممکن ہے ان مصلحت کے شکار حکومتی اور حزب اختلاف کے کمزور حوصلہ لوگوں میں سے ہی کوئی “بس بہت ہو گیا” کا نعرہ لگا کر جدوجہد کا عَلم اٹھا لے، عوام تو عازم سفر ہے ،جو جاتا ہے ،جائے۔۔ جو آئے، خوش آمدید۔

برطانیہ کا جمہوری سفر ۱۲۱۵ میں میگنا کارٹا کے سنگ میل سے شروع ہوا اور ساڑھے سات سو سال میں وہاں پہنچا جہاں آج اسے ایک جمہوری مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے سفر کی عمر تو ابھی صرف ستر سال ہے ، سفر امید کیساتھ جاری رہنا چاہیے نجانے کس موڑ پر منزل آ جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply