سگریٹ ،شراب اور ملک مخالف نعرے۔۔ابھے کمار

آر ایس ایس جے این یو کے بارے میں اتنا ہی جانتی ہے۔
سردی کی آمد کے بعد بھی جے این یو کی طلبہ تحریک ٹھنڈ پڑتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ فیس میں بے تحاشا  اضافہ کے خلاف طلبہ  احتجاج کرنے  کو  کھڑے ہیں۔ ہر روز اُن کے اوپر طرح طرح کی دشواریاں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، پولیس اور سی آر پی ایف کے جوانوں کو کیمپس کے اندر تعینات کیا گیا، مگر اس سے ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ لاٹھی چارج کروایا  گیا ، جس میں بعض مظاہرین کی ہڈیاں تو ضرور ٹوٹ گئیں، مگر ان کے ارادے نہیں ٹوٹے۔خواتین طالبات کے ساتھ بد سلوکی کے بھی واقعات پیش آئے، مگر ان کا اتحاد ذرا بھی کمزور نہیں ہوا۔ یہ بھی تو کم شرمناک اور بزدلانہ کارروائی نہیں ہے جب وزیر اعظم کی رہائشی گاہ کے قریب ایک شام  سٹریٹ لائٹ بُجھا کر پولیس نے ڈنڈوں سے طلبہ مظاہرین کو پیٹا۔

یہ سارے واقعات طاقت کا بیجا استعمال نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ مگر صرف طاقت کے زور پر ہی بھگوا طاقتیں اپنی بالادستی نہیں قائم کیے  ہوئے  ہیں۔ ان کے ترکش میں پروپیگنڈہ کا تیر بھی ہے،اپنے ناقدین کی شبیہ بگاڑنے میں بی جے پی کی پرینٹل تنظیم آر ایس ایس کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔

آر ایس ایس کا ترجمان “پانچ جنیہ” کا تازہ ترین شمارہ ( یکم دسمبر) نے جے این یو تحریک کو کور سٹوری بنایا  ہے، مگر افسوس کہ اس بار بھی بہت کچھ نیا پڑھنے کو نہیں ملا ہے۔
پانچ جنیہ کی کور سٹوری کا خلاصۃ یہ ہے کہ “سمٹتی ہوئی لیفٹ تحریک” فیس میں اضافے کا بہانہ بنا کے ایک “بڑا ہنگامہ” کھڑا کر رہی ہے۔ لیفٹ کے لیڈران پر یہ بھی سوال اٹھایا گیا ہے کہ جو فیلوشپ کا پیسہ “مہنگی” شراب اور سگریٹ پر خرچ کر دیتے ہیں اُن کو “غریبی” پر بولنے کا کیا حق ہے۔ یہی نہیں جے این یو کے لیفٹ طلباء اور تنظیم کو ملک اور ہندو مخالف طاقتوں کے مفاد کو پورا کرنے اور “جہادیوں” کی “جے کار” کرنے کا بھی بے بنیاد الزام لگایا گیا۔ مختصراً، آر ایس ایس کی مانیں تو مہینے بھر سے زیادہ چل رہے جے این یو کی طلبہ تحریک ایک “بڑا ہنگامہ” ہے جو “چھوٹے مسئلے” پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔
آر ایس ایس کی تنگ نظری دیکھیے کہ اپنے ناقدین کو خارج کرنے کی جلدبازی میں نہ تو وہ جے این یو کے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے اور نہ ہی اپنے ناقدین کے خلاف کوئی مضبو ط دلیل ہی پیش کر پا رہی ہے۔ یہ کتنے  افسوس کی بات ہے  کہ فیس میں بے تحاشا اضافے کو ایک “چھوٹا” سا مسئلہ کہا جا رہا ہے۔ یہ بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ہاسٹل کی فیس ۳۰ روپے سے بڑھا کر  ۳۰۰ روپے کر دینے پر اتنا واویلا کیوں مچایا جا رہا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ فیس میں اضافہ کچھ روپوں کا نہیں ہے بلکہ یہ اضافہ ہزاروں کا ہے۔ جے این یو انتظامیہ اب طلبہ کی جیب سے میس میں کام کر رہے مزدوروں اور ہوسٹل کی صفائی کے رہے ملازمین سے وصول کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح ہاسٹل کی  کُل فیس تقریباً ۷۰ ہزار روپے سالانہ ہو جائےگی۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو جے این یو کے دروازے غریب اور محکوم طبقات کے بچوں کے لئے بند ہو جائیں گے۔ خود جے این یو انتظامیہ کے ذریعےجاری کی ہوئی حالیہ رپورٹ میں یہ بات ریکارڈ کی گئی ہے کہ یہاں پڑھنے والے ۴۰ فی صد طلبہ غریب اور کمزور طبقے سے آتے ہیں۔

کیا فیس میں بے تحاشا اضافہ ان کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہے؟ کیا پبلک اداروں کے کردار کو بدلنا ایک معمولی بات ہے؟ کیا تعلیم کو بازار کی شئے بنا دینا ایک چھوٹی سی بات ہے؟ اگر نہیں تو آر ایس ایس فیس اضافے کے خلاف چل رہی  طلبہ تحریک کو ہنگامہ کہہ کر کیوں بد نام کر  رہی ہے؟ آخر فیس میں اضافے کو ایک چھوٹا مسئلہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ اگر وسائل کی کمی ہے تو پھر ہرسال بڑے بڑے تاجروں کے کروڑوں روپیہ کے قرض کو کیوں معاف کر دیا جاتا ہے؟ آخر کروڑوں روپے بڑے بڑے لیڈران کی سکیورٹی پر کیوں خرچ کیا جاتا ہے؟ آخر یہ پیسہ بھی تو پبلک کا ہی ہے؟
آر ایس  ایس کے  دیگر دلائل بھی کافی کمزور نظر آ رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ جے این یو اس ادارے کی طرح ہے جس کی پست پناہی چرچ کرتے ہیں، جو انسان کی خدمت کے نام پر کنورژن کرتے ہیں، جو لوگوں کی تشکری کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جنسی استحصال جیسے گندے کام  انجام دیتے ہیں۔

دیکھیے ذرا کس قدر جے این یو جیسے ایک تعلیمی ادارے اور چرچ جیسے ایک مذہبی ادارے کو ایک کر کے پیش کیا گیا ہےاور کہا گیا ہے کہ دونوں خدمتِ خلق کے نام پر انسانیت کے دشمن ہیں۔ اس طرح کی دلیل پیش کر کے آر ایس ایس اپنی فرقہ ورانہ اور اقلیت مخالف ذہنیت کا ثبوت پیش نہیں کر رہی ہے تو اور کیا کر رہی ہے؟ یہی نہیں ایسے بے بنیاد الزام اس بات کا بھی ثبوت ہیں  کہ وہ اپنے ناقدین لیفٹ تنظیموں کے خلاف کوئی مضبوط دلیل نہیں رکھتی ہے۔

مذکورہ کور سٹوری میں لیفٹ تنظیم کے خلاف اور بھی بہت کچھ کہا گیا ہے، جو نا  صرف تاریخی طور پر صحیح نہیں ہے بلکہ اس طرح کی گفتگو کی یہاں کوئی ضرورت نہیں تھی۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ پانچ جنیہ کا خصوصی شمارہ جو فیس میں اضافے کے موضوع پر شائع کیا گیا ہے وہ اپنی زیادہ تر توانائی “نکسل ازم” کی ” خونی” تحریک پر چرچہ کرنے   میں ضائع کر دیتا ہے۔

جے این یو ایک پبلک یونیورسٹی ہے جہاں ہر خیال کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ جے این یو کے اندر لیفٹ نظریے کے حامل لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے مگر یہ کہنا کہ وہاں کے سارے طلبہ لیفٹ یا نکالی ہیں، تو یہ سراپا غلط ہوگا۔ یہ حقیقت آر ایس ایس بھی بخوبی جانتی ہے مگر وہ بتلاتی نہیں ہے کہ لیفٹ تنظیم کے اندر خود نكسل ازم کو لے کے ایک رائے نہیں ہے۔

اس کور سٹوری  میں سب سے متنازعہ مضمون شنکر شرن کا ہے، جنہوں نے جے این یو کی شبیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ شرن آر ایس ایس نظریے کے حامل ہیں اور پانچ جنیہ کے علاوہ دیگر اخبارات میں بھی لکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا پانچ جنیہ میں الزام لگایا کہ جے این یو کا استعمال “بھارت مخالف” اور “ہندو مخالف” طاقتوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ غور کیجیے کس طرح بھارت اور ہندو کو ایک کر دیا گیا ہے۔ یہی نہیں یہ بھی کہا گیا کہ جے این یو میں “جہادیوں” کے حق میں نعرہ لگتا ہے۔

شنکر شرن نے طلبہ سیاست کو ختم کرنے کی بھی وکالت کی ہے، جو کسی بھی طریقے سے جائز نہیں ہے۔ اُن کی نادانی دیکھیے کہ وہ طلبہ کو ادبی معاملوں میں حصہ لینے کی بات کرتے ہیں مگر سیاسی حلقے میں نہیں۔ اُن سے کون پوچھے کہ ادبی اور سیاسی حلقے کو کبھی بھی الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ سیاسی دنیا اور ادبی دنیا اپنے اپنے طریقے سے کام کرتی ہے۔

جناب شرن صاحب یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جے این یو نے بر سر اقتدار مودی حکومت کو دو وزراء عطا کیے ہیں۔ جے این یو کے علاوہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں نے آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اے وی بی پی کو لاکھوں ممبران اور ہزاروں لیڈران عطا کیے ہیں۔ اگر طلبہ سیاست پر پابندی لگ جاتی ہے، جیسا کہ شرن صاحب چاہتے ہیں، تو اے وی بی پی کہاں سیاست کرےگی؟

تضاد دیکھیے کہ اسی شمارے میں ڈاکٹر پر ویش کمار کا مضمون طلبہ تحریک جو گاندھیائی طریقوں پر مبنی ہو، اس کی اجازت دیتا ہے۔
یہ تضاد اس لیے سامنے آ رہا ہے کہ آر ایس ایس کے پاس فیس میں اضافے کے حق میں کوئی پختہ دلیل نہیں ہے۔ تبھی تو اس نے اپنی ساری توانائی لیفٹ تنظیم اور اقلیتوں کو برا بھلا کہنے میں لگا دی ہے۔ اس کا بھی جواب آر ایس ایس کے پاس نہیں ہے کہ تعلیمی اداروں کو بازار کی شئے بنا دینے سے بھارت علم کے حلقے میں “وشو گرو” کیسے بن جائےگا؟ اس کا بھی تو جواب آر ایس ایس کو دینا ہوگا کہ آخر کیوں جے این یو کے خلاف ملک مخالف ہونے کا پروپیگڈہ اور فیس میں بے تحاشا اضافہ کا منصوبہ ایک ہی وقت سامنے آتا ہے؟
(مضمون نگار نے حال ہی میں جواہرلال نہرو یونیورسٹی سے مطالعات برائے تاریخ میں اپنی پی.ایچ.ڈی جمع کی ہے۔)

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply