چوہڑے۔۔ڈاکٹر اسد امتیاز

لفظ چوہڑا سنتے ہی آپ کے ذہن میں کیا آیا ہے؟
جو بھی کہیں آپ،اپنے آپ سے جھوٹ نہیں  بول سکتے،اپنی سوچ پر جتنی بھی ملمع کاری کر لیں،آپ کے اندر کا الارم بجنے لگتا ہے کہ “ اے گل ٹھیک نئیں ”

جی یقیناً اس لفظ سے ہمارے ذہنوں میں فوراً ایک مخصوص پاکستانی عیسائی  طبقہ آ جاتا ہے۔
ہے نا؟

تو آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ یہ خیال نا  صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ اپنے اصل معانی میں تاریخی طور پر بھی غلط ہے،اور نہ ہی یہ لفظ کسی مذہبی طبقہ کے بارے میں حقارت انگیز ہے،جیسا کہ ہم عمومی طور پر جانے انجانے میں استعمال کرتے ہیں۔

اس لفظ کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ شمالی ہندوستان میں “کام” کرنے والوں کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا،جس میں ایک نام چوڑا بھی تھا۔۔
مہتر
چوہڑا
لال بیگ
حلال خور
مصلی
خاکروب
بھنگی

یہ ساتوں القابات شمالی ہندوستان میں امرا ء کی املاک میں صفائی کرنے والوں کیلئے استعمال ہوتے تھے،برِصغیر کے تمام عیسائی  نہیں  (بہت سے کرسچئنز کا تعلق ایلیٹ اور مڈل کلاس سے بھی تھا) بلکہ صرف اوپر بیان کردہ طبقات،جو کہ صرف عیسائی  ہی نہیں ہیں(آگے ذکر ہو گا)،کی origin زیادہ تر ہندوؤں کی سب سے نچلی ذات “شودر” سے تھا،آہستہ آہستہ مندرجہ بالا القابات میں سے چوہڑا کہلانے والے کثیر تعداد میں ہوتے گئے اور یہ باقاعدہ ایک ذات بن گئی ۔

چونکہ شودر،ہندو ازم میں بہت ہی غریب اور پسا ہوا طبقہ تھا بلکہ ہندو دھرم میں تو یہاں تک کہا سنا جاتا تھا کہ یہ لوگ پچھلے جنم میں اپنے کئے ہوے گناہوں کی وجہ سے سزا کے طور پر اس حال میں ہیں۔اور ہم پتہ نہی کس جنم کی سزا دے رہے ہیں ان کو،اونچی ذات ہندوؤں کی نفرت و حقارت کے پیش نظر،اور برصغیر میں،عیسائی  مشنریوں نے جب تبلیغ کے نقطہ نظر سے انہیں گلے لگایا تو کثیر تعداد میں یہ لوگ عیسائی  مذہب اختیار کرتے گئے،مدَر ٹریسا اور انکا انسانیت دوست مشن اسکی کھلی مثال ہے۔

بہت سے شودر آج بھی ہندو ہیں،اور آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی چوڑا کہلاتا ہے،وہ شودر جو جامع مسجد دہلی کے اردگرد آباد تھے اور انہوں نے اسلام قبول کیا،انہیں آج بھی”مصلی”(مسلم چوڑا) کہا جاتا ہے،انڈو پاک میں۔
ہمارے معاشرے میں ان کیلئے ایک اور لقب بھی استعمال ہوتا ہے “دیندار”
پچھلے دنوں ایمن آباد سے میرے ایک مریض سے گفتگو کے دوران میں نے تعارف ہونے پر،اپنے ایک اور پیشنٹ فیملی کا حوالہ دیا تو وہ صاحب فوراً کہنے لگے
“اچھا او،جدے پتر نے دیندار کڑی نال ویاہ کر لیا سی”
میں نے حیران ہو کر پوچھا دیندار؟
اسی دیندار نئیں  کی؟؟
کہنے لگا “او میرا مطلب سی مصلی”

منا بھائی MBBS فلم میں،ہسپتال کے خاکروب چاچا عبدل مصلی کو،منا بھای کی جادو کی”جپھی”تو آپ سب کو یاد ہی ہو گی؟؟
بھارتی پنجاب میں کچھ سکھ چوڑے بھی ہیں جو “مذاہبی” کہلاتے ہیں اور دیہات میں،کھیتی باڑی اور جانوروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں،بعض انہیں “موالی” کے نام سے بھی پکارتے ہیں ۔
یہ لوگ بہت ہی محنت اور جفاکش ہوتے ہیں اور ایمانداری سے اپنی روزی کماتے ہیں۔

اب زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے،اس طبقہ کے لوگوں نے بھی معاشرے میں اپنا مقام بنانے کیلئے بہت محنت کی ہے،خود صفائیاں کر کے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا ہے۔
نرسنگ میں بہت سی کرسچئین بچیوں نے شمولیت اختیار کی اور دُکھی انسانیت کی بہت خدمت کر رہی ہیں،لیکن ان کو بھی ابھی تک ہم اپنے تعصب اور تنگ نظری سے معاشرے میں وہ مقام نہیں  دے سکے جو ان کا حق ہے بطور پاکستانی اور جو مذہبی رواداری ہمیں ہمارا دین سکھاتا ہے۔
میں نے اکثر اپنے ہی بھائی بندیوں کو انہیں “سیناں” کہتے سنا ہے۔

میرے دونوں ڈرائیورز،مالی اور میری ایک فی میل اور میل پرسنل سیکریٹری عیسائی  ہیں،اور گزشتہ دس سال سے میرے ساتھ ہیں،میں نے انہیں بہت خود دار،محنتی اور وفادار و ایماندار پایا ہے۔
مائیکل شام کا ڈرائیور،لیکن وہ ڈرائیور کم اور فاطمہ اسد ویلفیئر پروگرام میں معاون زیادہ ہے،اسی تنخواہ میں۔
شہر میں جہاں جہاں ہم نے ٹھنڈے صاف پانی کے الیکٹرک کولرز لگائے ہیں،سب کے فلٹرز اور مینٹیننس اور بلز کی ادائیگی مائیکل ہی کرتا ہے۔
گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں سٹی ہاؤسنگ میں بننے والے گھروں میں لگے مزدوروں کیلئےسبیل کا انتظام بھی اسی کے ذمہ ہے وہ بھی ڈور ٹو ڈور جا کر،بڑے جذبہ کیساتھ۔
اسکے ذمہ کام لگا کر میں بالکل بے فکر ہو جاتا ہوں،بلکہ  خود تو شاید کر ہی نہ پاتا۔۔۔ابو کا بھی وہ خوب دل لگاتا ہے اپنی خبروں سے۔

اس سے پہلے بوٹا مسیح تھا میرا ڈرائیور, جو کہ واپڈا ہسپتال میں بھی ملازم ہے،کمال کا وفادار آدمی ہے۔جب امی اور فاطمہ بیمار تھیں تو اکثر،مجھے پادری صاحبان کی طرف سے میسج آیا کرتا تھا کہ آج بوٹے نے آپ کیلئے چرچ میں خصوصی دعا کروائی ،بوٹے اور اسکے بھائی فوجی(ہمارا پرانا ملازم اور ریٹائیرڈ بیٹ مین) نے بڑی محنت سے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا ہے اور سب اچھی نوکری کر رہے ہیں،لیکن آج بھی بوٹے کو اپنے “کام” میں کوئی شرمندگی نہیں  بلکہ فخر ہے۔
بوٹے کا جواں سال بیٹا فیصل جو کہ میرے بھائی کے پاس ملازم تھا،اچانک ہارٹ اٹیک سے فوت ہوگیا،میں نے بوٹے کو اس المناک حادثے کے بعد بھی بہت صابر اور ہمیشہ مسکراتے پایا،مجھے اس سے،اس ضمن میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

عارف مسیح صبح کا ڈرائیور ہے اور اس نے بچوں کے سکول آنے جانے میں کبھی غفلت کا مظاہرہ نہیں  کیا اور اس نے بھی بیک وقت فاطمہ اسد اور امی کی بیماری میں شہر شہر بہت دوڑ دھوپ کی اپنا گھر بار بھلا کر۔

عمران میرے پرائیویٹ کلینک پر میرا سیکریٹری ہے،اور شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہے۔
مجھ سے اس بات پر ڈانٹ کھاتا ہے کہ تم نے اتنے زیادہ پیشنٹ کیوں بک کر لئے ہیں،یعنی مجھے زبردستی مریض دکھاتا ہے خاص طور پر جب بھی میرا “کمائ ی” سے زیادہ ہڈ حرامی کا موڈ ہو رہا ہو،میں نے آج تک کبھی فیس کی پرچیوں کا حساب نہیں  رکھا اور عمران نے بھی ہمیشہ میرا مان رکھا۔
عمران بھی فاطمہ اسد ویلفیئر پروگرام کے ذریعے،بیواؤں اور یتیموں کے ماہانہ وظیفہ کی ادائیگی اور ریکارڈ رکھنے میں میرا معاون ہے،اسی تنخواہ میں۔

میرے بہت سے کرسچیئن مریض ہیں جن کیساتھ میرا بڑا پیار ہے۔
ٹاپ پر ر جینا آنٹی اور انکے بچے شیرولین اور ہنوک،ہمیشہ کلینک پر افسردہ آتی ہیں اور ہنستی ہوئی ہی جاتی ہیں،ان سے ہنسی مذاق کرنے کو دل کرتا ہے اتنی ملنسار خاتون ہیں۔ہم اکثر مذہب کی باتوں پر بھی کھلے دل سے ڈسکشن کرتے ہیں جو ہم میں مشترک ہیں،قرآن کا بھی یہی حکم ہے،نرمی سے۔
پھر اے ڈی صاحب ہیں،سکول ٹیچر ہیں،وہ بھی میرے بغیر نہیں  ٹکتے،بہت مریض گھیر کر لاتے ہیں کمپنی کی مشہوری کیلئے۔
انکی والدہ سوزن جو کہ تقریباً سو سال کی تھیں،میرے علاوہ کسی کی دوائی نہ کھاتیں۔
جب بھی کلینک پر آتیں میں انہیں چھیڑتا۔۔“ ماں جی تسی ہلی ہے او”
وہ ہنس کر کہتیں “آہو ہے واں،توں تے کہندا ہوئیں گا اماں پار ہو گئی ہونی،جیڑا آئی نہیں”
واپڈا ہسپتال کے بھی ایک بزرگ پیشنٹ ہیں نام ان کا ابھی یاد نہیں  آ رہا ،عرصہ  دراز سے شدید دمہ کے مریض ہیں اکثر میرے لئے پین کا تحفہ لاتے ہیں،کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب تسی چھٹی نہ کریا کرو،تسی ہوندے او تے مینو لگدا اےکہ میں بچ جاواں گا(انشااللہ)۔
پچھلے دنوں میں انہیں ازراہ مزاح چھیڑ رہا تھا کہ
“ ہن جنے اٹیک تسی دمے دے سہہ لئے نیں نا،تسی کم از کم دمے نال نئیں مرنا،ٹردے پھر دے دھیان رکھیا کرو،او میری ذمہ داری نہیں ”
اور پھر ہم دونوں قہقہے لگا کر ہنس پڑے

مسٹر ڈیوڈ اور مسز سیمی ڈیوڈ بھی میرے پرانے پیشنٹ اور خوشحال،تعلیم یافتہ کرسچئین کمیونٹی سے تعلق ہے ان کا۔
wonderful couple
ڈیوڈ صاحب ہمیشہ اپنی بیگم صاحبہ کے چیک اپ کیلئے ہی ساتھ  آتے ہیں،حالانکہ خود بھی شوگر بلڈ پریشر کے پیشنٹ ہیں،میرے پوچھنے پر ہمیشہ فلسفیانہ انداز میں کہتے ہیں
“ڈاکٹر صاحب وہ میں نے Yoga اور Meditation سے ہی کنٹرول کر لی ہے،میڈیسن چھوڑ دی ہے۔اور خیر سے دونوں چیزیں چیک کرو تو ہمیشہ زیادہ،پھر مسکرا کر کہہ دیں گے،آج ذرا ٹینشن تھی بیگم صاحبہ کی اس لئے بڑھ گئی  ہو گی۔

آخر پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لوگوں سے مل جُل کر رہیے،اسی میں زندگی کی خوبصورتی ہے!

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تحریر ڈاکٹر صاحب کی فیس بک وال سے کاپی کی گئی ہے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply