ہندی فلم: گھوسٹ سٹوریز۔۔۔۔ذوالفقار علی زلفی

بھارت کی ہندی سینما میں anthology فلموں (فلموں کا گلدستہ) کی روایت نئی ہے ـ “بمبئے ٹاکیز” (2013) اور “لَسٹ اسٹوریز” (2018) کے بعد غالباً “گھوسٹ اسٹوریز” (2020) اس سلسلے کی تیسری اہم کوشش ہے ـ یہ چار کہانیوں پر مشتمل چار مختلف ہدایت کاروں زویا اختر، انوراگ کیشپ، دیباکر مکھرجی اور کرن جوہر کی ہدایت کاری سے تخلیق پانے والی ڈراؤنی کہانیوں کا گلدستہ ہے ـ

ذیل میں چاروں ہدایت کاروں کی کہانیوں پر مختصر تبصرہ پیش خدمت ہے ـ

زویا اختر

پہلی کہانی ہندی سینما کی ابھرتی ہوئی ہدایت کارہ زویا اختر کی تخلیق ہے ـ یہ دو مختلف پسِ منظر کی حامل خواتین کی داستان ہے ـ ان میں سے ایک ضعیف العمر و قریب المرگ عورت ہے جبکہ دوسری اس کی نوجوان نرس ـ دونوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے؛ انتظار ـ

تنہائی و بیماری سے لڑتی بوڑھی عورت اپنے جوان بیٹے کی منتظر ہے ـ انتظار کی شدت کے باعث اس کی چھٹی حس ہمیشہ بیدار نظر آتی ہے ـ وہ دروازے کی گھنٹی بجنے سے پہلے جان جاتی ہے کوئی آنے والا ہے ـ یتیم خانے میں پلنے والی خوبرو نرس تنہائی اور مستقبل کے خدشات سے ڈری سہمی رہتی ہے ـ اسے ہر آن اپنے شادی شدہ بوائے فرینڈ کا انتظار رہتا ہے ـ

ایک ہی کشتی میں سوار دونوں خواتین بظاہر مختلف منازل کے راہی ہیں مگر انتظار کی مشترکہ کیفیت کی وجہ سے ان کے درمیان ایک متضاد رشتہ بن جاتا ہے ـ بالآخر بوڑھی عورت نوجوان لڑکی کو یہ نصیحت کر کے انتظار کے کرب سے نجات دلاتی ہے کہ “جان ہے تو جہان ہے” ـ یعنی لڑکی کو ایک کمزور سہارے کے انتظار کی بجائے اپنا راستہ خود چننا چاہیے ـ امید و انتظار میں گندھی یہ کہانی مختصر مگر جاندار ہے ـ

انوراگ کیشپ

دوسری کہانی ممتاز ہدایت کار انوراگ کیشپ کی تخلیق ہے ـ مختصر دورانیے کی یہ فلم “نو اسموکنگ” (2007) کی یاد دلاتی ہے ـ

کہانی میں دو پہلو ساتھ ساتھ چلتے ہیں ـ ایک طرف ایک ایسی عورت ہے جس کے بچے پیٹ میں ہی ضائع ہو جاتے ہیں ـ عورت نفسیاتی لحاظ سے احساسِ جرم کا شکار ہے ـ وہ سمجھتی ہے بچپن میں اس نے پرندے کے انڈے ضائع کر کے جس طرح وقت سے پہلے اس کے بچوں کو مار دیا تھا اب قدرت اسے اس جرم کی سزا دے رہی ہے ـ جرم و سزا کے خودساختہ احساس نے اس کی نفسیات پر گہرے منفی اثرات مرتب کر کے اسے نیم پاگل بنا دیا ہے ـ

دوسری جانب اس کا چھوٹا بھانجا ہے ـ بھانجا اپنی مری ہوئی ماں کو اپنی نفسیاتی مریضہ ماسی میں دیکھتا ہے ـ اسے ڈر ہے ماسی اگر اپنے بچے کی ماں بنی تو وہ دوسری دفعہ اپنی ماں کھو دے گا ـ بھانجا اپنی پراسرار قوتوں کو استعمال کر کے حاملہ ماسی کے بچے کو پیٹ میں ہی مارنے کی کوشش کرتا ہے ـ

یہ ایک نہایت ہی پیچیدہ فلم ہے ـ انوراگ کیشپ نے کہانی میں مختلف چیزیں ڈال کر اسے پھیلا دیا ہے ـ فلم کا دورانیہ مختصر جبکہ کہانی مختلف پہلوؤں کی حامل ہے نتیجہ یہ کہ فلم انتشار کی جانب نکل جاتی ہے ـ وحدت سے محرومی فلم کی سب سے بڑی خامی بن کر سامنے آتی ہے ـ مختصر دورانیے کی فلم میں وحدت اہم ہے ـ انوراگ کیشپ نے اس بنیادی اصول کو نظرانداز کر کے ایک اچھی بھلی فلم کا جنازہ نکال دیا ہے ـ

دیباکر مکھرجی

تیسری فلم سیاسی کشمکش کی تمثیل ہے ـ اس میں دکھایا جاتا ہے کہ انسانوں کے ایک طاقت ور گروہ نے کمزور گروہ کو کھانا شروع کر دیا ہے ـ کمزور کے پاس بچنے کا صرف ایک راستہ ہے ـ وہ بھی طاقت ور گروہ کی مانند آدم خوری کا راستہ اپنائے ـ

فلم کے مطابق مروجہ سیاسی نظام میں کمزور کی کوئی جگہ نہیں ہے ـ یا تو وہ نظام کا پرزہ بن کر سیاسی طاقت رکھنے والے گروہ کے مفادات کا تحفظ کرے یا دوسری صورت میں تباہ ہونے کے لیے تیار رہے ـ

فلم کا مرکزی خیال دلچسپ اور فکر انگیز ہے ـ تاہم ہدایت کار مرکزی خیال کے ساتھ مکمل انصاف کرنے میں ناکام رہے ہیں ـ اس فلم کی سب سے بڑی خامی کہانی کی کمزور بُنت اور اداکاروں کا میک اپ ہے ـ زومبی جنر سے متاثر ہونے کے باوجود ہدایت کار زومبی دکھا نہ پائے ـ سنجیدہ سیاسی موضوع کو مکھرجی نے ایک ایسی مزاحیہ فلم بنا کر پیش کیا ہے جس پر ہنسی بھی نہیں آتی جبکہ دعویٰ ڈراؤنی فلم کا ہے ـکرن جوہر

چوتھی کہانی ایلیٹ کلاس طبقے پر فلمیں بنانے کی شہرت رکھنے والے فلم ساز کرن جوہر کی ہے ـ یہ فلم کرن جوہر کی سابقہ تخلیقات سے مختلف نہیں ہے ـ

یہ ایک ایلیٹ کلاس گھرانے کی کہانی ہے جہاں مری ہوئی دادی کا حکم چلتا ہے ـ گھرانے کے تمام اراکین بشمول نوکر دادی کے حکم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ـ ارینج میرج کے ذریعے آنے والی بہو مروجہ نظام کے خلاف بغاوت کرتی ہے ـ

بغور دیکھا جائے تو یہ بھی کسی حد تک سیاسی اور بڑی حد تک مذہبی پہلو لیے ہوئے ہے ـ سماج پر ایک نظر نہ آنے والی قوت کی حکمرانی ہے ـ ان دیکھی قوت کا فیصلہ ہی حرفِ آخر ہے ـ اگر کوئی سرپھرا جانے انجانے میں اس قوت کے حکم سے سرتابی کرے یا اس کے وجود پر سوال اٹھائے تو پورا سماج اس کے دفاع میں کھڑا ہو جاتا ہے ـ قدیم روایتوں میں جکڑا سماج سوال اٹھانے والے کو دنیا سے ہی اٹھوا لیتا ہے ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

کرن جوہر نے اپنے مخصوص انداز میں کہانی کو نپے تلے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ـ یہ کوشش ناکام تو نہیں کہی جاسکتی لیکن اسے متاثر کن قرار دینا بھی شاید مشکل ہو گا ـ کہانی کا ٹیمپو تیز ہے ـ جس کی وجہ سے بعض پہلو تشنہ رہ جاتے ہیں ـ تشنہ پہلو اسکرین پلے میں جھول پیدا کرتے ہیں جو آخری تجزیے میں فلم کی خامی بن جاتی ہے ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply